ساری جاتے دیکھیو تو آدھی دیجیو بانٹ

August 07, 2014

حکومت کے حامی اور ہمنوا جب معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے مطالبات آخر آئین کی کون سی شق کے تحت مانے جاسکتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔ یہ دنیا کے سب سے زیادہ اور بڑے سادہ لوح ہیں یا پوری قوم کو ہونق اور کودن سمجھتے ہیں فیصلہ عوام کرسکتے ہیں؟ حالانکہ معمولی عقل اور سیاسی تاریخ کی شدبد رکھنے والا ہر شہری بخوبی جانتا ہے کہ اپوزیشن کے مطالبات ماننے اور کسی سیاسی بحران سے نکلنے کا طریقہ کیا ہے اور موجودہ حکمران ماضی میں کس طرح آئینی و قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے والے اقدامات کا حصہ بنتے رہے۔
1993ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کے لانگ مارچ کو پہلے تو عدالت عظمی سے بحال ہونے والے میاں نواز شریف اور حکومت کے بھونپوآج کی طرح غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر قانونی قرار دیتے رہے، میاں صاحب ٹی وی پر اپنی مشہور زمانہ تقریر ’’ڈکٹیشن نہیں لوں گا، استعفی نہیں دوگا، اسمبلی نہیں توڑوں گا‘‘ پر ڈٹے رہے مگر پھر انہوں نے جنرل عبدالوحید کاکٹر کی ڈکٹیشن بھی لی، اسمبلی بھی توڑی اور برضا و رغبت استعفی بھی دیا، آسمان گرانہ زمین پھٹی البتہ آئین اور اسمبلی بحال کرنے والے چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ نجی محفلوں میں نسیم حسن شاہ حیرت سے پوچھا کرتے میاں صاحب یہ کرنا تھا تو ہمیں آزمائش میں ڈالنے اور ایک ناقابل عمل و ناپائیدار فیصلہ کرانے کی ضرورت کیا تھی؟
ایک نشست میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آر جہانگیر نصراللہ نے جنرل عبدالوحید کاکٹر کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے تفصیل سے بتایا تھا کہ آرمی چیف کو مداخلت کی دعوت وزیر اعظم نےدی، صدر غلام اسحق خان کے استعفی کے عوض اپنے استعفی کی پیشکش کی اور عالمی بنک کے نائب صدر معین قریشی کا نام بطور نگران وزیر اعظم پیش کیا جو پاکستان کی شہریت ترک کرکے امریکہ کے شہری بن چکے تھے۔
اسلام آباد ائیر پورٹ پر معین قریشی کو سبز پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ پیش کیا گیا، پاکستان کا شہری ثابت کرنے کے لئے انہیں لاہور کے میانی صاحب قبرستان جاکر ایک خاتون کی قبر پر فاتحہ خوانی کرائی گئی کہ یہ نگران وزیر اعظم کی والدہ ماجدہ کی لحد ہے اس خاتون کے وارث آج تک حیران اور پریشان ہیں کہ ہمارا یہ سن رسیدہ نامور بھائی کب پیدا ہوا، کب امریکہ سدھارا اور دوبارہ پھر کبھی مبینہ ماں کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے کیوں نہیں آیا؟ وزارت عظمی ختم تو رشتہ بھی ختم۔
2009ء کا لانگ مارچ بھی پرانی بات نہیں جس کی قیادت میاں صاحب نے فرمائی اور’’ہم ججوں کو کس آئین ا ور قانون کے تحت بحال کریں‘‘کی رٹ لگانے والے حکمرانوں نے معزول ججوں کو ایگزیکٹو آرڈر کے تحت بحال کیا، اسی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے اور ایگزیکٹو آ رڈر کے تحت بحال ہونے والے چیف جسٹس نےکسی وزیر اعظم کو معزول بھی کیا کسی کو آئین کی متعلقہ شقیں یاد رہیں نہ جوڈیشل کمیشن کا فورم اور نہ پارلیمنٹ جو ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی ایک طرف بیٹھ کر دہی کھاتی رہی۔
2012ء میں الیکشن کمیشن نامکمل تھا، چیف الیکشن کمشنر سے محروم الیکشن کمیشن نے 28 نشستوں پر ضمنی انتخابات کرائے تو سپریم کورٹ میں معاملہ اٹھایا گیا ،یہ آئین کی خلاف ورزی اور قانون شکنی تھی۔ حکومت نے کسی ناقدانہ مخالف سے یہ نہیں کہا کہ اب الیکشن ہوچکے، ہمارا اختیار ختم، الیکشن ٹربیونل اور الیکشن کمیشن کی طرف رجوع کرو،حکومت اور اپوزیشن دونوں نے مل کر آئین میں بیسویں ترمیم کی، ان ضمنی انتخابات کو آئینی تحفظ فراہم کیا، چیف الیکشن کمشنر کو عضو معطل بنا کر الیکشن کمیشن کے دیگر چار ارکان کا تابع مہمل بنایا اور آئندہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کے ارکان کی من مانی کا راستہ ہموار کردیا۔ موجودہ بحران الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور بیسویں آئینی ترمیم کا شاخسانہ ہے۔
