پاک بھارت تعلقات خطرناک موڑ پر

July 27, 2016

پاکستان اگرچہ ہمیشہ سے جموں و کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے لئے بھارت سے بات چیت پر زور دیتا آیا ہے جبکہ نئی دہلی کی حکومت اس معاملے میں مسلسل ہٹ دھرمی اور ٹال مٹول سے کام لیتی رہی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی نئی لہر اور اسے کچلنے کے لئے فوجی قوت کے اندھا دھند استعمال، نیز خطے میں اپنے منفی عزائم کی تکمیل کے لئے بھارت جو کچھ کر رہا ہے اس کے پیش نظر وزیردفاع خواجہ محمد آصف کا فی الحال بھارت کے ساتھ مذاکرات یا ٹریک ٹو، ٹریک تھری ڈپلومیسی کے امکانات کو رد کرنا ناقابل فہم نہیں۔ پیر کو سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت سے اس وقت کوئی مذاکرات ہو رہے ہیں نہ مستقبل قریب میں ان کا امکان ہے۔ اس کی بجائے ہم نے طے کر لیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ، او آئی سی سمیت ہر عالمی فورم پر اٹھائیں گے ۔وزیر دفاع نے جس لائحہ عمل کی جانب اشارہ کیا ہے وہ پاکستان کے عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہے۔ مجاہد کمانڈر برہان وانی کے بھارتی فوج کے ہاتھوں بہیمانہ قتل اور اس کے خلاف پوری وادی میں دو ہفتے سے جاری ایجی ٹیشن کے دوران 50سے زائد بے گناہ کشمیریوں کی شہادت ، کرفیو کے باوجود مسلسل ہڑتال اور مظاہرین کی جانب سے بھارت کے خلاف اور پاکستان کے حق میں نعرے بازی، گھروں پر پاکستان کا قومی پرچم لہرانا، سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق سمیت حریت رہنمائوں کی گرفتاریاں، اس بات کی علامت ہیں کہ بھارت کشمیری عوام کے خلاف جنگ ہار چکا ہے مگر پھر بھی جموں کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے سری نگر کے دورے کے دوران ایک بارپھر الزام لگایا ہے کہ پاکستان کشمیری نوجوانوں کو بندوق اٹھانے پر اکسا رہا ہے۔ گویا بھارت سات دہائیاں گزرنے اور کئی جنگوں کے بعد بھی کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق حق خود ارادیت دینے کے لئے تیار نہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس نے پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے لئے پاک افغان سرحد پر جاسوسی کا جال بچھا رکھا ہے اور بے تحاشا پیسےاور اسلحہ سے عسکریت پسندوں کی مدد کر رہا ہے۔ بلوچستان میں بھارتی جاسوس کل بھوشن کی گرفتاری اور تحقیقاتی ایجنسیوں کے سامنے اس کے انکشافات نے اس حقیقت کو کھل کر بے نقاب کردیا ہے۔ اس کے اثرات سے بچنے کے لئے بھارت نے پاکستان میں اپنے سفارتی عملے کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے سفارت کاروں سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے بیوی بچوں کو اسلام آباد سے نکال کر نئی دہلی پہنچا دیں، مبصرین کے مطابق اگلے مرحلے میں وہ سفارتی عملے کو بھی واپس بلا سکتا ہے۔ کوئی ملک عموماً اس قسم کا اقدام اس وقت کرتا ہے جب حالات جنگ کی طرف جا رہے ہوں جبکہ عمومی ماحول اس وقت ایسا نہیں ہے۔ اس سے بھارتی ارادوں کے بارے میں اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں، ان حالات میں عالمی برادری کو جموں وکشمیر کی صورت حال کے تناظر میں بھارتی عزائم سے آگاہ کرنا اشد ضروری ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مسائل جنگوں سے حل نہیں ہوتے اور موجودہ دور میں تو اس بارے میں کسی کو سوچنا بھی نہیں چاہیئے۔ لیکن بھارت کا ٹریک ریکارڈ کشمیر کے حوالے سے بہت برا ہے، وہ خطے کا ایک بڑا ملک ہے اسے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی امن کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کشمیری مسلمانوں پر گولیاں چلانے کی بجائے پاکستان کے ساتھ مل کر سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق مسئلے کا حل نکالنا چاہئے اور جنگ کی بجائے امن کا ماحول قائم کرنا چاہیئے۔ لیکن بھارتی وزیر داخلہ کا سری نگر میں یہ بیان نہایت مضحکہ خیز ہے کہ پہلے حالات معمول پر آئیں اس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ مذاکرات کئے جائیں یا نہیں، بھارت کا یہ لب و لہجہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں کئے گئے اس کے تمام عہد ناموں اور پاکستان کے ساتھ معاہدوں کے منافی ہے عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہئے اور اسے معقولیت کا راستہ دکھانا چاہئے۔