ایک ان لکھا معاشرتی معاہدہ

May 13, 2014

حالیہ سیاسی صورت حال سے ایک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اِدھر اُدھر سے پاکستان کے عمرانی معاہدے پر خیال آرائی شروع ہو گئی ہے۔ پاکستان کا دستور ہمارے ملک کا عمرانی معاہدہ ہے اور اس میں کسی تبدیلی کا طریقہ بھی اس دستاویز کے اندر ہی طے کر دیا گیا ہے۔ آئینی اسکیم میں کسی تبدیلی کو نئے عمرانی معاہدے سے منسوب کرنا بذات خود عواقب سے خالی نہیں کیونکہ اس ملک میں آئین سے انکار کرنے والی مخلوق پیدا ہو چکی ہے اور باقاعدہ پھل پھول رہی ہے۔ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ ملکی حالات میں بہتری کے لئے سامنے آنے والی بیشتر تجاویز کا تعلق حکومتی ضابطہ کار (Procedure ) سے ہے مثلاً انتخابی اصلاحات یا نئے صوبوں کی تخلیق۔ ایک محترم نے تو فوج کے لئے آئینی کردار کی تجویز بھی دی۔ آئین میں فوج کا کردار تو طے کر دیا گیا ہے۔ یہ حکومت کا ماتحت ادارہ ہے جس کا منصب قومی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ نیز ضرورت پڑنے پر اسے سول انتظامیہ کی مدد کے لئے بلایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی آئینی کردار کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے فیصلہ سازی پر عسکری اداروں کی ایسی بالادستی جو عملی طور پر جمہوریت کی نفی کے مترادف ہے۔
اس بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے سوال کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ہم نے حکومتی ضابطہ کار یعنی (Procedure )کے ضمن میں بہت سے اقدامات کئے ہیں مثلاً اٹھارہویں آئینی ترمیم، قومی مالیاتی ایوارڈ کا نفاذ، 2007ء میں معزول کی جانے والی عدلیہ کی بحالی۔ ان اقدامات کی افادیت سے انکار نہیں لیکن ایک اعتراض بار بار کیا جاتا ہے کہ ان اقدامات سے عام آدمی کو کیا فائدہ پہنچا ہے۔ دوسرے لفظوں میں عام آدمی کی ضروریات کی آسودگی اور معیار زندگی میں بہتری کے ضمن میں کیا پیشرفت ہوئی ہے۔ یہ سوال جواز سے خالی نہیں لیکن عام شہری کی زندگی میں بہتری ریاست کے علاوہ معاشرت کے خدوخال سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ ریاست اور حکومت کو ہمہ وقت ٹکٹکی پر باندھے رکھنے میں ایک فائدہ یہ ہے کہ اس میں ہمیں یعنی عوام کو اپنے طور طریقوں میں کسی تبدیلی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ گویا ہم نے فرض کر لیا ہے کہ ہمارے معاشرتی اطوار اور افکار میں کوئی خامی نہیں۔ خرابی کی تمام ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ اس لئے آئیے حکمرانوں کو گالی دیں۔ سوچ کا یہ انداز یکطرفہ اور نقصان دہ ہے۔ کسی ملک میں معیار زندگی کی بہتری ریاست اور معاشرت پر یکساں توجہ کا تقاضا کرتی ہے۔ کیوں نہ تھوڑی دیر کے لئے ریاست کو ایک طرف رکھ کر معاشرت کے ان پہلوئوں پر غور کیا جائے جو براہ راست شہریوں کے دائرہ کار سے تعلق رکھتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں عورتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ غیر منصفانہ، غیر اخلاقی اور شرمناک ہے۔ عورتوں اور مردوں کو مساوی رتبہ، حقوق اور احترام دیئے بغیر نہ تو معاشرے کی اخلاقی حالت سدھر سکتی ہے اور نہ جمہوریت مستحکم ہو سکتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آدھی آبادی کے ساتھ امتیازی اور شرمناک سلوک کیا جائے اور یہ توقع رکھی جائے کہ ہم جمہوریت کے ثمرات سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مردانہ بالادستی کی ان لکھی اور ان کہی سازش موجود ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت نے عورتوں کے بارے میں امتیازی قوانین کو ختم کرنے کے بارے میں ضروری اقدامات نہیں کئے لیکن حکومت نے ہم سے یہ مطالبہ تو نہیں کیا کہ ہم اپنی بچیوں سے مرضی کی شادی کا بنیادی حق چھین لیں۔ انہیں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کریں۔ انہیں ونی اور سوارا جیسی رسموں کی بھینٹ چڑھائیں۔ گھریلو تشدد کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر زبان طعن دراز کریں۔ گھر کی چار دیواری میں مائوں اور بہنوں کے ساتھ ہر طرح کی ناانصافی کریں۔ انصاف کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ معاشرے میں انصاف کا چلن اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم انصاف کے تقاضوں کو مقتدر ایوانوں، ریاستی اداروں اور گلی کوچوں تک محدود نہ کریں۔ انصاف کو گھر کی دہلیز پہ داخلہ نہ دیا جائے تو وہ گلی کی دھوپ میں کملا کر رہ جائے گا۔ عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی جملہ صورتوں کو ختم کئے بغیر معاشرے کی اخلاقی توانائی بحال نہیں کی جا سکتی۔