ان مثالوں کا مقصد یہ ہے کہ اگر حکومت کسی بحران سے نکلنے کا عزم رکھتی ہو تو ہزاروں راستے نکل سکتے ہیں۔Where there is a will there is a wayالبتہ خوئے بدرا بہانہ بسیار۔ یوسف رضا گیلانی کے دور میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلے کے تحت اعلیٰ بیوروکریسی کی ترقیوں کو فیڈرل کمیشن کی سفارش سے مشروط کیا مگر حال ہی میں فیڈرل کمیشن کو بائی پاس کرکے من پسند بیوروکریٹس کو ترقی دیدی گئی۔ بہت سے دیگر ایماندار، اہل اور حقدار بیوروکریٹس کی طرح کرامت بخاری ترقی سے محروم، او ایس ڈی بنے گھر میں بیٹھے ریٹائرمنٹ کا انتظار کررہے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کی طرف سے معزول کئے جانے والے شجاعت عظیم سول ایوی ایشن ،پی آئی اے اور اے ایس ایف کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں، پرائٹویٹائزیشن میں بھی پیپرا رولز کی خلاف ورزی کھلم کھلا ہورہی ہے اور ٹرانسپریسی انٹرنیشنل کے تحفظات کو بھی پرکاہ کے برابر وقعت دینے کو کوئی تیار نہیں لیکن انتخابی عمل کو دھاندلی سے پاک کرنے کا معاملہ ہو تو حکومت بےبس اور لاچار ہے، اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔
آج تک لوگ یہی سمجھتے تھے کہ کاروبار ریاست حکومت چلاتی ہے وہ پیش آمدہ مسائل کا حل ڈھونڈتی اور بحرانوں سے حکمت و دانشمندی کے ساتھ نمٹتی ہے ، ریاست کے باقی ادارے اس کے معاون و مددگار ہوتے ہیں یا اسے راہ راست پر برقرار رکھنے کے ذمہ دار، مگر موجودہ بحران میں حکومت یہ ثابت کرنے پر تلی ہے کہ وہ محض تماش بین ہے اور کسی ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کی صلاحیت سے عاری۔ ملک و قوم کو بند گلی سے نکالنا اس کی ذمہ داری ہے نہ مخالفین کو معقولیت اور تدبر کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھا کر کسی قابل قبول حل پرآمادہ کرنا اس کا فرض۔ یہ صرف انہیں دھونس دھمکیوں سے مشتعل کرسکتی ہے یا ایف آئی اے پولیس کے ذریعے ہراساں۔
بعض تجزیہ نگاروں اور سیاسی مبصرین کی یہ رائے سن اور پڑھ کر میاں صاحب کسی صورت میں اپوزیشن کا مطالبہ نہیں مانیں گے خواہ ملک میں مارشل لاء لگ جائے افسوس ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کی یہی انا پرستی اور ہٹ دھری 1977ء میں مارشل لاء کا سبب بنی۔ 1999ء میں میاں صاحب کی ضد نے ننگی فوجی مداخلت کی راہ ہموار کی شاید 1993ء کے استعفی کی خفت مٹانا چاہتے تھے۔ سیاسی مخالفین سے کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے نہ کرنا، ان پر دھونس جمانا، اپنے وزراء اور مشیروں کے ذریعے طنز و استہزاکا نشانہ بنانا اور ملک میں مارشل لاء کی راہ ہموار کرنا بھی کیا اصول پرستی اور جمہوریت پسندی ہے؟ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے ،کی پالیسی کیا دانش و بصیرت کا شاہکار ہے۔
کیا میاں نواز شریف ایک بار پھر یہ الزام اپنے سر لینا چاہتے ہیں کہ وہ برسر اقتدار آکر ہمیشہ معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے جاتے اور اپنی مدت اقتدار پوری کرنے سے زیادہ سیاسی مخالفین اور ریاستی اداروں پر مکمل بالا دستی کی خواہش سے مغلوب رہتے ا ور بالآخر قبل از وقت رخصت ہوجاتے ہیں کبھی ساری جاتے دیکھیو تو آدھی دیجیو بانٹ کا محاورہ سنا نہ اس کے حسن و قبح پر غور کیا۔ عزم اور ارادہ ہو تو بحران سے نکلنے کے راستے ہزار؎
سفر ہے شرط مسافر نواز بتہیرے
ورنہ شاہانہ جمہوریت کا یہ سفر رائیگاں تو ہے