• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی زندگی پر گناہوں کے اثرات اور توبہ کے فضائل و آداب

مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی

جرم و خطا۔گناہ اور قابلِ مؤاخذہ عمل:۔ انسان فطری طور پر کمزور واقع ہوا ہے، اس میں بعض ایسی قوتیں(جیسے قوتِ غضبیہ اور قوتِ شہویہ) ودیعت کی گئی ہیں کہ ان پر قابو پانا آسان نہیں، اس لیے اس سے خطاہوتی رہتی ہے،وہ کبھی جان بوجھ کر جرم کر بیٹھتا ہے، کبھی انجانے میں اس سے گناہ ہوجاتا ہے ، بھول چوک سے بھی لغزش ہوجاتی ہے۔ بہر حال خطا و جرم قابلِ مؤاخذہ ہے۔

گناہوں کی اصل:۔غفلت ، نسیان، بھول چوک، گمراہی اور بے راہ روی اس کی جڑ ہیں، شمس الدین ابن قیم الجوزیہ دمشقی ؒ متوفی ۷۵۱ھ ’’الجواب الکافی ‘‘صفحہ: ۳۳۱ پر رقم طراز ہیں :’’معاصی، شہوت و شبہات کے خلاف جہاد کے لیے حسب ذیل امور کی تکمیل ضروری ہے: 1-دشمن کے مقابلے میں پامردی۔۲- دشمن کی نگرانی اور سرحدوں کی نگہبانی۔۳- قلوب اور اس کی سرحدوں کی حفاظت، تاکہ دشمن سرحدوں سے اندر نہ آسکے۔ 

سرحدیں یہ ہیں:۱- آنکھ، ۲-کان، ۳-زبان، ۴- پیٹ، ۵- ہاتھ، ۶- پاؤں۔‘‘یہی راستے ہیں جن سے دشمن اندر داخل ہونے کا راستہ پاتا ہے ، لہٰذا ان سر حدوں کی حفاظت کرو، تاکہ دشمن داخل نہ ہوسکے۔ یہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے ،جنہوں نے ان سر حدوں کی اچھی طرح حفاظت کی ، ان سر حدوں کی حفاظت ورع وتقویٰ سے کی جاتی ہے ، دعاؤں میں کثرت سے اس کا ذکر موجود ہے۔

گناہ و معصیت کا ظاہری اثر:۔گناہ و معصیت کا ظاہری اثر یہ ہوتا ہے کہ گنہگار کو مدح و شرف کے بجائے مذمّت کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے، چنانچہ اسے مؤ من ، صالح ، محسن، متقی، مطیع، منیب (اللہ سے رجوع کرنے والا) ولی، عابد ، خائف، اَوّاب (اللہ سے لَو لگانے والا) وغیرہ الفاظ کے بجائے فاجر، عاصی، معاند (مخالفِ حق)،مفسد، خائن، زانی ، لوطی، سارق (چور) قاتل، کذاب (دروغ گو) رشتہ توڑنے والااور بے وفا کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے، جو اسے قہرِ الٰہی کی وجہ سے دوزخ میں جانے کامستحق اور ذلت و رسوائی کی زندگی گزارنے والا بنادیتا ہے۔ اس کے برعکس متقی، رحمٰن کی رضا اور جنت میں داخلے کا مستحق ہوتا ہے۔

گناہوں کی اقسام:۔گناہوں کا دائرہ نہایت وسیع ہے، تاہم محققین علماء نے بڑے بڑے گناہوں کی نشاندہی کی ہے، ان سے احتراز ہر حال میں لازم ہے، چنانچہ علامہ ابن قیم الجوزیہؒ ’’الجواب الکافی‘‘میں رقم طراز ہیں :’’گناہوں کی دو قسمیں ہیں :1-کبائر (بڑے بڑے گناہ)، 2-صغائر (چھوٹے چھوٹے گناہ)۔ ان معا صی کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی فرماں بردار حاکم اپنے غلام و خادم کو کسی مہم پر دور بھیجے اور دوسرے کو حکم دے کہ گھر کا فلاں کام کرنا، پھر وہ دونوں ا س کی سر تابی کریں تو ان پر اس کی ناراضی برابر ہوگی، وہ دونوں ہی اس کی نظر سے گر جائیں گے۔‘‘

