سوگوار قہقہے

July 05, 2014

کئی برس پیشتر راقم کینبرا کی آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں تھا کہ زندگی کے عجائبات (Wonders of Life) پر لیکچر کیلئے ملبورن یونیورسٹی سے بھارت نژاد پروفیسر سادھنا مہمان مقرر کے طور پر تشریف لائی تھیں۔ گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ زندگی آپ کو اتنا کچھ دیتی ہے تو بدلے میں کچھ مانگتی بھی ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی مانگ یہ ہے کہ اسے ہنستے مسکراتے بتا دو۔ کیونکہ یہ خالق و مالک کی سب سے بڑی عطا ہے اور اس کے ساتھ برتائو بھی شایان شان ہونا چاہئے۔ فرمایا کہ یوں تو خوش رہنے کے ٹوٹکوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں، مگر میں آپ کو کتب بینی کی اذیت میں ڈالے بغیر کچھ ایسی آسان سی ٹپس بتائوں گی کہ اگر آپ نے ان پر تھوڑا بہت بھی عمل کرلیا تو آپ کا شمار کم از کم سڑیل لوگوں میں نہیں ہوگا۔ ہو سکتا ہے بعض سنکی قسم کے لوگ آپ کے ساتھ اندر کی خوشی کی بات کریں کہ اندر شانت ہو گا تو اسکے اثرات باہر بھی نظر آئیں گے۔ ان کے چکر میں بالکل نہ آئیے گا، کیونکہ یہ بہت ہی بے ڈھب بات ہے۔ لوگ آپ کو فیس ویلیو پر لیتے ہیں۔ فقط آپ کا چہرہ دیکھتے ہیں۔ آپ کے اندر جھانکنے کا کسی کے پاس وقت نہیں اور یقین مانئے کہ اپنی ذات ہی نہیں اپنے ماحول کو بھی خوشیوں سے بھردینے والے لوگ بالعموم اندر سے بے حد دکھی ہوتے ہیں۔ سو باطن کو فی الحال رہنے دیجئے، ظاہر کی فکر کیجئے اور پہلی فرصت میں چہرے پر خوشیاں سجا لیجئے۔ جس سے آپ یکایک ہر دلعزیز شخصیت بن جائیں گے اور خلق خدا آپ کی جانب کھنچی چلی آئے گی۔
چہرے کی اس آرائش کی ابتدا خفیف سی مسکراہٹ سے اور انتہا قہقہہ پر ہوتی ہے۔ تہلکہ خیز قسم کا قہقہہ جو اس سارے عمل کا سردار ہے، جو روح کی گہرائیوں سے برآمد ہوتا ہے اور پھیلتا ہی جاتا ہے۔ چھوت کی بیماری کی طرح، جو جسم کو ہی نہیں جھنجھوڑتا، ماحول کو بھی غیر معمولی انرجی سے بھردیتا ہے۔ پھر ذرا توقف سے گویا ہوئیں کہ مغرب والے بے حد حسابی ہیں اور ہر چیز کو ترازو میں تولتے ہیں۔ سو انہوں نے قہقہوں کا بھی حساب کتاب لگا لیا ہے۔ کہتے ہیں، خوب قہقہے لگائو۔ کیونکہ اس سے آپ تر و تازہ ہی نہیں ہوں گے، آپ کے میڈیکل بل میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوجائے گی۔ یہ آپ کی نوکری کے حالات بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ باس کی نظروں میں آپ کی قدر و منزلت بڑھ سکتی ہے۔ کیونکہ قہقہوں کی ایک بوچھاڑ آپ کی کارکردگی میں ایک تہائی تک کا اضافہ کر سکتی ہے۔ مگر ہم مشرق والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہنسیں تو کس بات پر؟ یہاں تو مسکرانے کو بھی کچھ رہ ہی نہیں گیا اور قہقہہ لگانے والوں کو تو لوگ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں کہ بیچارے کہیں پاگل تو نہیں ہو گئے؟
