وارث میر کا نڈر سپوت

April 29, 2014

اس ہفتے بھی خیال تھا کہ شعبہ صحت کے کچھ دلچسپ اور عجیب و غریب مسائل سامنے لے کر آتا مگر تین روز کراچی رہا۔ حامد میر اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات ہوئی۔ ماشاء اللہ پورے خاندان کے حوصلے بلند اور عزم جوان ہے۔ ہماری دعا ہے کہ خدا انہیں جلد صحت یاب کرے۔ اگرچہ وہ کافی جسمانی درد اور تکلیف میں ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ جب میں شعبہ صحافت پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے کرنے کے لئے داخل ہوا تو اس وقت محترم پروفیسر وارث میر چیئرمین تھے اور وہ خود خواہش کرکے میرے تھیسس کے نگران بنے۔ جس طرح وارث میر پنجاب یونیورسٹی میں ہمیشہ حق اور سچ بات کہتے رہے جس کی بنا پر ان کے اکثر اختلافات رہے۔ یہ عادت یہی خوبی یہی روایت اور یہی خون حامدمیر میں بھی آیا ہے۔ وہ پچھلی دو دہائیوں سے حق و سچ کے لئے لڑ رہا ہے۔ اگر حامدمیر حق اور سچ کی جنگ لڑنے کے جرم میں غدار ہے تو پھر اس ملک میں اور قیام پاکستان سے قبل جو لوگ میدان صحافت کے چمکتے ستارے بنے وہ سب کے سب غدار تھے۔ میری مراد مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمدعلی جوہر، مولانا ظفرعلی خان اور شورش کاشمیری مرحوم سے ہے۔ شورش کاشمیری نے حاکمان وقت پر بڑے سخت اشعار بھی کہے اور جیل بھی گئے لیکن انہیں کسی نے غدار نہیں کہا اور ہم کون ہوتے ہیں کہ اس قسم کے سرٹیفکیٹ تقسیم کریں کہ کون غدار ہے اور کون نہیں؟ ان صحافیوں نے کوڑے کھائے، جیل گئے، مثلاً خاور نعیم ہاشمی، خالد چوہدری، الطاف حسن قریشی اور کئی بے شمار نام ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک مرتبہ اپنے رسالے ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ میں صحافت کے بارے میں خود کہا تھا کہ ہم اس بازار میں کسی نفع لئے نہیں بلکہ تلاش زبان و نقصان میں آئے ہیں کہ کسی صلے کے طلب گار نہیں ہم اخبار نویس کو بہت بلند سطح پر دیکھتے ہیں۔ پس اخبارنویس کو ہر طرح کے دبائو سے آزاد ہونا چاہئے۔
اگر آج کوئی صحافی صرف مولانا ابوالکلام آزاد کے اس نظریئے کو سامنے رکھ کر صحافت کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ غدار ہے۔ جنگ اور جیو پر تو بھارت دوستی اور پتہ نہیں کیا الزامات لگائے گئے مگر کوئی یہ تو بتائے جو ہمارے سیاسی لوگ مثلاً چوہدری شجاعت حسین نے ابھی حال ہی میں امیتابھ بچن کو ان کے آبائی شہر لائل پور آنے کی دعوت دی ہے تو کیا چوہدری شجاعت حسین غدار ہوگئے؟ پریم چوپڑہ لاہور آ رہے ہیں ان کو بلانے والے غدار ہوگئے؟ ماضی میں محمدعلی اور زیبا نے منوج کمار کو اپنے گھر کھانے پر بلایا تو یہ غدار ہوگئے؟ ایک لمبی فہرست ہے۔ چوہدری ظہورالٰہی کے مہمان اکثر سکھ ہوتے تھے تو کیا وہ بھی غدار ہوگئے؟
دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ایک لال ٹوپی والے جو مذہب اور اخلاقیات پر بڑے بڑے درس دے رہے ہیں۔ کیا ان کی اخلاقیات کایہی تقاضا ہے کہ انہوں نے جس قسم کی زبان حامد میر کے بارے میں استعمال کی کیا وہ درست تھی؟ لال ٹوپی والے اس دانشور کو صرف اتنا یاد رکھنا چاہئے جو انگلی وہ کسی پر اٹھاتے ہیں وہی انگلی ان کی طرف بھی اٹھائی جا سکتی ہے لہٰذا برداشت پیدا کریں۔ ایک دوست مکری بابو جس طرح جیو کے بارے میں اظہار خیال کر رہے ہیں کیا یہ صحافتی اخلاقیات کے زمرے میں آتا ہے۔
اختلاف رائے حریت خیال اور آزادیٔ اظہار ہرکسی کا حق ہے بڑے میاں صاحب نے یہ تو فرما دیا کہ اظہار رائے کی آزادی ہر ایک کا بنیادی حق ہے اختلاف رائے برداشت کرنے کے لئے جمہوری روایات کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو حامدمیر سے اختلاف رائے کی سزا یہ ہے کہ اس پر قاتلانہ حملہ کیا جائے اس ملک کے کئی صحافیوں کو صرف اختلاف رائے پر سزا دی گئی، کئی اخبارات بند کئے گئے، نیشنل پریس ٹرسٹ اور پی پی ایل بھی صرف ایوب خاں نے اختلاف رائے کی وجہ سے قائم کیا تھا۔
