ایک غلطی……!

July 29, 2016

حسن اسکائپ(SKYP)پر بات کرتے کرتے دھاڑیں مار مار کر رونے لگا تھااور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کس طر ح اس صو رتحا ل کو سنبھا لوں اور حسن کو سمجھا ئو ں۔ حسن سے میری ملاقات امریکہ میں ہوئی تھی اس کا تعلق ترکی سے ہے 24سالہ اس لڑکے کو جب یہ معلوم ہوا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے تو وہ میرا احترام کرنے لگا تھا، چند ہی ملاقاتوں میں ہماری دوستی بڑی گہری ہوچکی تھی ، حسن کا نام بڑا طویل تھا لیکن میں اپنی آسانی کیلئے صرف حسن یاد رکھا ہے ، حسن کے مرحوم والد ترک فوج کے اعلیٰ افسر تھے اور اپنے والد کی اور خود اپنی شدید خواہش پر وہ ترک آرمی جوائن کرنا چاہتا تھا لیکن ایک حادثے کی وجہ سے اس کی ٹانگ میں کچھ لنگڑاہٹ آگئی تھی اور وہ آرمی کیلئے ان فٹ ہوگیا اور اب وہ امریکہ میں جنرنلزم پڑھ رہا تھا اس کے دل میں پاکستان اور پاکستانیوں کی بڑی عزت اور قدر تھی اس نے مجھ سے وعدہ کررکھا ہے کہ وہ پاکستان ضرور آئے گا اور میرا مہمان بنے گا،حسن کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے موجودہ حالات کے بعد ترک قوم کی اکثریت پاکستان کی طرف دیکھتی ہے اور پاکستان کو مسلمانوں کا قلعہ تصور کرتی ہے ، پاکستان کی کسی بھی میدان میں کامیابی ترکوں کیلئے خوشی کا باعث ہوتی ہے اور کسی بھی حادثے یا ناخوشگوار واقعہ سے ترک قوم رنجیدہ ہو جاتی ہے، حسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت پر زیادہ انحصار کرنے کی بجائے دونوں ملکوں کی بزنس کمیونٹی، ثقافتی رابطوں، نوجوان طالبعلموں کے دوروں اور عوامی سطح پر میل جول بڑھانے کی اشد ضرورت ہے ۔ وہ اس با ت پر بھی بہت زور دے کر کہتا کہ ہم دونوں ملکوں کو بلکہ پوری اسلامی برادری کو ایک آزاد میڈیا تشکیل دینے کی ضرورت ہے، تاکہ دنیا کو ہم اپنا نکتہ نظر بھی بتا اور سمجھا سکیں، فوج میں بھرتی میں ناکامی کے بعد حسن اب صحافی بننے کی کوششوں میں مصروف ہے ، پاکستان سے محبت ، عالم اسلام کے درست تشخص کو عالمی سطح پر روشناس کرانے کی ضرورت اور مسلمہ امہ کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مل کر مقابلہ کرنا حسن کا ایک خواب ہے ، وہ مجھ سے اکثر سوال کرتا ہے کہ کیا ہم سب مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے کیا ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم عالمی سطح پر اپنا میڈیا تشکیل دے سکیں، کیا ہم دنیا کو یہ باور نہیں کراسکتے کہ اسلام امن اور بھائی چارے کا دین ہے ، کیا ہم اپنی یوتھ میں بھی وہی اعتماد اور احساس ذمہ داری نہیں جگا سکتے جو دیگر ترقی یافتہ اقوام کے یوتھ میں پائی جاتی ہے ، پھر وہ میرے جواب دینے سے پہلے ہی کہہ دیتا ہم یہ سب کچھ کرسکتے ہیں اور یہ ہمارے لئے بہت ضروری ہے ، ورنہ ہم آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کر پائیںگے، ہم اب بھی بہت پیچھے ہیں اور آنے والے کل میں مزید پیچھے رہ جائیںگے ، ہمیں نفسا نفسی ، باہمی اختلافات اور انفرادی ترقی کی فضاء سے با ہر نکلنا ہوگا، وہ پرجوش لہجے میں بولتے بولتے اچانک اس وقت رنجیدہ ہوجاتا جب فلسطین، کشمیر اور دیگر مسلمان ملکوں کے مرنے والے بے گناہ مسلمانوں کا ذکر کرتا، اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں قتل و غارت پر اسکی آواز رندھ جاتی اور ایسا معلوم ہوتا کہ ابھی یہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے گا، لیکن پھر یہ بات دھراتا ہوا اپنی رنجیدگی کو درست کرلیتا کہ ہم کریں گے ۔لیکن آ ج اسکائپ پر اپنے ضبط کے سارے بندھن توڑ بیٹھا اور سلام دعا کے بعد مجھ سے کہنے لگا برادر آپ نے ترکی میں ہونے والی بغاوت اور پھر اپنی فوج اور شہریوں کو ایک دوسرے کو مارتے دیکھا اور پھر خود ہی جواب کا انتظار کئے بغیر یہ کہتے ہوئے رونے لگا کہ جس فوجی یونیفارم کو میں بے پناہ پیارکرتا تھا میرے مرحوم والد کی پہنی ہوئی فوجی وردی آج بھی میرے گھر میں موجود ہے اور میں اس کو چومتا ہوں کیونکہ یہ وردی نہ صرف میرے والد کی نشانی ہے بلکہ اس وردی میں میرے وطن کی حفاظت کرنے والوںکی خوشبو آتی ہے ، لیکن آج میں اس بحث میں پڑے بغیر کہ یہ غلطی کس کی تھی مجھے شدید دکھ ہوا ہے میری فوج کی وردی کی بے توقیری ہوئی ، اعلیٰ افسران کی وردیوں پر لگے ان بیجز کی بے عزتی ہوئی جو بہت محنت سے حاصل ہوتے ہیں اور جو بڑے بڑے بہادر اور جری ترک فوجیوں کو ماضی میں لگائے گئے تھے ، مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کیا کروں میرا فوج اور وردی سے جو عشق تھا اس کو شدید دھچکا پہنچا ہے ،ہم بحیثیت قو م سب ایک دو سر ے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں کہ کو ن بغا وت کا حامی اور کو ن اسکے خلا ف ہے، جس کو بھی نقصا ن پہنچا جسکو بھی سزا ملے گی تو وہ سب میرے اپنے ہیںاو ر پھر وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا میں نے ہمت کرکے اسے سمجھایا کہ قوموں پر ایسے وقت اور امتحانات آتے رہتے ہیں مجھے یقین ہے کہ ترکی کی بہادر عوام لیڈر اور فوجی اس امتحان سے سرخرو ہوکر نکلیں گے، اورپھر حسن نے مجھے کہاکہ میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں میں عالم اسلام کیلئے جو سوچ رکھتا تھا آج مجھے محسوس ہورہاہے کہ میں شدید مایوسی اور بے یقینی کی صورتحال میں ہوں، حسن نے تو رو دھو کر اپنا بوجھ ہلکا کرلیا لیکن میں سوچنے لگا کہ بعض اوقات ملکوں اور قوموں کی تاریخ کی ایک غلطی نہ جانے کتنا پیچھے دھکیل دیتی ہے اور ملک کیلئے نیک تمنائیں اور عزم رکھنے والی یوتھ کو کتنا دھچکا پہنچتا ہے ، ہماری لیڈر شپ کو یہ ضرور سوچنا چاہیے۔


.