کیا چھیڑ خانیوں کیلئے یہ مناسب وقت ہے؟

April 11, 2014

ملکی حالات میں کسی قدر بہتری آنے کے باوجود بڑے بڑے مسائل کے پہاڑ کھڑے ہیں اور بدامنی کا خوف رگ و پے میں اترتا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کی سبزی منڈی اور سبی ریلوے اسٹیشن پر جو خونریز واقعات رونما ہوئے ہیں ،وہ دہشت گردی کے ایک نئے سلسلے کی خبر دے رہے ہیں۔ تحریکِ طالبان کی قیادت کے رویے بتدریج تبدیل ہو رہے ہیں اور اِس نے دونوں واقعات کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے اور عام شہریوں کے قتل کو حرام قرار دیا ہے ، مگر مذاکرات کے پیچ در پیچ راستے طے کرنا اور امن کی فاختہ تک پہنچ جانا ایک بڑا ہی دشوار مرحلہ ہے۔ طالبان جو مذاکرات پر آمادہ ہوئے، اِس میں 20جنوری کی رات فوج کی کارروائی نے اہم کردار ادا کیا تھا جس میں کمانڈوز پیش پیش تھے۔ اب جب پوری قوم بڑی بے تابی سے مذاکرات سے اچھے نتائج کی اُمید لگائے بیٹھی ہے ، ایسے میں سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین چھیڑ خانی اور اٹھکیلیوں کا ایک معرکہ شروع ہو گیا ہے جو قومی حلقوں میں عجب عجب پریشانیوں کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ چھوٹی سی بات کچھ اِس طرح اُلجھتی جا رہی ہے کہ مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آ گیا ہے جو 1968ء کے خوں رنگ حالات میں تخلیق ہوا تھا
تھی راہگزر کی بات یہ راہِ گزر کی بات
وہ بن گئی کشائش شام و سحر کی بات
فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کمانڈوز بٹالین کے افسروں اور جوانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے تربیلا تربیتی یونٹ میں گئے اور اُن کی قربانیوں کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا جو وہ دہشت گردوں کی روک تھام اور سدِباب میں دیتے آئے ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق وہاں ایک نوجوان نے سپہ سالار سے پوچھا کہ ہم ملک اور قوم کے لئے ہر طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں ،مگر ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اِس پر جنرل صاحب نے فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے نہایت جچا تلا جواب دیا کہ ہم تمام اداروں کا احترام کرتے ہیں اور اپنے وقار کا تحفظ کرنا بھی جانتے ہیں۔ اُن کی اِس رائے سے کسی بھی ذی شعور شخص کو اختلاف نہیں ہو سکتا کہ فوج ہمارا بیش قیمت سرمایہ ہے اور اِس کے وقار کا تحفظ ہمارا قومی فریضہ ہے۔ سپہ سالار نے اِس خطاب کو جو پیشہ ورانہ ضرورتوں کا آئینہ دار تھا ، اُسے میڈیا نے ضرورت سے زیادہ جگہ دی اور اِس پر تبصروں اور تجزیوں کے انبار لگا ڈالے۔ یوں لگا جیسے سول حکومت کے خلاف طبلِ جنگ بج گیا ہو ،حالانکہ اِس خطاب میں واضح طور پر یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہم جمہوریت کا تسلسل چاہتے ہیں اور طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کامیابی کے خواہش مند ہیں کہ امن کا حصول ہم سب کی منزل ہے۔ ٹاک شوز کی چکا چوند میں یہ واقعہ بھی پیش آیا کہ ایک نجی ٹی وی کے معروف اینکر نے جناب خواجہ آصف کی ایک تقریر جو اُنہوں نے جون 2007ء میں جنرل مشرف کے خلاف کی تھی ،اِس انداز سے چلائی کہ اِس سے یہ تاثر ملا کہ یہ تقریر وزیر دفاع نے آج ہی کی ہے۔ اِس تاثر سے اُن عناصر کو بڑا فائدہ پہنچا جو حکومت اور فوج کے درمیان ایک خلیج پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کے خاموش طوفان اُٹھنے لگے اور قومی اسمبلی جذبات سے دہکنے لگی۔ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق جو فوج کے بارے میں ایک خاص ذہن رکھتے اور سویلین بالادستی کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں ،اُنہوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے حوالے سے جو بیان دیا ، اس پر عوامی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔ ابھی یہ ارتعاش تھما نہیں تھا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف صاحب نے شوقِ خطابت میں یہ بھی کہہ دیا کہ جن سیاست دانوں ، فوجی افسروں اور عدلیہ سے وابستہ لوگوں نے سابق جنرل مشرف کے احکام پر انگوٹھے لگائے ،اُن کا بھی پورا پورا احتساب کیا جائے گا۔ وہ اتنا بڑا اعلان کرتے وقت یہ فراموش کر بیٹھے کہ پُلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے اور قاف لیگ کے بعض نامور وزراء اب حکومت کے حلقہ بگوش ہو چکے ہیں اور پورا منظر نامہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔
