شامی خانہ جنگی میں میڈیا کی توجہ کا مرکز اومران

August 24, 2016

دھول، مٹی اور خون سے اَٹے سکتے کی حالت میں ایمبولینس میں بیٹھے 5 سالہ شامی بچے اومران کی تصویر نے عالمی برادری میں گویا ایک ہلچل مچادی ہے۔ دردناک آہ و فغاں کرتی تصویر اور ویڈیوجس میں اومران اپنے ننھے ہاتھوں سے چہرے پر لگا خون صاف کررہا ہے، جس نے بھی دیکھی، بچے کے درد کو محسوس کیا اور خاموشی میں لپٹی اس تصویر نے کچھ کہے بغیر ہی شام میں ہونے والی خانہ جنگی میں عالمی طاقتوں کی بہیمانہ کارروائیوں کو فاش کردیا۔ اومران کو گزشتہ دنوں شام کے شہر حلب کے علاقے الیپو میں روسی طیاروں کی بمباری سے تباہ شدہ مکان کے ملبے سے نکالا گیا تھا جبکہ اومران کا بڑا بھائی 10 سالہ علی روسی حملے میں مارا گیا۔ بمباری سے زخمی ہونے والے بچے اومران کی تصویر سوشل میڈیا پر اس قدر وائرل ہوئی کہ اِس نے ترکی کے ساحل پر مردہ پائے جانے والے شامی بچے ایلان کی یاد تازہ کردی۔ واضح رہے کہ شام کی خانہ جنگی میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقہ الیپو سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جو بشارالاسد کی افواج اور روسی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے جبکہ حکومتی اور روسی افواج کی بمباری میں معصوم بچے بھی بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ 5 سالہ خانہ جنگی کے باوجود شام کی صورتحال روز بروز بگڑتی چلی جارہی ہے اور کوئی فریق بھی جنگ بندی پر تیار نہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم سیرین آبزرویٹری کی رپورٹ کے مطابق شام کی خانہ جنگی میں اب تک 4 لاکھ سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں جن میں 14 ہزار سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔
شامی بچے اومران کی تصویر نے مجھ سمیت دنیا بھر کے کروڑوں افراد کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور جس نے بھی اومران کی تصویر دیکھی اُسے ایسا لگا کہ وہ کوئی غیر نہیں بلکہ ان کا اپنا بچہ ہے۔ بچے کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ ابھی گہری نیند سے اٹھا ہو اور یہ سمجھنے سے قاصر ہو کہ اُس کے ارد گرد کیا ہورہا ہے۔ بچے کے تاثرات سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ جیسے وہ سوچ رہا ہو کہ اُسے کس بات کی سزا دی گئی ہے؟ یہ تصویر اتنی دردناک تھی کہ سی این این کی نیوز اینکر شامی بچے کی خبر نشر کرتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور رونے لگی۔ اسی حوالے سے ایک اور تصویر سوشل میڈیا پر آج کل وائرل ہورہی ہے جس میں شام کی خانہ جنگی اور بحران کی ذمہ داردو عالمی طاقتوں امریکہ اور روس کے سربراہان بارک اوباما اور ولادی میر پیوٹن کے درمیان گرد اور خون میں اَٹے شامی بچے اومران کو دم بخود دکھایا گیا ہے جیسے وہ اُن سے کہہ رہا ہو کہ ’’عالمی طاقتوں کی اس جنگ میں میرا کیا قصور ہے؟‘‘
دہشت گردی یا خانہ جنگی میں مارے یا زخمی ہونے والے بچوں کی ایسی تصاویر اپنے اندر ایک خاص کشش رکھتی ہیں جن میں ہمیں اپنے بچوں کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ تصاویر پیغام دیتی ہیں کہ خانہ جنگی میں بچوں کا کوئی قصور نہیں مگر اُنہیں بھی اس کی قیمت ادا کرنا پڑرہی ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں ترکی کے ساحل پر سرخ شرٹ اور جینز کی نیکر پہنے مردہ حالت میں اوندھے منہ پڑے 3 سالہ شامی بچے ایلان کی تصاویر نے بھی عالمی برادری کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا اور معصوم بچے کی دردناک موت کا غم ہر شخص نے محسوس کیا تھا۔ یہ بچہ اُس ربڑ کی کشتی پر سوار تھا جو ترکی سے یونان جانے کی غیر قانونی کوشش میں راستے میں ڈوب گئی تھی جس کے نتیجے میں ایلان اپنی والدہ اور 5 سالہ بھائی سمیت سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہوگیا تھا۔ واقعہ کے بعد یورپ میں خانہ جنگی کا شکار شامی باشندوں کی امیگریشن میں نرمی دیکھنے میں آئی۔
