سارک ممالک میں باہمی تعاون

August 06, 2016

اسلام آباد میں جمعرات کو سارک ممالک کے وزرائے داخلہ کی کانفرنس خطے میں قیام امن، دہشت گردی اور منظم جرائم کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق اور معاشی ترقی کیلئے نئی نسل کے مستقبل کا تحفظ یقینی بنانے پر زور دینے کے مشترکہ اعلامیہ کے ساتھ ختم ہو گئی۔ کانفرنس کے ایجنڈے میں دہشت گردی، سمندری جرائم، منشیات، سائبر کرائمز، کرپشن اور عورتوں و بچوں کی سمگلنگ جیسے مسائل شامل تھے اور وزیراعظم نواز شریف نے اپنی تقریر میں ان کے تدارک کیلئے سارک ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔ کانفرنس نہایت اہم موضوعات پر سنجیدہ غور و فکر کیلئے منعقد کی گئی تھی لیکن بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اوران کے ایما پر افغانستان اور بنگلہ دیش کے نمائندوں نے اسے پاکستان کے خلاف الزام تراشی کے موقعے میں تبدیل کر دیا جس کا وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے مسکت جواب دیا اور کشمیری عوام کے حقوق خود ارادیت کا مدلل دفاع کرکے سب کو لاجواب کردیا۔ بنگلہ دیش اور افغانستان نے اپنے وزرائے داخلہ کی بجائے ان کے نائبین کو کانفرنس میں شرکت کیلئے بھیجا، تاہم بھارتی وزیر داخلہ خود آئے اور پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کی بجائے اس میں مزید اضافہ کر کے چلے گئے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے ’’کراس بارڈر دہشت گردی‘‘ اورپٹھانکوٹ واقعے کے ضمن میں پاکستان پر بہتان تراشی کی اور کابل اور ڈھاکہ کے بم دھماکوں کو بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیا، مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی نئی لہر سے پریشان بھارتی رہنما نے پاکستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک ملک کے دہشت گرد دوسرے کے حریت پسند نہیں ہو سکتے‘‘ انہوں نے عالمی برادری سے کہا ’’دہشت گردی کی حمایت کرنے والی قوموں، تنظیموں اور افراد کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے اور ان پر پابندی لگنی چاہئے‘‘ ان کی تقریرختم ہونے پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی جو کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے کچھ دیر کیلئے ڈائس سے نیچے اتر کر اپنی نشست پر آگئے اور جواب کا حق استعمال کرتے ہوئے بھارتی وزیرداخلہ کو یاد دلایا کہ آزادی کی جدوجہد اور دہشت گردی میں واضح فرق ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں معصوم بچوں اور شہریوں پر وحشیانہ تشدد اور آتشیں اسلحہ کا بے دریغ استعمال خود دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ کوئی ملک دہشت گردی کے پردے کے پیچھے چھپ کر آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کی کوشش نہ کرے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی دیکھے۔ وزیر داخلہ نے سرحد پار سے پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ایسے مسائل دو طرفہ مذاکرات ہی سے ممکن ہیں۔ اس حوالے سے سارک اور اس جیسے دوسرے فورم کو استعمال کرنا چاہئے۔ وزیر داخلہ کا یہ کرارا جواب سن کر راج ناتھ سنگھ کانفرنس ادھوری چھوڑ کر واپس نئی دہلی چلے گئے۔ پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان سارک تنظیم کے رکن ہیں۔ اس پلیٹ فارم کا مقصد باہمی افہام و تفہیم سے خطے میں امن اوراقتصادی ترقی کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔ بھارت نے اسلام آباد کانفرنس میں مفاہمت کی بجائے کشیدگی کو بڑھانے کا راستہ اختیار کیا جو ہر لحاظ سے افسوسناک ہے، جموں و کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا مستقل حصہ ہے اورساری عالمی برادری جانتی ہے کہ سلامتی کونسل ایک سے زیادہ مرتبہ آزادانہ رائے شماری کے ذریعے کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دلانے کی قرار دیں منظور کرچکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کوئی دہشت گرد نہیں جو چوری چھپے حملے کرتا ہو۔ یہ کشمیری عوام ہیں جو پوری وادی میں جلسے جلوسوں، ہڑتالوں اور مظاہروں کے ذریعے آزادی کا حق مانگ رہے ہیں اور جا نوں کی قربانی دے رہے ہیں۔ بھارت کو چاہئے کہ اس حقیقت کو تسلیم کرے۔ مسئلہ کشمیر، کشمیریوں کی مرضی اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرے، یہ مسئلہ حل ہو جائے تو برصغیر میں امن اور اقتصادی ترقی کی رفتار تیز کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بھارت کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