پاکستان کی معاشی ترقی:مثبت اشاریئے

June 11, 2014

نئے جاری کردہ سالانہ معاشی سروے اور بجٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی معیشت میں بہتری آرہی ہے۔ اگرچہ حکومت اپنے ہی دیئے ہوئے زیادہ تر معاشی اہداف حاصل نہیں کر سکی لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ چھ سالوں میں پہلی مرتبہ معیشت چار فیصد سے زیادہ سالانہ شرح سے آگے بڑھی ہے۔ اگر اگلے سال کے لئے مقررپانچ فیصد سے زیادہ کا ہدف حاصل کر لیا جاتا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ موجودہ بجٹ کا حسب سابق منفی پہلو یہ ہے کہ اس میں عام شہری کو دی گئی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مزید برآں چونکہ محاصلات کا زیادہ تر انحصار بالواسطہ ٹیکسوں پر ہی ہوگا اس لئے عام شہری کی معاشی مشکلات میں کمی نہیں ہوگی۔
ایک سال پہلے پاکستان کی معاشی حالت کافی دگرگوں تھی۔ معاشی ترقی نہ ہونے کے برابر تھی اور زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک نیچے تھے۔ اس سے پاکستان کے اندر اور عالمی منڈیوں میں پاکستان کی معیشت پر اعتماد مفقود تھا۔ موجودہ حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر کو تیرہ بلین ڈالر تک پہنچا کر پاکستان کی معیشت کے بارے میں عالمی اعتماد بحال کیا ہے۔ اسی اعتماد کی وجہ سے پاکستان یورو بانڈ کامیابی سے فروخت کرنے کے قابل ہوا۔ اگرچہ ناقدین کا کہنا ہے کہ روپے کی قیمت میں استحکام اور اضافے سے پاکستان کی برآمدات میں کمی آئے گی لیکن ہمارے خیال میں یہ منطق درست نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو جب ڈالر کی قیمت اسّی روپے سے بڑھ کر ایک سو دس روپے تک جا پہنچی تھی، پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
پاکستان کے لئے اس وقت اہم ترین امر یہ ہے کہ عالمی منڈیوں میں یہ تاثر ہو کہ ملک کی معیشت مستحکم ہے اور اس کی ترقی کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم از کم اتنے ہونے چاہئیں کہ وہ تین مہینے کی درآمدات کا بل ادا کر سکے۔ بہت سے عالمی اداروں کی قرض اور امداد دینے کی یہ شرط ہے کہ ملک کے خزانے میں تین مہینے کی درآمدات کے لئے زرمبادلہ موجود ہو۔ اس لئے اگرچہ زرمبادلہ کے ذخائر عام شہری کی معاشی حالت کو براہ راست کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے لیکن وہ استحکام کا اشاریہ ہوتے ہیں جس سے اعتماد سازی میں بہت مدد ملتی ہے۔
معاشی سروے میں فراہم کئے گئے بہت سے اشاریئے کافی مثبت پیشرفت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مینوفیکچرنگ اور سروس سیکٹروں میں مقرر کردہ اہداف تو شاید حاصل نہیں کئے جا سکے لیکن ان میں خاطر خواہ ترقی ہوئی ہے۔ اس وقت پاکستان کی معیشت میں مینوفیکچرنگ اور سروسز کے دو سیکٹر اہم ترین ہیں کیونکہ انہی کی ترقی سے معاشی حالت تبدیل ہو گی۔ پاکستان کی معیشت میں اب زراعت صرف ایک چوتھائی کے قریب ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں زرعی شعبہ غیراہم ہو گیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ضرور ہے کہ اب ترقی کے پہلو سے صنعتی پیداوار اور سروس سیکٹر میں ترقی زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔
پچھلے سال زرعی شعبے میں ترقی کی رفتار کم تھی اور معاشی سروے میں یہ تسلیم کیا گیا کہ گندم جیسی اجناس کم پیدا ہوئیں۔ اگرچہ زرعی شعبے کا حصہ کل معیشت میں کم ہو چکا ہے لیکن گندم جیسی کلیدی اجناس کی پیداوار اس لئے اہم ہے کہ ان کو درآمد کرنا پاکستان کے خزانے پر بہت بڑا بوجھ بن سکتا ہے۔ اس لئے حکومت کو فوری طور پر ایسی پالیساں بنانے کی ضرورت ہے کہ زرعی شعبہ زوال پذیر نہ ہو۔ اس کے لئے کسانوں کو مناسب قیمتیں ملنے کے علاوہ کھاد، بیج، پانی اور دوسری تیکنیکی مدد فراہم کی جانی چاہئے۔