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ ’’استخفاف المعاصی ‘‘ میں فرماتے ہیں :’’ہرگناہ (گو وہ صغیرہ ہو) اپنی حقیقت کے اعتبار سے عظیم ہے، کیونکہ گناہ کی حقیقت ہے حق تعالیٰ شانہ کی نافرمانی، اور نافرمانی خواہ چھوٹی ہو، بڑی ہے، باقی گناہِ صغیرہ اور کبیرہ کا تفاوت ایک امرِ اضافی ہے، ورنہ اصل حقیقت کے اعتبار سے سب گناہ بڑے ہی ہیں، کسی کو ہلکانہ سمجھنا چاہیے، جیسے آسمانِ دنیا عرش سے چھوٹا ہے، مگر حقیقت میں کوئی چھوٹی چیز نہیں (ناپاکی‘ ناپاکی ہے، چاہے تھوڑی ہو، مگر حقیقت میں ناپاکی ہے)۔‘‘

موصوف ’’تذکیرالآخرۃ‘‘ میں رقم طراز ہیں :’’گناہ ِصغیرہ (چنگاری کی طرح ہے) چھوٹا سا گناہ بھی تمام نیکیوں کو بربادکرسکتا ہے، جس طرح چھوٹی سی چنگاری سارے گھر کو جلا کر خاکستر بنا دیتی ہے۔‘‘تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گناہوں کے درجات او ر ان کی سز ا ئیں مختلف ہیں۔

کبائر کی تعریف:۔وہ علماء جنہوں نے کبیرہ گناہوں کے عدد کی تعیین و تحدید نہیں کی ، ان میں سے بعض علماء کہتے ہیں: قرآن میں جن گناہوں سے اللہ تعالیٰ نے روکاہے ، وہ کبیرہ ہیں اور جن گناہوں سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا، وہ صغیرہ ہیں۔ بعض اہلِ علم نے کہا ہے :جن گناہوں کی ممانعت یا جن پر لعنت و غضب کی وعید یا سزا آئی ہے ،وہ کبیرہ ہیں، ورنہ صغیرہ ہیں۔ بعض علماء کا قول ہے: دنیا میں جن پر حد قائم ہو یا آخرت میں وعید آئی ہو، وہ کبیرہ ہیں اور جن کے متعلق نہ وعید آئی اور نہ حد قائم ہوئی ،وہ صغیرہ ہیں۔

بعض کا مختارقول یہ ہے: جن گناہوں کے حرام ہونے پر شرائع متفق ہیں، وہ کبائر ہیں، جنہیں کسی شریعت نے حرام قرار نہیں دیا، وہ صغائر ہیں۔ بعض علماء کا خیال ہے: جس گناہ کے کرنے والوں پر اللہ و رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ، وہ کبیرہ ہیں۔ 

جن علماء نے گناہوں کی تقسیم کبائر و صغائر میں نہیں کی، وہ کہتے ہیں :تمام گناہ جن میں سرتابی و جرأت پائی گئی اور حکمِ الٰہی کی مخالفت پائی گئی وہ کبائر میں داخل ہیں۔ جس نے’’امر اللہ‘‘حکمِ الٰہی سے سرتابی کی ، محارم و حدود اللہ کو توڑا، وہ تمام گناہ کبیرہ ہیں، اورفساد میں برابر ہیں۔

کبائر کی تعداد:۔کبائر کی تعداد میں اختلاف ہے: عبد اللہ بن مسعود ؓ چار بتاتے ہیں۔ عبداللہ بن عمر ؓ سات فرماتے ہیں اور عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ نو بیان کرتے ہیں، بعض علماء گیارہ اور بعض سترہ کے قائل ہیں۔

