انسانی زندگی پر گناہوں کے اثرات اور توبہ کے فضائل و آداب

July 26, 2024

مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی

(گزشتہ سے پیوستہ)

مغفرت ومعافی کانظام:۔ ایک مسلمان سے گناہ سرزد ہوجاتے ہیں، لیکن خوفِ خدا اورآخرت کی بازپُرس اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیتی، وہ اپنے کیے پر برابر پچھتاتا، پشیمان ہوتا، بارگاہِ الٰہی میں روتا، گڑگڑاتا، سچے دل سے معافی مانگتا، توبہ کرتا اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرماکر جہنم کی سزابھی معاف کردیتا ہے۔

مغفرت ومعافی کے دس اسباب ہیں، جن کی نشاندہی علامہ ابن تیمیہؒ نے ’’منہاج السُّنّۃ‘‘ میں کی ہے، وہ لکھتے ہیں:’’مطلق گناہ ہرمومن کے لیے جہنم کے عذاب کاباعث ہے، آخرت میں یہ عذاب حسبِ ذیل دس اسباب کی وجہ سے ختم کردیا جاتا ہے:

پہلا سبب:۔ توبہ ہے، گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہوجاتا ہے جیساکہ اس نے کوئی گناہ کیاہی نہیں۔ کفر، فسق، فجور، نافرمانی اورعصیان سب سے توبہ قبول کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:ترجمہ: ’’کیا پھر بھی یہ لوگ معافی کے لیے اللہ کی طرف رُجوع نہیں کریں گے؟ اور اس سے مغفرت نہیں مانگیں گے؟ حالانکہ ﷲ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔‘‘ (سورۃالمائدہ:۷۴)

توبہ سے گناہ معاف ہی نہیں ہوتے، بلکہ اللہ کے یہاں مرتبہ بھی بلند ہوتا ہے، جب وہ کسی کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور وہ توبہ کرتا ہے تو ایسی توبہ کرتا ہے کہ وہ توبہ اسے بعض اوقات منتہائے کمال کو پہنچادیتی ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ توبہ کو پسند فرماتا ہے چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ : ’’بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی طرف کثرت سے رجوع کریں ، اور ان سے محبت کرتا ہے جو خوب پاک صاف رہیں۔‘‘(سورۃالبقرہ:۲۲۲)

توبہ سے برائیاں اچھائیوں میں بدل دی جاتی ہیں۔ گناہ کے بعد بندہ توبہ کرتا ہے اسے شرمساری ہوتی ہے، وہ بارگاہِ الٰہی میں گڑگڑاتا، روتا دھوتا ہے۔ اس ندامت وفروتنی سے اسے وہ حاصل ہوتا ہے جو اسے پہلے حاصل نہ تھا۔ توبہ اللہ کے یہاں سب سے زیادہ پسندید ہ نہ ہوتی تووہ اکرمِ خلق کو آزمائش وابتلاء میں نہ ڈالتا، ایک حدیث میں آتاہے : ’’میرا ذکر کرنے والے میرے ہم نشیں ہیں، میرا شکر کرنے والے میری طرف سے زیادہ نعمت کے مستحق ہیں، میرے اطاعت شعار بندے میری عنایت وکرم کے مستحق ہیں، لیکن میں اہلِ معصیت اور گنہگاروں کو اپنی رحمت سے مایوس نہیں کرتا، اگر وہ توبہ کریں تو میں ان کا حبیب ہوں، اور وہ توبہ نہ کریں تو میں ان کا طبیب ہوں، انہیں مصائب میں ڈالتا ہوں، تاکہ انہیں برائیوں اورخرابیوں سے پاک وصاف کروں، توبہ کرنے والا اللہ کا دوست ہے، خواہ جوان ہویا بوڑھا۔‘‘