پاکستان کاموجودہ بجٹ اس پہلو سے بہتر ہے کہ اس میں خسارہ دو فیصد کم کرکے چھ فیصد پر لایا گیا ہے۔ اسی طرح سے مراعات یافتہ طبقوں کو دی گئی چھوٹ میں بھی کمی کی گئی ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس سال مشکل ترین فیصلے نافذ کر دینا چاہئے تھے یعنی براہ راست ٹیکسوں کا دائرہ کار بہت حد تک بڑھانا چاہئے تھا اور مراعات یافتہ طبقوں کو دی گئی ہر طرح کی چھوٹ (ایس آر اوز) واپس لے لینا چاہئے تھی لیکن حکومت نے کاروباری طبقے کو خوش کرنے کے لئے ایسا نہیں کیا۔ شاید موجودہ غیر یقینی سیاسی حالات اس کے ذمہ دار ہیں : مسلم لیگ (ن) ان حالات میں اپنے حامی و پیروکار کاروباری طبقے کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان جس معاشی ماڈل کو اپنائے ہوئے ہے اس کی بنیاد ہی یہی ہے کہ کاروباری طبقے کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ وہ سرمایہ کاری بڑھائے، ملک میں ترقی ہو اور عام شہریوں کو بہتر روزگار کے مواقع میسر ہوں۔ چین ہندوستان اور دنیا کے اکثر ترقی پذیر ممالک اس وقت اسی ماڈل کے پیروکار ہیں۔
پاکستان میں ترقی کا یہ معاشی ماڈل بھی پوری طرح سے اپنایا نہیں جاتا مثلاً بمقابلہ دیگر ممالک پاکستان میں محصولات کا زیادہ تر حصہ بالواسطہ ٹیکسوں سے آتا ہے یعنی عوامی استعمال کی اشیاء پر ٹیکس لگایا جاتا ہے جس کا سب سے زیادہ اثر غریب عوام پر پڑتا ہے۔ اس وقت ملک کی پچاس فیصد آبادی دو ڈالر روزانہ سے کم کماتی ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ حکومت کے غربت کم کرنے کے دعوے اپنی جگہ پر لیکن بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے اور براہ راست ٹیکسوں سے اجتناب کی پالیسی سے یہ عیاں ہے کہ غربت کی سطح میں خاطر خواہ کمی واقع نہیں ہو گی۔
پاکستان کے موجودہ بجٹ کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں سوشل انفرااسٹرکچر کے لئے رقومات میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ اب بھی تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے لئے بجٹ کا بہت کم حصہ وقف کیا گیا ہے۔ جنوبی کوریا جیسے ممالک نے اس لئے تیز تر ترقی کی ہے کہ وہ اپنے بجٹ کا دس فیصد یا اس سے زیادہ تعلیم پر خرچ کرتے رہے ہیں ۔ اسی طرح جنوبی کوریا میں ترقی میں عام شہریوں کو ساجھے دار بنانے کے لئے بہت سے اقدامات کئے گئے۔ پاکستان اس لحاظ سے جنوبی ایشاء میں سوشل انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں سب سے پیچھے ہے۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح بھی کم ہے اور صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے باعث اس کے شہریوں کی پیداواری استطاعت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پاکستان کو دہشت گردی اور اندرونی خلفشار جیسے بہت سے مسائل کا سامنا ہے مثلاً سروے کے مطابق پاکستان کو دہشت گردی کی وجہ سے سات سو بلین روپے کا نقصان ہوا۔ یہ رقم پاکستان کے دفاعی بجٹ کے برابر ہے۔ اسی طرح پاکستان میں پی آئی اے، اسٹیل مل، ریلوے اور اس طرح کی دوسری بڑی سرکاری کارپوریشنوں میں کئی سو بلین روپے کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔ جب تک پاکستان دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کر لیتا اور گھاٹے میں چلنے والی سرکاری کارپوریشنوں کا کوئی حل نہیں ڈھونڈتا اس کا بجٹ کا خسارہ ایک حد سے نیچے نہیں آسکتا۔ اس وقت پاکستان کا آدھے سے کہیں زیادہ بجٹ دفاع اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے وقف ہے، اس میں کمی کے امکانات بہت کم ہیں لیکن اگر قومی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہو اور خسارے میں چلنے والے اداروں کا کوئی علاج ڈھونڈ لیا جائے تو صورت حال میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