پاکستان پیپلز پارٹی:ناقابل رشک حالت میں

July 09, 2014

امریکہ کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی نے جس لئے پاکستان پیپلز پارٹی کو جاسوسی کے لئے منتخب کیا اس کے لئے ایک اور بڑی خفیہ ایجنسی کو تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی اور امریکی یہ جاننا چاہتے ہوں گے کہ پاکستان میں مختلف معاملات کیا شکل اختیار کر سکتے ہیں لیکن دوسری طرف بھارت میں حزب اختلاف کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی جاسوسی کی جا رہی تھی۔ بظاہر امریکی طرز عمل غیر منطقی دکھائی دیتا ہے ۔ ویسے بھی پیپلز پارٹی اپنے دور اقتدار میں سب سے زیادہ اپنا ہی نقصان کر رہی تھی اور وہ کسی اور فریق کیلئے کسی قسم کا خطرہ نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی کے تنزل کا اپنے دور حکومت میں شروع ہونے والا عمل تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے مخدوم شہاب الدین اور کچھ اور لیڈروں نے پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کی۔ اس سے پہلے احمد آصف علی جیسے کئی رہنما پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر مختلف پارٹیوں میں جا چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی چھوڑ کر جانے والوں میں سے زیادہ کا تعلق پنجاب سے ہے جہاں پچھلے الیکشن میں اس کا مکمل صفایاہو گیا تھا۔اگرچہ پیپلز پارٹی اب بھی ملک کی دوسری بڑی پارلیمانی پارٹی ہے لیکن اسی کی ساری طاقت کی بنیاد سندھ ہے۔ مختلف پہلوئوں سے دیکھا جائے تو ہر وہ پارٹی جس کی پنجاب میں موجودگی نہ ہو، اقلیتی اور علاقائی پارٹی کے طور پرجانی جاتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو پہلے بھی ملک اور بالخصوص پنجاب میں انتخابی شکستوں کا سامنا رہا ہے لیکن وہ پھر سے ابھر کر سامنے آجاتی تھی لیکن اب حالات مختلف ہو چکے ہیں۔ اب پاکستان تحریک انصاف پنجاب کی دوسری بڑی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آچکی ہے۔ قومی اور بہت سے ضمنی الیکشنوں میں مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بجائے تحریک انصاف سے رہا ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے تنزل کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو کسی حد تک تحریک انصاف پوراکر چکی ہے اور کچھ بعید نہیں کہ کچھ نئی سیاسی تنظیمیں بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کا پنجاب میں پیدا کیا ہوا خلا ابھی اس لحاظ سے باقی ہے کہ نسبتاً سیکولر اور ترقی پسند ووٹروں کی کوئی نمائندہ پارٹی اس کی جگہ نہیں لے سکی۔ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں دوبارہ سے پاؤں جما سکتی ہے؟ اس کے امکانات کافی معدوم ہیں لیکن اپنا کھویا مقام حاصل کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کو اپنی ماضی کی غلط حکمت عملی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے پچھلے دو الیکشنوں میں وسطی پنجاب کے ووٹروں کی حساسیت کو نظر انداز کئے رکھا اور ایک طرح سے اس کے لیڈروں نے اس گنجان آبادی والے علاقے کو انتخابی حکمت عملی میں منفی کردیا۔ پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کی حکمت عملی یہ بن گئی کہ وسطی پنجاب کو نظر انداز کرکے جنوبی پنجاب سے جیتا جائے۔ انہوں نے وسطی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں شکست خوردگی کا رویہ اپنا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے وسطی پنجاب کے ووٹروں کے ایشوز کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔
اس پہلو سے دیکھیں تو 2007ء کے الیکشنوں میں پنجاب میں سب سے مقبول ایشو آزاد عدلیہ کی بحالی کا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس بارے میں نہ صرف واضح موقف اختیار نہیں کیا بلکہ تاثر یہ تھا کہ وہ آزاد عدلیہ کی بحالی کی مخالف ہے۔ مسلم لیگ (ن) جو اس الیکشن میں کافی مسائل کا شکار تھی محض عدلیہ کی بھرپور حمایت کی وجہ سے وسطی پنجاب میں جیت گئی۔ اگرچہ اس الیکشن میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے عوام میں پیپلز پارٹی کے لئے کافی ہمدردی پائی جاتی تھی لیکن پھر بھی اس کو اس کا بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ متذکرہ علاقے کے ذہن میں آزاد عدلیہ کی بحالی سب سے بڑا مسئلہ تھا۔
اپنے دور اقتدار میں پیپلز پارٹی نے سرائیکی صوبے کا مسئلہ اٹھا کر وسطی پنجاب کے ووٹروں کو ناراض کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی حکمت عملی یہ رہی کہ وہ سرائیکی صوبے کا نعرہ لگا کر جنوبی پنجاب میں مکمل طور پر فتحیاب ہوگی۔ اس کی حکمت عملی ٹھوس حقائق کے منافی تھی۔ اول تو سرائیکی صوبے کی تخلیق کا مسئلہ جنوبی پنجاب کا عوامی مسئلہ نہیں تھابلکہ یہ صرف مخصوص اشرافیہ تک محدود تھا۔ دوم جنوبی پنجاب کے چند اضلاع کو چھوڑ کر باقی علاقے میں سرائیکی بولنے والوں کی اتنی اکثریت نہیں تھی کہ وہ کسی بہت بڑی انتخابی فتح کی بنیاد بن سکیں۔ سوم جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب میں نہ تو بہت زیادہ فرق ہے اور نہ ہی کوئی گہرا تضاد جس کی اس قدر فسانہ طرازی کی جاتی ہے بلکہ مختلف انتخابات کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہی پارٹی جو پہلے وسطی پنجاب میں جیتی ہے بعد میں جنوبی پنجاب میں بھی اپنے پاؤں جما لیتی ہے۔شہید ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی 1970ء کے انتخابات میں وسطی پنجاب سے جیت گئی تھی اور جنوبی پنجاب سے قابل قدر کامیابی حاصل نہیں کر پائی تھی۔ لیکن اس کے بعد جب پارٹی اقتدار میں آگئی تو جنوبی پنجاب کے بڑے زمیندار اس میں شامل ہو گئے اورپاکستان پیپلز پارٹی اس علاقے سے جیتنا شروع ہو گئی۔ مسلم لیگ (ن) کا تجربہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔اس کے الٹ بھی صحیح ہے کہ جس پارٹی کی بنیادیں وسطی پنجاب میں ختم ہو جائیں وہ وقت کے ساتھ پورے پنجاب سے غائب ہو جاتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے لئے زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہے کہ اس کا پنجاب سے بتدریج صفایا ہوا ہے۔ اگرانتخابات کا 1988ء سے 2013ء تک کا گراف دیکھا جائے تو ہر نئے الیکشن میں اسے وسطی پنجاب میں پہلے سے کم سیٹیں ملی ہیں۔ پہلے کچھ الیکشنوں میں وسطی پنجاب کی کمی جنوبی پنجاب سے کسی حد تک پوری ہوتی رہی لیکن آخری الیکشن میں یہ نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ غیر مناسب حکمت عملی بھی تھی اور پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ انتہائی بری کارکردگی بھی۔
اپنے پانچ سالہ دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی گورننس کا ریکارڈ ملا جلا تھا۔ اس نے جمہوری نظام کی بقا کے لئے جو کوششیں کیں وہ قابل تعریف ہیں لیکن معاشی شعبے میں اس کی کارکردگی قابل رشک نہیں تھی۔ اسی طرح اس کے بہت سے مرکزی رہنماؤں کے بارے میں بدعنوانی کے اسکینڈل مستقل سامنے آتے رہے۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی اس کی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش تو نہیں کی لیکن اس نے اس کے راستے میں ایسے روڑے اٹکائے رکھے کہ وہ مثبت کارکردگی کی طرف متوجہ نہیں ہو سکی۔ اسی طرح دوسری مقتدر طاقتوں نے بھی اسے چین سے منصوبہ بندی نہیں کرنے دی۔ مثلاً کیری لوگر بل اور میمو گیٹ جیسے معاملات میں اسے الجھائے رکھا گیا۔ پاکستان کے میڈیا کا بھی اس کے بارے میں بہت مخاصمانہ رویہ قائم رہا۔
پیپلز پارٹی کے بارے میں منیر نیازی کا مشہور پنجابی کا مصرع صادق آتا ہے
کچھ شہر دے لوک وی ظالم سن، کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
(کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے، کچھ ہمیں مرنے کا شوق بھی تھا)