بات تو سادھنا جی کی درست ہے۔ بد قسمتی سے ہماری زندگیوں سے حقیقی مسرت واقعی اٹھ گئی ہے۔ ایک عذاب سے نکلتے نہیں، دوسرے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مفلوک الحال نفوس کا تو ذکر ہی کیا۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے، پڑھے لکھے لوگ بھی اس قدر دبائو میں ہیں کہ نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ اس پس منظر میں زندگی کی تلخیوں کو قہقہوں میں اڑانے کی غرض سے اسلام آباد کے ایک نو آباد پوش سیکٹر میں رہائش پذیر ریٹائرڈ لوگوں کی منڈل کو احباب نے قہقہہ کلب کا نام دے رکھا ہے۔ فجر کی نماز اور واک کے بعد سیکٹر کے اکلوتے پارک میں ہونے والی گھنٹہ بھر کی نشست کا بس ایک ہی مدعا ہوتا ہے کہ قہقہوں کا سیلاب تھمنے نہ پائے۔ وجہ بے وجہ قہقہے ہی قہقہے۔ یہ الگ بات کہ بیچ بیچ میں عقل کی باتیں بھی ہو جاتی ہیں۔
مگر 30 مئی کی شب یہ قہقہے اس وقت سوگوار ہو گئے، جب اس منڈلی کے روح رواں اور بانی بھائی شیخ اظہار الحق اللہ کو پیارے ہو گئے۔ عجب معاملہ ہے کہ بعض لوگ برسوں آپ کے اردگرد رہتے ہیں اور آپ ان کا نوٹس تک نہیں لیتے اور بعض دنوں میں آپ کے اس قدر قریب ہو جاتے ہیں کہ گویا جنم جنم کا ساتھ ہو۔ پیشہ کے لحاظ سے انجینئر شیخ صاحب ٹیلیفون کے محکمہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور بیرون ملک بھی خدمات انجام دیں۔ موصوف سے راقم کا تعارف کوئی دو برس پہلے ہوا تھا۔ اپریل 2012ء میں بھوجا ایئر لائنز کے حادثہ میں ان کی اہلیہ محترمہ شہید ہو گئیں اور میں تعزیت کیلئے گیا تھا۔ پہلی ہی ملاقات میں یوں لگا کہ گویا ہمارا بہت کچھ سانجھا ہے۔ ایک صاحب فکر و دانش، جو قرآن و حدیث کا معقول علم ہی نہیں رکھتا تھا، اسے مخاطب کو غیر محسوس انداز میں منتقل کرنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال تھا۔ جو روایتی عالم دین نہیں تھا۔ کلین شیو، خالص دنیا دار دکھنے والا عام سا شخص۔ مگر لوگوں کو جوڑنے کا فن خوب جانتا تھا۔ جو ہر کسی میں کوئی نہ کوئی خوبی تلاش کرلیتا اور پھر برملا تذکرہ بھی کرتا تھا۔ وہ بلاشبہ ایک صوفی تھا اور علامت یہ کہ خلق خدا اس کی جانب کھنچی چلی آتی تھی۔ راقم کو زندگی میں ہزاروں لوگ ملے مگر شیخ صاحب جیسا کسی کو نہ پایا۔ مہینہ بیت گیا، ان جیسا کیا، عشر عشیر بھی دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ اور یہ سوچ کر ہول اٹھتا ہے کہ ان کے بغیر اگر احباب کا یہ عالم ہے تو ان کے اہل و عیال کا کیا حال ہو گا؟ بے شک یہ ان کیلئے بہت بڑی محرومی ہے اور ہم صبر کی دعا کے سوا کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ وہ اللہ والا شخص تھا۔ داد و دہش کا دلدادہ، مگر اس اہتمام کے ساتھ کہ دایاں دے تو بائیں کو خبر نہ ہو۔ صاحب ثروت و مرتبت ہونے کے باوجود سادگی ان پر ختم تھی۔ دعوت کھانے اور کھلانے کے شوقین۔ بلکہ ایسے مواقع کو بچوں کی طرح باقاعدہ سیلیبریٹ کرتے تھے۔ ہم 15/20 دوست ہر پندھواڑے اسلام آباد کلب میں برنچ پر جمے ہوتے تھے۔ شیخ صاحب کیلئے وہ جشن کا سماں ہوتا تھا۔ راولپنڈی کا باسی ہونے کے ناتے شہر بھر کے کھابوں کھاجوں، حلوہ پوری، سری پائے، نان پراٹھوں، غرض کھانے پینے کے ہر بڑھیا ٹھکانے کی خبر رکھتے تھے۔ خدمت کے جذبہ کا یہ عالم کہ آدمی انہیں کام کہہ کر پچھتاتا تھا۔ مدعی سست، گواہ چست والا معاملہ ہوتا تھا۔ راقم نے ایک خاص سائز کے بک شیلف کا ذکر کیا، تو جب تک تیار ہو کر اسٹڈی میں فٹ نہیں ہو گیا، انہیں چین نہیں آیا۔ یوں تو قہقہہ کلب کا ہر رکن اپنے اوپر ہنسنے کا فن جانتا ہے کہ رکنیت کی بنیادی شرط ہے، مگر شیخ صاحب اس میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ ایسی سیچویشن پیدا کردیتے اور ایسا چٹکلہ چھوڑتے کہ احباب لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ کمر میں درد کی وجہ سے جنرل راجہ کو بنچ پر بیٹھنے میں دشواری تھی۔ بولے راجہ صاحب! میرے ساتھ ٹیک لگا لیں۔ جنرل نے پس و پیش کی تو کہنے لگے، تکلف نہ کیجئے، اور یہ کون سی مفت کی سروس ہے۔ بیس روپے فی گھنٹہ ٹیک لگوائی چارج کروں گا۔ کسی نے کہا کہ سروسز تو بہت بکتی دیکھیں، مگر ٹیک لگائی کرایہ پر اٹھتی پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ بولے شیخ پتر ہوں، خوب جانتا ہوں کس وقت کیا بیچنا ہے۔
سفر آخرت کا بھی اپنا ہی رنگ تھا۔ 30 مئی کو جمعہ کا دن تھا۔ جمعہ سمیت مغرب تک کی سب نمازیں پہلی صف میں عین امام صاحب کے پیچھے ادا کیں۔ مغرب کے بعد یکایک دل گڑبڑایا، اسپتال لے جائے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ جنازہ اٹھا تو سڑکیں تنگ پڑ گئیں۔ ہر طرف سر ہی سر تھے۔ ہزاروں کا مجمع ہوگا۔ قاری صاحب نے اپنے تعزیتی خطبے میں کہا کہ آج علاقہ کا ہر دلعزیز ترین شخص ہمارے درمیان سے اٹھ گیا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور لوگ ایک دوسرے کو یوں پرسہ دے رہے تھے کہ گویا ان کا اپنا عزیز سفر آخرت پر روانہ ہو گیا ہو۔ مر سب نے جانا ہے۔ یہ گھڑی سب پر کھڑی ہے، مگر نصیب والے ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں اٹھ جانے کے بعد بھی اچھے الفاظ سے یاد کیا جائے۔ رہا ہمارا قہقہہ کلب تو وہ جاری و ساری ہے۔ لوگ اب بھی بیٹھتے ہیں۔ قہقہے بھی لگتے ہیں مگر ان کی کھنک پہلے والی نہیں رہی۔ ہمارے قہقہے سوگوار ہو گئے ہیں۔ نہ جانے کب اصل فارم میں آئیں؟ اور کیا خبر کہ آتے بھی ہیں یا نہیں۔ یا اس وقت تک کوئی اور تیاری پکڑ لیتا ہے۔ بقول شاعر :
ایہہ میلہ دو دن دا
ایتھے بیٹھ کسے نہیں رہنا