میرے بھائی، میرے ہم زاد، میرے ریا کار

July 12, 2014

ارے نہیں، وللہ نہیں، اس عنوان کو دشنام سے تعلق نہیں۔ یہ تو بودلیئر کی اس نظم کا مصرعہ ہے جس میں فرانسیسی شاعر نے اپنے ناصح سے خطاب کیا تھا۔ گالی وہاں دی جاتی ہے جہاں دلیل نہ سوجھے۔ تعصب نام ہی دلیل سے گریز کا ہے۔ وہ کیا دلیل دیں گے جنھوں نے خود بیان کیا کہ صاحب مطالعہ جنرل نے ہنگام ملاقات انہیں ایک کتاب پیش کی، عنوان تھا ’’Reason‘‘۔ لطیف اشارہ تھا ۔ وہ کیا سمجھے یہ باریکی، طبیعت جس کی گٹھل ہو۔ خاکسار نے میجر جنرل اطہر عباس کے بیان پر اپنی رائے دی تھی۔ رائے میں دعویٰ نہیں کیا جاتا۔ رائے تو محض ایک زاوئیے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ زمین اور آسمان کے درمیان ان گنت معاملات ہیں اور ہر مسئلے پر مکمل خبر کا دعویٰ رکھنا محض بے خبری کی دلیل ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ اگر تحریر میں کسی کا نام نہ لیا جائے تو اس میں شخصی آویزش سے گریز کا اشارہ ہوتا ہے۔ یہاں تو صاحب ، مگر ، ہمہ دانی کا ایسا دعویٰ ہے کہ درد اٹھ اٹھ کے بتاتا ہے ٹھکانہ دل کا۔ چن چن کر اپنی ہی داڑھی کے تنکے گنوائے جاتے ہیں۔ سو ہمارے والٹر لپ مین نے قلم اٹھایااور گالیوں کا ایک جھاڑ باندھ دیا۔ پھر ایک طول طویل گریز میں حسب سابق غیر مدلل مداحی کا طومار… آخر آخر میں ایک بار پھر ترتیب سابق سے طعن و دشنام کی تکرار ۔
برادرم حسن مجتبیٰ نے اگلے روز ایک خوبصورت کالم میں اردو صحافت کے روشن چراغ گنوائے۔ صحیح لکھا۔ تری آواز مکے اور مدینے۔ اسی تاریخ کا دوسرا رخ یہ ہے کہ دو سو برس سے اردو صحافت نے جذبات فروشی پر کمر باندھ رکھی ہے۔ ریا کاری کی رسد طلب سے کہیں زیادہ رہی ہے۔ اس سے ہمارا اجتماعی ذہن بری طرح مجروح ہوا ہے۔ ہم خود پسندی ، خوش فہمی اور تنگ نظری کے معجون فلک سیر کے رسیا ہو چکے ہیں۔ وہ بردار ملک جو پاکستان کوپوچھتے نہیںان کی ہانکی جائے تو ہم اسے ملی حمیت کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ہر موڑ پر ہمیں راستہ بند ملتا ہے۔ سطح آب پر اٹھنے والی ہر خفیف لہر ہمارے لئے موج بلاخیز ثابت ہوتی ہے۔ ایک باریک سی لکیر پیشہ ورانہ صحافت کو سیاست سے جدا کرتی ہے۔ ہم نے جذبات کے گھوڑے پر سوا ر ہو کر اس قدر دھول اڑائی کہ اس لکیر کا نشان تک مٹا ڈالا۔ مشتاق احمد یوسفی نے لکھا کہ اردو نثر کو تغزل لے ڈوبا۔ درست اور اسی کا تتمہ یہ ہے کہ اردو صحافت کو خطابت لے ڈوبی۔ مولوی باقر کا دہلی اخبار ایران کے بادشاہ اور زار روس کی آمد کا اشتہار دیتا تھا ۔ ہمدرد اور کامریڈ ملتان اور خاران سے بے نیاز تھے ، انہیں تو جنگ بلقان کی فکر تھی۔ شریف مکہ اور ابن سعود کی لڑائی اردو اخبارات کے اداریوں میں لڑی گئی ۔ دلی کا دربار آٹھ صدیوں تک آباد رہا۔ ہم نے بیسویں صدی میں کہیں جا کر خلافت کا نیا تصوردرآمد کیا۔ اب اس پہ برگ و بار آرہے ہیں۔انتخابات کے موسم اور فرقہ وارانہ فساد میں تعلق کی جڑیں بہت دور تک جاتی ہیں اور کسی قادرالکلام صحافی کے اخبار میں جا نکلتی ہیں۔ کسی کو یاد نہیں کہ چالیس کی دہائی میں لاہور کا مؤقرترین اردواخبار یونینسٹ پارٹی کا حامی تھا۔ 1949ء میں سول اینڈ ملٹری گزٹ کی بندش میں ہم پیشہ صحافیوں نے کیا کردار ادا کیا؟ پی پی ایل کے اخبارات پر قبضہ ہوا ، ہمارے قلم رنجک چاٹ گئے۔ بھٹو صاحب کے مداحوں کو اہل صحافت پر ان کی ستم رانیاں یاد نہیں۔ ضیاالحق کے عہد میں آزادی صحافت کے لئے قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کا باب ہم نے خوب یاد کر رکھا ہے۔ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ مزاحمت کرنے والے صحافی اقلیت میں تھے۔ اہل قلم کی اکثریت نے صاحب سیف کے دست جہل پسند پر بیعت کر رکھی تھی۔ 1988ء میں عقب نشینی کا کھیل شروع ہوا تو ہماری صحافت نے جمہورکی بجائے لشکر انہدام کی ہم نوائی میں بہتری جانی۔ پرویز مشرف نازل ہوئے تو ہم نےروایت کی مدد سے شاہسوار کے ڈھولے گائے۔ عرق النسا کے قدیمی مریض بھی وفور شوق میں کھڑے کھڑے تاشے بجا رہے تھے۔ ابھی جنگ گروپ کا معاملہ تو تازہ ہے۔ کیا مؤرخ نہیں لکھے گا کہ اہل صحافت میں سے کس نے تقیہ اختیار کیا، کون خارا شگاف نعرے لگاتا کوتاہ نظری کے تانگے میں بیٹھ لیا اور کس نے قومی مفاد کی آڑ میں سینہ کوبی کا ناٹک کرتے ہوئے اہل جبر و اختیار کے مؤقف میں آواز بھری۔ ہم محمل خواب پر نظریں جمائے ایسا بگٹٹ بھاگ رہے ہیں کہ ناقہ لیلیٰ کے بے حال ہونے کی خبر ہی نہیں۔ ابھی دنیا بھر کی جامعات کی درجہ بندی کی خبر آئی ہے۔ دنیا بھر کی پہلی 400یونیورسٹیوں میں تو ہمارا نشان کیا ملے گا، ایشیاکے پہلے ایک سو تعلیمی اداروں میں ہمارا کہیں ذکر نہیں۔ علم میں ہم کوتاہ رہ گئے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم دلیل کی بجائے دشنام سے کام نکالنا چاہتے ہیں۔ ادارے کی بجائے دل نواز سخن رکھنے والے رہنما کی تلاش میں ہیں ۔ ضابطے کی بجائے حسن نیت کے متلاشی ہیں۔ ہمیں خبر نہیں کہ زمانے کے رنگ ڈھنگ بد ل گئے ہیں ۔ ہم سلطان سنجر کے اسپ تازی سے اتریں تو ہمیں خبر ہو کہ دنیا بدل گئی ہے۔کوئی ایک معاملہ ایسا نہیں جس میں تاریخ نے ہمارے مؤقف کی استواری پر شہادت دی ہو۔ دشنام کی رسید بھی لیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم پہلے سوویت یونین کے کاسہ لیس تھے اور پھر امریکہ کے کشکول بردار ہو گئے۔ بجا فرمایا۔ صرف یہ اشارہ کرنے کی اجازت دیجئے کہ آزادی کے بعد ہمارے اصحاب اقتدار و اختیار نے امریکی لشکر کا علم اٹھا رکھا تھا۔ مقصد ہم بے نوائوں پہ جبر کی تلوار کڑکانا تھا۔ سوویت یونین سے ہمیں کیا لینا دینا تھا ۔ اور سوویت یونین کو ہم ایسوں سے کیاتعلق؟ روس اور امریکہ کو اپنے اپنے آمروں کی دل جوئی مقصود تھی۔ ہم تو مقامی چیرہ دستی میں سیاسی مجادلے کی مجبوریاں نبھا رہے تھے۔ سرد جنگ ختم ہوئی تو ہمارے ارباب اختیار نے ملا سے گٹھ جوڑ برقرار رکھنے کے لئے امریکہ سے پنجہ آزمائی کا سوانگ رچایا۔ ہم پھر راندۂ درگاہ ٹھہرے۔ اہل وطن کے لئے علم ، آسودگی اور آزادی چاہنے والے کاسۂ سر کو کشکول بنا کر جیتے ہیں۔اس گداگری پر طعن کیسا؟ آپ یہ دیکھئے کہ ہر دو زمانوں میں مقامی اہل اقتدار کی منشا کیا تھی اور آپ دریا کے کس کنارے پر کھڑے تھے؟
این جی اوز کا نام بھی خوب لیا۔ ہمارا تو افتخار یہی ہے کہ تہذیب کے فرزند ہیں اور صد شکر کہ مذہبی پاپائیت کے حامیوں میں شمار نہیں ہوتے۔ تاریخ کے کچھ اندھے موڑ تھے جہاں سیاست کی راہیں مخدوش تھیں۔ عورتوں، محنت کشوں ، اقلیتوں ، مقہور اور مجبور طبقوں کی آواز کون اٹھاتا؟ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اہل انقلاب اٹواٹی کھٹواٹی لئے پڑے تھے۔ بڑے دھارے کی سیاست پر ذات برادری اور بردہ فروشوںکا قبضہ تھا۔ ہم نے غیر سرکاری اداروں کی مدد سے وہ آواز زندہ رکھی جسے اذن سماعت نہیں تھا۔ یہ پناہ نہیں تھی، مورچہ تھا۔ اگر مورچہ نہیں ہوتا تو اہل اقتدار پلٹ پلٹ کر حملہ آور کیوں ہوتے اور آپ کے دشنام کی فہرست میں یہ اصطلاح کیونکر ایزاد ہوتی؟ ہم شاخ آہو پہ آویزاں فہم مستعار کی دھونس نہیں لیتے۔ مجہول علم کا غرہ ماننے والوں میں سے ہم نہیں، اس لیے کہ ہم نے حقیقی اہل علم کی آنکھیں دیکھ رکھی ہیں۔ بیانِ مجرد سے سرکاری افسروں پہ علوم باطنیہ کی کاٹھی ڈالنے والوں کے غمزے وہ اٹھائیں جنہیں سرکار دربار میں رسوخ کی فکر ہو۔ کلام اقبال کی عظمت سے انکار نہیں لیکن خاکسار نے اپنی معروضات کا عنوان ’تیشہ نظر‘اختر الایمان سے اخذ کیا ہے۔
بے تیشۂ نظر نہ چلو راہ رفتگاں
ہر نقشِ پا بلند ہے دیوار کی طرح
ہمارے رفتگاں کے نقوش پا دیوار جیسے بلند تھے۔ ہمارے حصے میں وہ طفلان خود معاملہ آئے جو دیوان خانے کی چاندنی پر مفاد کی مٹی سے سنے پیروں کے نشان ڈال دیتے ہیں ۔ بقلم خود کبھی اس درگاہ کے مجاور اور کبھی اس در کے سوالی۔ درحقیقت محض آمریت کے ہوا خواہ ، جہالت کے حدی خواں ، ہوائے ہوس کے غلام، اقتدار کے پجاری اور توہمات کے اسیر۔ میرے بھائی، میرے ہم زاد ، میرے ریا کار…