گناہوں کی اقسامِ اربعہ،گناہ (ذنوب) چار قسم کے ہیں :1-ذنوبِ ملکیہ۔2-ذنوب ِشیطانیہ۔3-ذنوب ِسبعیہ۔4-ذنوبِ بہیمیہ۔

1-ذنوبِ ملکیہ: صفاتِ ربوبیہ کا انجام دینا،جیسے عظمت، کبریائی، جبروت، قہر، علو کا اظہار کرنا اور خلقِ خدا کو بندہ بنانا۔

2-ذنوبِ شیطانیہ:حسد،سرکشی،دغابازی، کینہ پروری، مکرو فریب اور معاصی پر اکسانا اوراطاعتِ الٰہی و فرماں برداریِ خداوندی سے روکنا،اسے کمتر سمجھنا، بدعت کی طرف لوگوں کو بلانا، اگرچہ اس کی خرابی پہلے سے کمتر ہے۔

3-ذنوبِ سبعیہ: عُدوان،سرکشی،غضب،خون بہانا، کمزوروں کو دبانا، ظلم و سرکشی پر جرأت کرنا۔

4-ذنوبِ بہیمیہ :پیٹ اور شرم گاہ کی خواہشات پوری کرنا جس سے زنا کا ارتکاب ہوتا ہے، چوری کرنا، یتیموں اور ناداروں کا مال کھانا، بخل و حرص ، بزدلی، مصیبت کے وقت صبر نہ کرنا، وغیرہ ہیں۔

مُکفرات کے درجات ِثلاثہ:۔مُکفرات (گناہوں کو مٹانے والے اعمال) کے تین درجے ہیں :

1- بعض وہ اعمال ہیں جو اپنی کمزوری و ناتوانی کی وجہ سے چھوٹے گناہوں کو بھی مٹانے کے لائق نہیں، چنانچہ بعض نیک اعمال‘ اخلاص اورحقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی بناءپرضعیف دوا کی حیثیت رکھتے ہیں جو کمیت و کیفیت کے اعتبار سے بہت کم اثر کرتی ہے۔

2- بعض وہ اعمال ہیں جو صغائر کے لیے کفارہ ہوجاتے ہیں، چھوٹے گناہ ان کی وجہ سے معاف ہوجاتے ہیں، لیکن وہ کبائر میں سے کسی گناہ کو نہیں مٹاتے۔

3- وہ اعمال ہیں جو ایسی طاقت رکھتے ہیں کہ صغائر کو مٹاتے ہی ہیں، بعض کبائر کو بھی مٹادیتے ہیں۔

اسماعیل حقی بروسیؒ متوفی ۱۱۳۷ھ نے ’’روح البیان فی تفسیر القرآن، ج:۲‘‘ میں آیۂ شریفہ: ’’کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰی، الخ‘‘ کی تفسیر میں گناہوں کی تین قسمیں ذکر کی ہیں، چنانچہ وہ رقم طراز ہیں: ترجمہ: ’’تم جان لو کہ گناہوں کی تین قسمیں ہیں: ایک وہ گناہ ہے جوبہ یک وقت اللہ اور بندے دونوں کے حق سے تعلق رکھتاہے، مثلاً زنا، لواطت اور غیبت وبہتان ہیں۔ آخری دوگناہ غیبت وبہتان کاتعلق آپ کے ساتھ اس وقت تک ہے جب تک ان گناہوں سے اسے خبرنہ لگے جس کی بدگوئی کی گئی ہے اور جس پر بہتان تراشی کی گئی ہے، جب اسے خبر ہوگئی اور اس نے معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے اُمید ہے کہ وہ بھی معاف فرمادے گا۔