ہماری تاریخ میں یہ حادثہ پہلے بھی رونما ہو چکا ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل جہانگیر کرامت نے لاہور کے نیول وار کالج میں اعلیٰ افسروں سے پیشہ ورانہ بات چیت کرتے ہوئے اِس رائے کا اظہار کیا تھا کہ سیاسی اور عسکری قیادت میں قریبی تعلقات قائم رکھنے کے لئے نیشنل سیکورٹی کونسل کا قیام ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کسی ’’مہم جو‘‘ نے اِس تقریر کو پریس تک پہنچا دیا اور اِس کے ردعمل میں وزیراعظم نوازشریف نے آرمی چیف سے برہمی کا اظہار کیا جنہوں نے کسی تامل کے بغیر استعفیٰ دے دیا۔ یہی استعفیٰ آگے چل کر 12؍اکتوبر 1999ء کو فوجی بغاوت کی بنیاد بنا اور پاکستان نو سال سے زائد فوجی آمریت کے اندھیروں میں کھیلتا رہا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے ذاتی مقاصد کے لئے فوجی ادارے کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا۔ اِس کا وقار تباہ کر ڈالا۔ نوبت یہاں تک جا پہنچی تھی کہ افسر اور جوان وردی پہن کر باہر نکل نہیں سکتے تھے۔ لال مسجد کے خلاف آپریشن کورکمانڈوں کی مشاورت کے بغیر کیا گیا جس کے ردعمل میں خودکش حملہ آور پیدا ہونے شروع ہوئے اور سات برسوں سے غارت گری کا عمل جاری ہے۔ جنرل اشفاق کیانی کے تدبر اور تحمل سے فوج کا امیج بہت بہتر ہوا اور اِس پر عوام کا اعتماد پوری طرح بحال ہوا۔ اُن کا یہ کارنامہ تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا۔
نازک وقت کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ سیاست دان بھی احتیاط سے کام لیں اور فوجی قیادت بھی اتنی بردباری اور خودشناسی کا مظاہرہ کرے جس کا مظاہرہ جنرل (ر) کیانی نے سخت اشتعال انگیز حالات میں کیا تھا۔ اُس وقت کے وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی کے فلور پر نہایت رعونت سے کیا تھا کہ ہم ریاست کے اندر ریاست قائم ہونے نہیں دیں گے اور ہمارے پیسوں پر پلنے والے آج ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ اُن کے اس بیان کے بعد افواہوں کی آندھیاں چلنے لگی تھیں کہ فوج ٹیک اوور کرنے والی ہے ،مگر جنرل کیانی کے صبر و ضبط اور فہم و فراست نے معاملے کو خراب نہیں ہونے دیا اور سیاسی قیادت کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ آج کے مرحلے میں وزیراعظم نواز شریف کو فوجی قیادت سے ملاقات کر کے تمام تر غلط فہمیوں کو دور کرنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے کہ افغانستان سے فوجوں کے انخلاء کا مرحلہ سر پر ہے اور بھارت میں ہونے والے انتخابات پاکستان کے لئے نئے چیلنجز پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ وقت کسی بھی طرح سیاسی اٹھکیلیوں کی اجازت نہیں دیتا۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر اور بہت خوش آئند ہے کہ جماعت اسلامی کے نئے امیر جناب سراج الحق نے ذمہ داریوں کا حلف اُٹھانے کے بعد جو تقریر کی ہے ،اُس میں فوج کے قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اِس کے ساتھ پوری یک جہتی کا اظہار کیا ہے اور یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ پانچ فی صد اشرافیہ جس نے پاکستان کے 95فی صد وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے اور دولت کے بل بوتے پر جمہوریت اور منتخب اداروں کو یرغمال بنا لیا ہے ،اُس کے خلاف دینی اور جمہوری جماعتوں ، وکیلوں ، مزدوروں ، نوجوانوں اور خاص طور پر خواتین کی طاقت سے رائے عامہ ہموار کریں گے اور پُرامن اور جمہوری طریقے سے تبدیلی لائیں گے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ملک میں مذاکرات کے حق میں جو فضا پائی جاتی ہے اُس کا تمام اداروں کو فائدہ اٹھاتے ہوئے امن کی طرف مارچ کرنا ہو گا۔ ایک عظیم تبدیلی جو طلوع ہو رہی ہے، ہمیں اُس کا حوصلے اور اُمید سے خیر مقدم کرنا اور اچھے سول فوجی تعلقات کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنا ہوں گی۔