دوسرا سبب:۔ استغفار کرنا ہے۔ استغفار کے معنی مغفرت وبخشش مانگنا، معافی مانگنا ہیں۔ استغفار‘ دعا اور سوال کی جنس سے ہے، اور اکثر وبیش تر توبہ کے ساتھ آتا ہے، استغفار کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے، لیکن انسان کبھی توبہ کرتا ہے اور دعا نہیں مانگتا اور کبھی دعا مانگتا ہے تو بہ نہیں کرتا۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اللہ رب العزت سے نقل کرتے ہیں، یعنی حدیثِ قدسی ہے :’’کسی بندے نے کوئی گناہ کیا اور شرمسار ہوکر کہا: اے میرے رب ! مجھ سے گناہ ہوگیا تومجھے بخش دے، پھر اس کے رب نے فرشتوں سے مخاطب ہوکر کہا: کیا میرے بندے کوعلم ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور اسے گناہ پر پکڑتا ہے؟ میں نے اپنے بندے کو معاف کیا، پھر وہ گناہ سے باز رہا جب تک اللہ نے چاہا، پھر گناہ کربیٹھا، اس نے پھر کہا: اے میرے رب! مجھ سے دوسرا گناہ سرزد ہوگیا تو مجھے معاف فرما، اللہ نے پھر فرمایا کہ میرے بندے کومعلوم ہے کہ اس کارب ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور اسے گناہ پرپکڑتا ہے؟ میں نے اس کی وجہ سے اپنے بندے کوبخش دیا، پھر وہ گناہ سے بازرہا جب تک اللہ کومنظورہوا ، پھر اس سے گناہ سرزد ہوگیا، پھر اس نے عرض کی: میرے رب مجھ سے پھر گناہ سرزد ہوگیا تو مجھ سے درگزر کر، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا میرے بندے کو یقین ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ سے درگزر کرتا ہے اور اسے گناہ پر پکڑتا ہے؟ میں نے اپنے بندے کو بخش دیا، پس اسے چاہیے جو چاہے کرے۔‘‘

توبہ تمام برائیوں اور گناہوں کو مٹادیتی ہے، اور توبہ کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں جو تمام گناہوں کو مٹادیتی ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :ترجمہ : ’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشتاکہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر گناہ کی جس کے لیے چاہتا ہے بخشش کرتا ہے، اور جو شخص ﷲ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے ، وہ راہِ راست سے بھٹک کر بہت دُور جا گِرتا ہے۔‘‘(سورۃالنساء:۱۱۶)

اللہ تعالیٰ توبہ کے متعلق فرماتا ہے: ترجمہ: ’’ کہہ دو کہ :’’ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، ﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، یقین جانو! ﷲ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے، یقیناً وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔‘‘ (سورۃالزمر:۵۳)

نوٹ: استغفار توبہ کے بغیر مغفرت کو لازم نہیں کرتا، لیکن وہ معافی وبخشش کا ایک سبب ضرور ہے۔

تیسرا سبب:۔ اعمالِ صالحہ (یعنی نیک اوراچھے کام) ہیں ،چنانچہ قرآن کہتا ہے: ترجمہ : ’’ یقیناً نیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں، یہ ایک نصیحت ہے ان لوگوں کے لیے جو نصیحت مانیں۔‘‘(سورۂ ہود:۱۱۴)

رسول اللہ ﷺنے حضرت معاذبن جبلؓ سے فرمایا تھا:’’ اے معاذ! اللہ سے ڈرتے رہو ،جہاں کہیں بھی ہو، بُرائی ہوجائے تو اس کے بعد نیکی کرو، نیکی بُرائی کو ختم کردیتی ہے ،اورلوگوں سے حسنِ اخلاق سے پیش آؤ۔‘‘ ایک اور موقع پر حضوراکرم ﷺ نے فرمایا:’’ تم نے دیکھا؟ تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر بہتی ہو اور اس میں وہ پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو توکیا اس کے بدن پر کچھ میل باقی رہے گا؟ صحابہؓ نے جواب دیا: نہیں، فرمایا: اسی طرح پانچ وقت کی نمازیں گناہوں کو مٹادیتی ہیں جس طرح پانی میل کومٹادیتا ہے۔‘‘

یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ ہرنیکی اور حسنہ ہربُرائی اور سّیئہ کونہیں مٹاتی، بلکہ مقابلۃً کبھی وہ صغائر کومٹاتی ہے اور کبھی کبائر کومٹاتی ہے، گویا اخلاص کے اعتبار سے یہ فرقِ مراتب ملحوظ رکھا گیا ہے۔