اسی طرح اگرکسی کی بیوی سے زناکیا، جب تک شوہر معاف نہ کرے، معاف نہ ہوگا، اس لیے کہ یہ حق عورت پر شوہر کے من جملہ حقوق میں سے ایک حق ہے، لہٰذا شوہر سے معاف کرانے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرنے کے بعد ہی اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔ شوہر سے معاف کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس فعل کو بعینہ ذکرنہ کرے، بلکہ یوں کہے کہ: تمہارا میرے ذمہ جو حق ہے، اسے معاف کردو، لہٰذا شوہر کایہ کہنا کہ میں اپنے تمام حقوق جو تمہارے ذمہ ہیں معاف کرتا ہوں، کافی ہوگا، لہٰذایہ معلوم شے کی صلح مجہول شے پر ہوئی۔ یہ امتِ محمدیہ کے لیے کرامۃً جائزہے، ورنہ پچھلی تمام امتوں میں یہ ضروری تھا کہ گناہ معاف کراتے وقت اس گناہ کاذکر کیاجائے جسے معاف کراناتھا ،پھراللہ تعالیٰ کی معافی ہوتی تھی۔

دوسرا: وہ گناہ ہے جس کابندے سے تعلق اس حیثیت سے ہے کہ وہ اعمال اللہ تعالیٰ نے بندے پرفرض کیے ہیں، مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اورحج ہے، کسی نے انہیں چھوڑ رکھا ہے، لہٰذا محض توبہ کرنا کافی نہیں ہے جب تک ان کی قضانہ کی جائے، اس لیے کہ یہ گناہ ایسا گناہ ہے جس کی توبہ کی شرط یہ ہے کہ وہ چھوڑے ہوئے عملوں کی قضا کرے، ورنہ توبہ بے اثر رہے گی۔

تیسرا: وہ گناہ ہے کہ جس کاتعلق گناہ کرنے والے اوردوسرے لوگوں کے ساتھ بھی ہے، مثلاً کسی کا مال چھین لیا، غصب کرلیا، یاکسی کی ناحق پٹائی کی، یاکسی کوگالی دی، یا ناحق کسی کو مارڈالا، لہٰذا صرف توبہ کرنا کافی نہیں، جب تک کہ جس کامال لیا یا گالی دی، وہ یا مقتول کے ورثاء معاف نہ کردیں، یاپھر اعمالِ صالحہ میں اتنی کوشش کی جائے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان دونوں کی آپس میں صلح کرادیں، چنانچہ بندہ جب توبہ کرے اور اس کے ذمہ لوگوں کے حقوق بھی ہوں تو اسے چاہیے کہ ان کے حقوق اداکرے، اگر لوگوں کے حقوق اداکرنے سے عاجز آجائے اور قاصر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی مغفرت فرمائے گا، چنانچہ قیامت کے دن اسے حکم دیا جائے گا کہ اپنا سراٹھاؤ، جوں ہی وہ سر اٹھائے گا ،بڑے بڑے محل اس کی نگاہ کے سامنے ہوں گے، جنہیں دیکھ کر یہ پوچھے گا: اے اللہ! یہ کس کے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم بھی اُنہیں لے سکتے ہو، ان کی قیمت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کومعاف کردو، تووہ کہے گا: اے اللہ! میں نے معاف کیا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑو اورجنت میں چلے جاؤ۔‘‘ (روح البیان فی تفسیر القرآن، ج:۲،ص:۲۸۶)

گناہوں سے توبہ اور اس کی شرائط:۔ہر مؤمن مکلّف پرگناہ سے توبہ کرنا فرض ولازم ہے اور اس میں تین باتیں ضروری ہیں:

1- گناہ پر ندامت وشرمساری اس حیثیت سے نہیں کہ اسےبدنی یامالی نقصان ہواہے، بلکہ اس حیثیت سے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوئی ہے۔

2- بلاتأخیر اورسُستی کے ،پہلی ممکنہ فرصت میں گناہ کوچھوڑنا۔

3 - کبھی بھی اس گناہ کونہ کرنے کا پختہ عزم اورا رادہ رکھنا اور اللہ نہ کرے، پھر وہ گناہ سرزد ہوجائے توازسرِ نو اس عزم وارادے کی تجدیدکرنا۔

توبہ کے آداب:۔ نہایت عاجزی وانکساری سے گناہ کااعتراف واقرار کرنا۔ اس پر استغفار کرنا، اس غلطی وگناہ پر اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عاجزی وتضرع سے معافی مانگنا۔ کثرت سے نیکیاں کرکے پچھلی بُرائیوں کومِٹانا۔