ایک اہم مسئلہ آبادی کے پھیلائو سے تعلق رکھتا ہے جس کے بارے میں ہم نے ناقابل فہم، بچگانہ اور مضحکہ خیز رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ ہم نے اس ملک پہ دنیا بھر میں رقبے اور آبادی کے اوسط تناسب سے چار گنا زیادہ آبادی کا بوجھ ڈال رکھا ہے۔ ہم ہر سال عالمی آبادی کا تیسرا بڑا حصہ پیدا کر رہے ہیں۔ ہر سال ہم سوئٹزر لینڈ کی کل آبادی کے برابر بچے پیدا کرتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اس طرح ہم سوئٹزر لینڈ کے معیار زندگی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اگر ہماری حکومت کو ہر برس امریکہ کی حکومت کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعداد میں نئے شہریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پاکستان کی غریب اور کم وسیلہ حکومت کسی طرح کی توقعات پوری نہیں کر سکتی۔ حکومت نے ہمیں مجبور نہیں کیا کہ ہم فی جوڑا چھ بچے پیدا کریں۔ کیا تماشا ہے کہ ضرورت سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر ہمیں کوئی شرمندگی نہیں۔ آبادی کے پھیلائو کو قابو میں لانے میں غور کرنے سے ہمیں شرم دامن گیر ہوتی ہے۔
بھارت کے بعد کسی ایک ملک میں ان پڑھ شہریوں کی سب سے زیادہ تعداد پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ 1951ء میں تین کروڑ پاکستانی ناخواندہ تھے۔ ساٹھ برس بعد آج پاکستان میں 9 کروڑ شہری ان پڑھ ہیں۔اسکول جانے کی عمر کے 51 لاکھ بچے تعلیم تک رسائی نہیں رکھتے۔ توجہ فرمائیے کہ آدھی آبادی ناخواندگی کے باعث معاشی اور معاشرتی بوجھ ہے اور آدھی آبادی کو ہم نے عورت ہونے کے جرم میں بوجھ بنا ڈالا ہے۔ ہمارا معاشرہ غیر ضروری طور پر اپنی بساط سے زیادہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اس صورت حال میں معاشی ترقی ممکن ہے اور نہ معاشرتی صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔ خواندگی کے پریشان کن اعداد و شمار سے قطع نظر ہمارا تصور تعلیم نظرثانی کا محتاج ہے۔ اگر ہم دنیا کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے نشاۃ ثانیہ کے بعد سامنے آنے والے بنیادی علمی اصولوں اور علمی تحقیق کے جدید طریقہ کار کو قبول نہیں کیا۔ ہم منقولہ روایت اور حرف شناسی کو علم سمجھتے ہیں۔ علم علت و معلول کا تعلق دریافت کرنے کا نام ہے۔
اس کے لئے واحد دستیاب وسیلہ عقل انسانی ہے۔یوں ہم جسے چاہیں عالم زماں قرار دے دیں لیکن علم کوئی موضوعی قدر نہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ جنہیں ہم نے علم کی دستار فضیلت پہنا رکھی ہے انہیں خلق خدا غائبانہ کیا کہتی ہے۔ علم کی اس بے معنویت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے تصور علم پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ نیز یہ کہ ہم جدید دنیا میں اپنا علمی حصہ ڈالنے سے قاصر ہو گئے ہیں۔ ایک آخری گزارش یہ ہے کہ ہمیں اپنے اجتماعی مکالمے میں کچھ اخلاقی حدود کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ اشتعال انگیزی قانونی طور پہ جرم ہے لیکن اگر معاشرہ مجموعی طور پر اشتعال انگیزی پر اتر آئے تو ریاست بے بس ہو جاتی ہے۔ ہم نے ہر دوسرے رکشے پہ اشتعال انگیز نعرے لکھ رکھے ہیں۔ خطرناک بیماریوں کے گمراہ کن علاج تجویز کرنے سے ہمیں کوئی نہیں روکتا۔ ٹیکس ہم نہیں دیتے۔ اشیائے خوردنی سے ادویات تک میں ملاوٹ کرنے سے ہمیں عار نہیں۔ رشوت نہ لینے والے ہمارے ہاں استثنیٰ کے درجے میں آتے ہیں۔ یہ ہے ہماری عمومی اخلاقی حالت اور ہم سیاسی قیادت ، حکومت اور ریاست کو لتاڑنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں نئے عمرانی معاہدے سے کہیں زیادہ ایک ان لکھے معاشرتی ضابطے کی ضرورت ہے۔