چوتھا سبب:۔مؤمنین کے لیے دعا کرنا ہے ، مسلمانوں کی جنازہ کی نماز پڑھنا، اور اس میں مُردہ وزندہ ہر ایک کے لیے مغفرت وبخشش کی دعا مانگنا، اسی طرح نمازِ جنازہ کے علاوہ بھی مؤمنین کا مسلمانوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنا بخشش کا باعث ہے، چنانچہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مسلمانوں کے حق میں برابر مغفرت کی دعا مانگنا احادیث سے ثابت ہے۔

پانچواں سبب:۔ رسالت مآب ﷺ کا امتِ محمدیہ کی مغفرت کی دعافرمانا ہے، چنانچہ آپﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ان کے حق میں استغفار کیا ہے اور وفات کے بعد قیامت کے دن مؤمنین کا آپ ﷺکی شفاعت سے سرفراز ہونا ہے، ان میں وہ مخصوص لوگ بھی شامل ہیں جوآپ ﷺکی دعا اور شفاعت سے زندگی اور موت سے سرفراز ہوتے ہیں۔

چھٹا سبب :۔وہ نیک عمل ہے جومرنے کے بعد مرد ہ کو تحفہ وہدیہ کے طور پر پہنچتا ہے، جیسے کسی کاکسی کی طرف سے صدقہ کرنا، حج کرنا، روزہ رکھنا، اس کا اجروثواب مردے کو پہنچتا ہے، اور اس سے اُسے فائدہ ہوتا ہے۔

ساتواں سبب :۔دنیوی مصائب ہیں: اللہ تعالیٰ دنیوی مصائب سے بھی گناہوں کا کفارہ کردیتے ہیں، جیسا کہ رسالت مآب ﷺ نے فرمایا: مؤمن کو جو مصیبت وتکلیف، رنج وغم اوراذیت پہنچتی ہے، حتیٰ کہ کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کی خطائیں اور گناہ معاف کردیتا ہے۔ اس سلسلے میں بکثرت روایات آئی ہیں۔

صحابہ ؓ خاص مصائب اور آزمائشوں سے گزرے ہیں اور عام مصائب سے بھی، چنانچہ فتن میں بہت سے قتل کیے گئے، اورجوزندہ رہے انہوں نے اپنے اہل وعیال ، عزیزواقارب کوبھی راہِ خدا میں شہید ہوتے دیکھا، اور وہ اپنے مال میں آزمائش سے گزرے، خود بھی زخم خوردہ رہے، حکمرانی اورعزت وغیرہ سے محروم کیے گئے، یہ تمام ایسے امور ہیں جو مسلمانوں کی سیئات کو مٹا دیتے ہیں، پھر صحابہ ؓ کیوں اس سے محروم رہتے؟

آٹھواں سبب:۔ مؤمن کا اپنی قبرمیں جھٹکے اور فرشتوں کے سوالات سے (جو امتحان و آزمائش ہے) گزرنا بھی گناہوں کو مٹادیتا ہے اورمغفرت کا سبب بنتاہے۔

نواں سبب:۔ آخرت میں قیامت کے دن کی ہولناکی ، بے چینی اورتکلیف کو برداشت کرنا ہے ۔

دسواں سبب:۔ مؤمنین کاپُل صراط سے گزرنا، جنت ودوزخ کے پل پرٹھہرنا، اور جہنّم کے مناظر کو دیکھنا، اور اس سے تہذیب وتربیت پاکر جنت میں داخلے کی اجازت وبشارت سے سرفراز ہونا ہے۔

نوٹ:مذکورہ بالا اسبابِ عشرہ ان صورتوں میں ہیں جب گناہ محقق وثابت ہوں۔

ساتویں، آٹھویں، نویں اور دسویں سبب میں جو مختلف تکالیف پرگناہوں کی معافی کا ذکر ہے، ان کا مقصد تطہیر ہے، ایک مسلمان کو اس کے گناہوں سے اس طرح پاک صاف کرنا ہے جس طرح دھوبی کپڑے کو میل کچیل سے پاک صاف کرتا اور داغ دھبے مٹاکر اسے قابلِ استعمال بناتا ہے۔ یہ سزا ایک مسلمان کو جنت میں داخل کرنے، اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے اور ہمیشہ آرام وراحت سے زندگی بسر کرنے کا اہل ومستحق بنانے کے لیے دی جاتی ہے۔