توبہ کے مراتب:۔1- کفّارکاکفر سے توبہ کرنا۔ 2-نیکی وبرائی کرنے والوں کاکبیرہ گناہوں سے توبہ کرنا۔ 3- سچّے اورنیک لوگوں کا صغائر (چھوٹے گناہوں) سے توبہ کرنا۔ 4-عبادت گزاروں کا کاہلی، کمزوری اور کوتاہی سے توبہ کرنا۔ 5- سالک ورَہروانِ طریقت کادلوں کے روگ اورکھوٹ سے توبہ کرنا۔ 6- پارساؤں کاشبہات سے توبہ کرنا۔ 7- اربابِ مشاہدہ کاغفلتوں سے توبہ کرنا۔

اسبابِ توبہ :۔1- عذاب کا خوف، 2- ثواب کی امید، 3-حساب کے دن کی ندامت وشرمساری، 4- حبیب کی محبت، 5-ذاتِ باری تعالیٰ کا مراقبہ، 6- بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہونے کا خیال، 7- انعامِ الٰہی کا شکر۔

یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ گناہوں کومعاف کرانے کاواحد ذریعہ توبہ ہے، اور توبہ وہی قبول کی جاتی ہے، جس میں آئندہ گناہ نہ کرنے کاپختہ عزم ہوتاہے، قرآن حکیم کہتا ہے:ترجمہ: ’’اللہ نے توبہ قبول کرنے کی جو ذمہ داری لے لی ہے، وہ ان لوگوں کے لیے جو نادانی سے کوئی برائی کرڈالتے ہیں، پھر جلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں، چنانچہ اللہ ان کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اور ﷲ ہر بات کو خوب جاننے والا بھی ہے، حکمت والا بھی ، توبہ کی قبولیت ان کے لیے نہیں جو بڑے گناہ کرتے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت کا وقت آکھڑا ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں نے اب توبہ کرلی ، اور نہ ان کے لیے ہے جو کفر ہی کی حالت میں مرجاتے ہیں ، ایسے لوگوں کے لیے تو ہم نے دُکھ دینے والا عذاب تیار کررکھاہے۔‘‘(سورۃالنساء:۱۷-۱۸)

معلوم ہوا جو سچّے دل سے توبہ کرتا اورآئندہ ہمیشہ اصلاح کی غرض سے کبھی گناہ نہ کرنے کاپختہ وعدہ کرکے توبہ کرتا ہے ، اس کی توبہ قبول کی جاتی ہے، اپنی غلطی پر ندامت ہوتو توبہ کادروازہ کھلاہوا ہے ۔

اس سے معلوم ہوا کہ توبہ کی اُمید پر گناہ کرتے رہنا درست نہیں، ایسی توبہ مقبول ہی نہیں، انسان جب تک زندہ رہے، اپنے گزشتہ گناہوں پراسے ندامت وپشیمانی ہوتی رہے اور وہ تلافیِ مافات کے لیے بڑھ چڑھ کر نیک کام کرتا رہے۔ یہ بھی اس عالم میں ایک روحانی سزا ہے، اس سزاکے بغیر اس کا عدل قائم نہیں رہتا۔ 

ذرا غور فرمائیں! ساری عمر جسے اپنے بُرے کاموں کارنج اور صدمہ رہے ،وہ باربار توبہ کرتا رہے، کیا یہ سزا کم ہے؟ جب توبہ میں دوامی اصلاح کا عہد شامل ہے تواعمال محدود نہ رہے، اس لیے کہ دوامی عہد کے معنی یہ ہیں کہ اگر تائب کو غیر محدودزندگی مل جائے تو بھی وہ اس عہدپرعمل کرنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہے۔ قدرت کی طرف سے انسان کی فطرت میں ضعف ونسیان اس لیے ودیعت کیاگیا ہے کہ وہ اپنے مالک وخالق کے حضور توبہ کرتا رہے اور سربسجود ہوکر اس کی عبودیت کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگتا رہے۔  (…جاری ہے …)