اعتدال پسند سیاسی قوتیں اپنا احتساب خود کریں

June 01, 2014

پاکستان میں سیاسی قوتیں اگرچہ زیادہ مضبوط نہیں ہوئی ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ان میں شعوری پختگی آ گئی ہے ۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ جو سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں ماضی میں پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) اور اسلامی جمہوری اتحاد ( آئی جے آئی ) جیسے نام نہاد سیاسی محاذوں میں غیر سیاسی قوتوں کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں ، اب وہ ان قوتوں کے اشاروں پر چلنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ پاکستان کی غیر سیاسی قوتیں اب نئے مہرے سیاسی میدان میں لے آئی ہیں ۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سوا ووٹ لینے والی تمام سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں جمہوری عمل جاری و ساری رہنا چاہئے اور موجودہ اسمبلیوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہئے ۔ سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپوزیشن کی بینچوں پر بیٹھنے والی سیاسی جماعتوں میں اس کے سوا کوئی بھی سیاسی جماعت جارحانہ رویہ اختیار نہیں کر رہی ہے ۔ خیبر پختونخوا میں اگرچہ اس کی حکومت ہے لیکن وہاں بھی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا رویہ جارحانہ نہیں ہے ۔ وہاں پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی پارلیمانی پارٹی اختلافات اور توڑ پھوڑ کا شکار ہوئی مگر دوسری سیاسی جماعتوں نے اس اختلاف کو نہ تو ہوا دی اور نہ ہی خیبرپختونخوا حکومت کو کمزور کرنے کی کسی طرف سے کوئی کوشش ہوئی۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کا رویہ انتہائی معقول ہے، اسی طرح پنجاب اور بلوچستان کی اسمبلیوں میں بھی اپوزیشن بڑے مسائل پیدا نہیں کر رہی ہے ۔ اگرچہ ان پر فرینڈلی اپوزیشن کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فرینڈلی اپوزیشن نہیں ہے ۔ یہ دراصل سیاسی قوتوں کا غیر اعلانیہ سمجھوتہ ہے تاکہ غیر سیاسی قوتوں کو مداخلت کا جواز نہ مل سکے ۔ یہ سیاسی قوتوں کے شعور کی پختگی اور ان کے تدبر کا اظہار ہے اور اس وقت پاکستان کو ایسی ہی سیاسی اپروچ کی ضرورت ہے ۔ اس مثبت اپروچ کے باوجود آج پاکستان میں سیاسی اور جمہوری عمل کو پہلے سے زیادہ خطرات موجود ہیں ۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرنے والی بائیں اور اعتدال پسند دائیں بازو کی سیاسی قوتیں اپنی تنظیم اور نظم وضبط میں بہت کمزور ہو چکی ہیں ۔ کرپٹ اور مفاد پرست عناصر نے ان پر قبضہ کرلیا ہے اور وہ لوگوں کو اچھی حکمرانی نہیں دے سکی ہیں۔ دوسرا اور اہم سبب یہ ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ ایک نئے ایجنڈے کے ساتھ جارحانہ انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اور اس نے تیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک کی مقامی اسٹیبلشمنٹس اور انتہا پسند قوتوں کے ساتھ ایک نیا گٹھ جوڑ کر لیا ہے ۔ ترقی پذیر ممالک کی لبرل اور سوشل ڈیمو کریٹک فورسز اس نئے ایجنڈے اور خوفناک طاقت کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہی ہے ۔ عالمی سامراجی طاقتیں نہ صرف تیسری دنیا کے ملکوں میں عوامی سیاست کو کچل دینا چاہتی ہیں بلکہ وہ ’’نیوفاشسٹ ‘‘ اپروچ اور انتہائی جدید نو آبادیاتی ہتھکنڈوں سے قوموں کا سیاسی، ثقافتی ، تہذیبی اور تاریخی کردار بھی تبدیل کر دینا چاہتی ہیں ۔ اب تیسری دنیا میں چند ممالک کو چھوڑ کر کہیں بھی ایسی مقامی اسٹیبلشمنٹ نہیں رہی جس نے قوم پرستانہ خصوصیات موجود ہوں اور وہ عالمی سامراجی ایجنڈے کے سامنے ٹھہر سکے ۔ ترقی پذیر ممالک میں دائیں بازوئوں کی انتہا پسند قوتوں کو سامنے لایا جا رہا ہے اور مقامی اسٹیبلشمنٹس ان کیلئے میدان خالی کرا رہی ہیں ۔ اب جو نئے سیاسی مہرے میدان میں لائے جا رہے ہیں، وہ مقامی اسٹیبلشمنٹس کے کنٹرول میں نہیں ہیں لیکن مقامی اسٹیبلشمنٹس کا ان کے بغیر چارہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی غیر سیاسی قوتوں نے بہت پہلے اپنے ہاتھوں سے جو سیاسی مہرے بنائے تھے ، وہ بھی اب بیرون قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔ ترقی پذیر ممالک کی غیر قومی کردار رکھنے والی مقامی اسٹیبلشمنٹس بھی زبردست بحران کا شکار ہیں لیکن سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ غیر انتہا پسند لبرل اور سوشل ڈیموکریٹک فورسز بہت کمزور ہیں اور وہ کوئی بڑی لڑائی نہیں لڑ سکتی ہیں۔ بھارت میں بی جے پی کی فتح پر اگرچہ وہاں کے بھارتی قوم پرست حلقے پریشان ہیں مگر ان کیلئے سب سے زیادہ تشویشناک بات کانگریس جیسی سیاسی جماعتوں کی کمزوری ہے۔ بعض ممالک میں انتہا پسندوں کے مصنوعی انقلابات اگرچہ وہاں کے لوگوں کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہیں لیکن اعتدال پسند قوتوں کی کمزوری پر انہیں زیادہ تشویش ہے۔ یونان میں اگرچہ ایک نیو فاشسٹ سیاسی جماعت ’’گولڈن ڈان‘‘ تیزی سے ابھر رہی ہے لیکن وہاں لوگوں کو اس لئے پریشانی نہیں ہے کہ اعتدال پسند قوتیں زیادہ مضبوط ہیں ۔ پاکستان میں بھی سب سے زیادہ تشویشناک بات یہی ہے کہ لبرل اور سوشل ڈیموکریٹک فورسز بہت زیادہ کمزور ہو گئی ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو اچھی حکمرانی نہیں دی، لوگوں کو اتنا ریلیف بھی فراہم نہیں کیا کہ لوگ چیخنا چلانا چھوڑ دیں۔ اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اعتدال پسند سیاسی جماعتیں پیسے کی بنیاد پر ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی پاور بروکرز کیساتھ تعلقات استوار کرنے اور اقتدار کیلئے جوڑ توڑ کرنے کی دوڑ شروع ہو چکی ہیں۔ اسلئے ایسی سیاسی جماعتوں میں وہ لوگ حاوی ہو گئے ہیں جو زیادہ سے زیادہ پیسہ کما کر دیتے ہیں یا پیسہ کمانے کے طریقے بتاتے ہیں ۔ قربانیاں دینے والے اور نظریاتی کارکنوں کی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے ۔ ایک خاندان سیاسی جماعت کو اپنی ملکیت تصور کرلیتا ہے اور اس سیاسی جماعت میں آنے والے لوگوں کو اپنا ملازم تصور کرتا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کا اپنے کارکنوں اور عوام پر انحصار کم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی سیاسی جماعتوں کی قیادت اس خوش فہمی میں ہے کہ ماضی میں ان کی سیاسی جماعتیں مقبول رہی ہیں، اس لئے عالمی اور ملکی اسٹیبلشمنٹس مجبور ہو کر ان کے ساتھ معاملات طے کریں گی۔کبھی ان کو الیکشن میں کم سیٹیں دی جاتی ہیں اور پھر کبھی انہیں زیادہ سیٹیں دلا دی جاتی ہیں۔ اب اعتدال پسند سیاسی جماعتوں کی قیادت کو یہ خوش فہمی ختم کر دینی چاہئے کیونکہ اب حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو چکے ہیں۔ انہیں اگر اس بات کا یقین نہیں آ رہا تو وہ آج کے حالات کا ایک عشرے قبل کے حالات سے موازنہ کریں۔ ایک عشرہ قبل دنیا میں مقبول عوامی سیاسی جماعتیں جس قدر مضبوط تھیں ، آج اس قدر مضبوط نہیں ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں نے عوام سے اپنا رشتہ مضبوط نہ کیا اور کرپٹ عناصر کو اپنے اوپر حاوی کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو ان کی رہی سہی ’’ بارگیننگ پوزیشن ‘‘ بھی ختم ہو جائے گی اور عوام دشمن طاقتیں ویسے ہی یہ طے کر چکی ہیں کہ ایسی سیاسی قوتوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا جائے۔ مقبول سیاسی جماعتوں کا ایک عہد ختم ہو سکتا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ اعتدال پسند سیاسی جماعتیں اپنا احتساب خود کریں ۔