عامر میر جس وقت پریس کانفرنس کر رہے تھے ہم بھی وہاں موجود تھے۔ ہمارا پورا میڈیا اسپتال کے پرائیویٹ ونگ کے باہر موجود تھا۔ جب رات کو ہم نے مختلف چینل لگائے تو کسی نے بھی اس رات خبر نشر نہ کی، دوسرے روز بعض چینل نے اس بیان کو توڑ موڑ کر پیش کیا، جب تمام دیگر ٹی وی چینل اور اخبارات کے اینکرپرسن اور صحافی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سب حق و سچ اور انصاف کے لئے لڑ رہے ہیں تو پھر حامد میر کے واقعے اور جیو اور جنگ کے خلاف حکومتی اقدامات پر سب اکٹھے کیوں نہیں ہوئے؟ وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کو یہ علم نہ ہو کہ جیو جن پہلے نمبروں پر دکھایا جا رہا ہے وہاں سے آخری نمبروں پر چلا جائے اور انہیں یہ پتہ نہ ہو۔ کیا اس ملک میں کوئی دوسرا وزیر اطلاعات و نشریات ہے جو انڈر گرائونڈ کام رہا ہے۔ ہم خود کراچی ڈیفنس میں جیو کو دس نمبر پر دیکھ رہے تھے اچانک وہ 62 نمبر پر چلا گیا۔ آخر کیبل والوں کو وہ کون سے فرشتے ہیں جو احکامات دے رہے ہیں؟ جن کا جناب وزیر اطلاعات و نشریات کو پتہ نہیں۔
رہا سوال یہ کہ جنگ کو غدار کہنے والوں کے لئے یہ عرض ہے کہ تحریک پاکستان کے دنوں میں جناب میر خلیل الرحمن بانی جنگ گروپ کو دہلی حوض قاضی کے تھانے میں پاکستان کے حق میں مضامین لکھنے کے جرم میں بند کر دیا گیا تھا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں روزنامہ جنگ نے فوجیوں کے جس طرح حوصلے بڑھائے وہ سب کے سامنے ہیں۔ جنگ کراچی نے 65 کی جنگ کے بعد6 ستمبر میں شہید ہونے والے فوجیوں کے بارے میں خصوصی ایڈیشن بھی دیئے۔ فوج کی خدمات کو ہمیشہ سراہا، سوات کے زلزلہ میں، کشمیر کے زلزلے میں میر خلیل الرحمن فائونڈیشن نے فوجیوں کے ساتھ مل کر بھی سامان پہنچایا، کیمپ لگائے۔
جنگ کو ملک دشمن کہنے والے یہ تو دیکھیں کہ سونامی میں اور دیگر کئی مواقعوں پر جنگ نے اپنے خرچ پر متاثرین کو کھانے، پینے کی اشیاء کے ٹرک کے ٹرک پہنچائے۔ آج اس ملک کے نوجوانوں کو سب سے زیادہ پروموٹ جیو گروپ کر رہا ہے۔
جو ادارے صرف کاروبار کی رفاقت کی بناء پر خوش ہو رہے ہیں کہ ادارہ جنگ کو نقصان پہنچنے سے ان کو فائدہ ہوگا تو صرف اتنا یاد رکھیں، مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے اور یہ خدا نے ثابت کر دکھایا کہ جس طرح حامد میر پر حملہ ہوا اس کو بچ جانا ایک معجزہ ہے اور معجزے انسان نہیں صرف خدا کی ذات پاک کرکے دکھایا کرتی ہے۔ جنگ گروپ بھی اپنا ہے، حامد میر بھی اپنا ہے اور فوج بھی اپنی ہے، کوئی غیر ملکی نہیں۔ ہمیں چالیس برس ہو گئے کینٹ میں رہتے ہوئے اور ہمارے والد برٹش آرمی میں تھے، ہمارے چچا کیپٹن جرجیس ناگی 65 کی جنگ کے آخری شہید تھے۔ ان کے نام پر لاہور کور کمانڈر ہائوس اور راولپنڈی میں ویسٹ ریج میں سڑکیں ہیں۔ ہمارے خاندان کے دوسرے شہید نیول کمانڈر احسان ناگی تھے لہٰذا ہم فوجیوں کی عزت تو اپنے خاندانی پس منظر کی روشنی میں کرتے ہیں جبکہ صحافتی قبیلے سے بھی چالیس برس سے وابستہ ہیں اس لئے میرے لئے تمام صحافی قابل احترام اور قابل عزت ہیں لہٰذا جو صحافی ذرا زبان کے کمزور واقعہ ہوئے ہیں ان سے یہ صرف اتنا کہنا ہے کہ روز قیامت زبان کا بھی حساب ہوگا لہٰذا اتنے ہی گناہ کا بوجھ اٹھائیں جو برداشت کر سکیں۔ حامد میر وارث میر کا نڈر سپوت ہے اور اس طرح دلیری سے انسانیت کے لئے اور سچائی کے لئے کام کرتا رہے گا اور فوج کے تمام ادارے بھی قابل احترام ہیں۔ غلطیاں اور غلط فہمیاں انسانوں سے ہوتی ہیں، فرشتوں سے نہیں ہوتیں۔ آخر میں یہ کہوں گا کہ عبدالرئوف نے بالکل درست لکھا ہے کہ حامد میر کے دکھ اس کی جسمانی تکلیف سے زیادہ ہیں۔ اس معاشرے میں وہ لوگ جو لوگوں کے دکھ تو کم نہیں کرتے مگر باتیں کر کے دکھوں میں اضافہ کر دیتے ہیں، کاش کوئی سمجھ سکے۔ جس تن لاگے سو تن جانے۔