سمندر کس طرف ہے

August 22, 2014

کسی نے کیا اچھی بات کہی ہے۔ پہلے ہم تاریخ پڑھ رہے تھے، اب ہم تاریخ میں جی رہے ہیں۔یہ بات ہمیں پہلے بھی معلوم تھی لیکن یہ بات یوں کہنے کا سلیقہ نہیں تھا۔ سچ ہے کہ ہم تاریخ میں جی رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم تاریخ کے گواہ بن رہے ہیںاور گواہ بھی کیسے؟ چشم دید۔بڑی عمر میں بس ایک ہی لطف ہے۔ ذہن کو جس نئے پرانے کوچے میں جی چاہے لے جائیے اور اگر دماغ حاضر ہو تو کتنے ہی منظر سامنے صف باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کچھ خوش گوار، چند تکلیف دہ۔ وہ روزانہ جلوسوں کا نکلنا۔ وہ مجمع کا نعرے لگانا۔ لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان۔ اور کبھی کبھی یہ بھی سنائی دینا کہ خون سے لیں گے پاکستان۔ میری عمر کے لڑکوں کے لئے مسلم لیگ نیشنل گارڈ کی وردیاں سلوا دی گئی تھیں۔ جلوس میں آگے آگے لڑکوں کو رکھا جاتا تھا۔ خدا جانے اس میں کیا حکمت تھی مگر کوئی حکمت تھی ضرور کہ آج تک ایسے موقعوں پر آگے آگے چلنے کی خواہش ہوتی ہے۔ کس خوبی سے یاد ہے کہ الیکشن سر پر آگئے۔ ووٹ ڈالنے کے لئے مختلف رنگوں کے بکس بنوائے گئے تھے۔ ہرا بکس مسلم لیگ کا تھا۔ میرے والد ، جو گھر سے بہت کم نکلتے تھے اور جب نکلتے تو اچکن پہن کر، اُس روز مجھے ساتھ لئے جولاہوں کی بستی میں گئے۔ میر صاحب کو آتا دیکھ کر جولاہے حیران رہ گئے اوران کا استقبال کیا۔ والد صاحب انہیں دیر تک سمجھاتے رہے کہ کل صبح میونسپلٹی جانا ہے اور جو پرچی ملے اُسے احتیاط سے ہرے بکس میں ڈالنا ہے۔ پھر الیکشن کا دن آیا۔ صبح سے شام تک لاؤڈاسپیکر پر ایک ہی گانا بجتا رہا۔’ملّت کا پاسبان محمد علی جناح‘۔ مسلمانوں نے اپنی ساری پرچیاں نہایت سعادت مندی سے ہرے بکس میں ڈال دیں۔ نہ کوئی شور نہ شرابہ۔ پاکستان کا بننا طے پا گیا۔ چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی رات میں چھٹی جماعت کا بارہ سالہ طالب علم تھا۔ سارا شہر جاگ رہا تھا۔(یہ بات یو پی کے چھوٹے سے شہر روڑکی کی ہے جہاں میں پیدا ہوا تھا)۔شہر کی ہندو آبادی نے آدھی رات کو آزادی کا جشن منانے کی زبردست تیاری کی تھی۔ تھوڑے سے مسلمانوں نے مٹھائی کا اہتمام کیا تھا اور اپنے اپنے ریڈیو پر لاہور اسٹیشن لگا رکھا تھا۔ بارہ بجے سے ذرا پہلے سرکار انگلشیہ نے پاکستان کے قیام اور آزادی کا پروانہ دیا ۔ بارہ بجے کے بعد ہندوستان کو آزادی کا پروانہ دیا گیا۔ اگر پہلے پورے برصغیر کو آزادی دی جاتی تو پاکستان کے قیام کا پروانہ بھارت سرکار دیتی۔ وہ کسی کو منظور نہیں تھا۔ چہ میگوئیاں ہمیشہ ہی مزے کی ہوتی ہیں، اس وقت یوں سننے میں آیا کہ ہندو پنڈتوں نے حساب لگا کر بتایا کہ آزادی حاصل کر نے کے لئے بہترتاریخ پندرہ اگست ہو گی۔ مسلمانوں نے چودہ اگست یعنی ماہِ رمضان کی ستائیس تاریخ کو مبارک جانا۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ کس کی رائے بہتر تھی۔ مگر جیسا جشن میں نے اس رات دیکھا، پھر کبھی نہیں دیکھا۔ یوں لگا جیسے صدیوں بعد زمین نے کوئی خزانہ اگل دیا لیکن اس رات زمین نہیں ، آسمان منوّرہوا۔ کچھ ہنرمند کاریگروں نے ہوا میں بلند ہونے والی شعلہ بردار قندیلیں بناکر قطار در قطار اڑائیں جنہوں نے فضا میں بلند ہو کر زمین کے دائرے کے ساتھ ساتھ ہوا میں ایک قوس کامنظر بنا دیا۔ وہ حیران کن نظارہ میں چاہوں بھی کہ نگاہوں سے اوجھل ہوجائے، نہیں ہوگا۔
صاف نظر آتا تھا کہ یہ قوم برسوں نہیں، صدیوں بعد ملنے والی آزادی کا جشن منا رہی ہے۔ اس کے بعد کے حالات دنیا کو معلوم ہیں۔ میرے والد نے گھر کی خواتین اور بچّوں کو ہمارے بڑے بہنوئی کے پاس ہاپوڑ بھیج دیا جو وہاں کے تحصیل دار تھے اور ہر طرف سے محفوظ کچہری کے احاطے میں رہتے تھے۔ یہ کچہری میں نے پہلے بھی دیکھی تھی۔ اس کا زیادہ تر عملہ ہندو تھا لیکن تحصیل کا سارا کام اردو میں ہوتا تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ عملہ جشن آزادی کی چھٹی پر چلا گیا اورجس روز واپس کام پر آیا، اپنے اپنے ڈیسک سے کاغذات نکالے اور سارا کام ہندی میں شروع کر دیا۔ نہ کسی حکم کا انتظار کیا نہ ہدایت کا۔ ان ہی دنوں بچّوں کا ایک ہندی رسالہ الہ آباد سے آیا کرتا تھا۔ اس نے خود ہی الہ آباد کا نام پریاگ کر دیا۔ ہاپوڑ کے قریب گڑھ مکتیسر میں مسلمانو ں کا بہیمانہ قتل ِ عام ہو چکا تھا اور مجھے یا دہے کہ میرے بہنوئی ہندوانہ لباس پہن کر گڑھ مکتیسر کے دورے پر گئے تھے جو ان کے فرائض کا حصہ تھا۔ اس وقت ہمالیہ سے لے کر راس کماری تک خوف اور اندیشوں کی فضا طاری تھی۔ ایک روز کچھ مسلمان بڑی خاموشی سے ہمارے ہاں آئے۔ ان کے پاس کشمیر کے متعلق ایک اشتہار تھا جس میں وہاں پاکستانی قبائل کی کارروائیوں کا احوال لکھا تھا۔ وہ سب لوگ دیر تک اس اشتہار کے تعلق سے کانا پھوسی کرتے رہے۔ پھر گاندھی جی کا قتل ہوا۔ ان کی یاد میں عمائدین شہر کا جلسہ ہوا جس میں پڑھنے کے لئے ضلع کے صدر مقام میرٹھ سے لکھی ہوئی تقریر کا مسودہ آیاجو غالباًہندی میں تھا۔ تحصیل دار صاحب کے لئے اسے اردو میں منتقل کیا گیا۔ ہم سب بچّوں نے ہال کے دروازے سے جھانک کر وہ تقریر سنی۔ حیرت ہے کہ اس میں گاڑھی ہندی کا کوئی لفظ نہ تھا۔ یوں وہ سرزمین ایک دور سے نکل کر دوسرے دور میں داخل ہوئی۔ میں وہاں کوئی تین برس گزار کر واپس روڑکی آگیا تو نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ کتنے ہی برگزیدہ لوگ پاکستان جا چکے تھے اور سارا شہر پنجابی شرنارتھیوں سے بھر چکا تھا۔ تمام پرانی اور چلتی چلاتی دکانوں کے آگے یہ نو وارد لوگ اپنی دکانیں لگا کر بیٹھ گئے اور دیکھتے دیکھتے وہ سارے پرانے کاروبار ٹھپ کر دئیے۔ میں دوبارہ اسی گورنمنٹ اسکول میں داخل ہوا تو ساری کلاسیں شرنارتھی لڑکوں سے بھری ہوئی تھیں اور تعلیم کا وہ صاف ستھرا ماحول فنا ہو چکا تھا۔ پڑھائی سے میرا دل اچاٹ ہو گیا۔ یوں بھی مجھے اندازہ تھا کہ ہم سب کو خاموشی سے پاکستان جانا ہے حالانکہ ہم ہرایک سے کہہ رہے تھے کہ ہم لکھنو جانے والے ہیں۔ سنہ پچاس خاتمے کے قریب تھا جب ہمارا سارا گھرانا امرتسر جانے والی ٹرین میں بیٹھا۔ والد صاحب نے پہلی بار گھر کی خواتین کو برقع اتارنے کی ہدایت کی۔ اس وقت تو فضاؤں میں خوف بھر ا تھا۔ پاکستان کی سرحد پر ہندوستان کے کسٹم والے ہمارے سامان کی تلاشی لے رہے تھے۔ ایک بڑے صندوق میں محرم کی عزاداری کے قدیم اور قیمتی علم اور پٹکے بھر ے تھے۔ ایک ہندو افسر وہ صندوق کھولنے چلا ۔ مجھے یاد ہے ، جوں ہی میں نے کہا کہ اس میں ہمارا مذہبی سامان بھرا ہے، افسر نے جھٹ ہاتھ کھینچ لیا اور یوں پیچھے ہٹا جیسے اس سے کوئی قصور ہوا ہی چاہتا تھا۔ مجھے وہ سب یاد ہے۔ اور لاہور کے اسٹیشن پر ریل گاڑی کے وہ سبز ڈبّے بھی یاد ہیں جن پر روپہلے عربی حروف میں لفظ ’ پاکستان ریلوے‘ لکھا تھا، گویا چاندی کے پانی سے۔ اوپر ایک تختی پر گاڑی کا نام تیزگام اور منزل مقصود کانام کراچی لکھا تھا۔ آج تو ان ہی ڈبوں پر بد خط لوگ چاک سے خدا جانے کیسی بھونڈی عبارتیں لکھنے لگے ہیں۔ نہ وہ سیون اپ کی شان رہی ہے نہ وہ ون ڈاؤن کی دھوم۔ سب کچھ جیسے رُل گیا ہے جس کے ساتھ ساتھ وہ چھوٹی چھوٹی حیرتیں اور مسرتیں بھی رخصت ہوئیں ۔ اگلی رات کراچی سٹی اسٹیشن پر اترے تو سامنے جو بجلی کا بلب روشن تھا اس کے اندر فلامنٹ کی جگہ چھوٹا سا چاند تارا جگمگا رہا تھا۔ اپنے وطن میں آکر پہلے پہل آنکھیں یوں منور ہوئیں۔ میرے چھوٹے بہنوئی ہمیں لینے اسٹیشن آئے تھے۔ میں نے ان سے پہلا سوال کیا۔’ دولہا بھائی، سمندر کس طرف ہے‘۔
وقت بڑا ظالم ہے۔ بدلنے میں لمحہ بھر کی دیر نہیں لگاتا۔پھر ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ ایک روز انتخابات ہوئے۔ ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جنا ح کو شکست دی۔ بھاری ٹرک بنانے والے ایک کارخانے کے ملازموں نے جشن منانے کے لئے جلوس نکالا۔یہ جلوس سیدھا لالو کھیت پہنچا جہاں ہر گھر پر فاطمہ جنا ح کا انتخابی نشان یعنی لالٹینیں آویزاں تھیں۔ جلوس نے لفظ مادر ملّت کو دشنام میں بدل کر پھر جو مظالم توڑے، ہمارے ناظم آباد میں لوگوں کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں ، آگ لگی ہوئی تھی اور شور بپا تھا۔ ہم سب سراسیمہ تھے۔ کسی نے کہا کہ ہندوستان سے تو یہاں آگئے، اب یہاں سے کہاں جائیں گے۔ اتنے میں ہماری بے حد ضعیف پھوپی ہمارے چھوٹے بہنوئی سے بولیں’ دولہا میاں۔سمندر کس طرف ہے؟‘۔