عالمی تنازعات اور دہشت گردی کےشکار بچوں کی تصویریں کچھ دنوں کیلئے ہمارے ذہنوں پر نقش رہتی ہیں مگر افسوس کہ ہم وقت گزرنے کے ساتھ انہیں فراموش کردیتے ہیں۔ آج یہ کالم تحریر کرتے وقت آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں کے چہرے میرے سامنے آرہے ہیں جنہیں دہشت گردوں نے اپنی بربریت کا نشانہ بنایا تھا۔ شہید اور زخمی ہونے والے بچوں کی تصاویر اور ویڈیوز جب منظر عام پر آئیں تو سوئی ہوئی پاکستانی قوم جو طالبان کے معاملے میں تذبذب کا شکار تھی، اچانک جاگ اٹھی اور دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کیلئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی جس کے بعد شہید بچوں کی قربانیوں کے نتیجے میں دہشت گردوں کے خلاف ’’آپریشن ضرب عضب‘‘ کا آغاز ہوا۔ میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر سانحہ آرمی پبلک اسکول پیش نہ آتا تو ہم آج بھی اچھے اور برے طالبان کی گردان لگارہے ہوتے۔
گوکہ اومران کی تصویر نے دنیا بھر کے لوگوں کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے مگر افسوس کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی بھارتی دہشت گردی جس کا شکار سینکڑوں معصوم کشمیری بچے بھی ہورہے ہیں اور وہ بھارتی فوج کی ظالمانہ کارروائیوں کے نتیجے میں اپنی آنکھوں کی بینائی سے بھی محروم ہوچکے ہیں، پر عالمی برادری خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ بھارتی فوج کی دہشت گردی کا شکار ہونے والے ایسے کئی بچوں کی تصاویر میری نظروں سے گزریں جس میں بچوں کے چہرے اور جسم چھروں سے زخمی ہیں جبکہ کچھ بچوں کی آنکھیں بھی ضائع ہوچکی ہیں۔ (بقیہ اگلے صفحہ پر )
ان تصاویر میں بھی کشمیری بچے عالمی برادری سے سوال کررہے ہیں کہ ’’کیا ان پر ہونے والے ظلم کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہیں؟‘‘ 3 سالہ ایلان اور 5 سالہ اومران کی تصاویر نے شام کی ہولناک خانہ جنگی کو عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے مگر افسوس کہ دنیا کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والی عالمی طاقتوں کے سربراہان جو عالمی امن کے ذمہ دار اور نگہباں ہیں، کے دلوں پر خانہ جنگی اور دہشت گردی کا شکار شامی، کشمیری اور فلسطینی بچوں کی تصاویر بھی اثر نہیں کررہیں۔ یہ عالمی رہنما جو کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ ان کے بچے شامی، کشمیری اور فلسطینی بچوں جیسے حالات سے دوچار ہوں مگر طاقت کے حصول کے کھیل میں وہ اتنے ظالم اور اندھے ہوجاتے ہیں کہ انہیں دوسری قوموں کے بچوں کی تکالیف، دکھ اور مصائب نظر نہیں آتے۔
ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے گزشتہ دنوں روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے ملاقات کی جس کے بعد ایک طرف شام کے معاملے پر روس، ترکی اور ایران اب ایک ہی پیج پر نظر آتے ہیں جن کی بشارالاسد حکومت کو مکمل سپورٹ حاصل ہے تو دوسری طرف امریکہ اور اتحادی ممالک شامی باغیوں کی مدد کررہے ہیں جس سے شام کی خانہ جنگی کے خاتمے کے امکانات معدوم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اومران خوش قسمت ہے کہ وہ بمباری میں بچ گیا مگر اومران کی طرح ایسے کئی شامی، کشمیری اور فلسطینی بچے بھی ہیں جنہیں میڈیا کی توجہ نہیں مل سکی اور وہ اپنی زندگی کے خواب لئے بن کھلے ہی مرجھاگئے۔ اومران شام میں ہونے والی خانہ جنگی میں ایک Symbol کے طور پر ابھرا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا میڈیا کے ذریعے کروڑوں لوگوں کی توجہ کا مرکز بننے والے بچے کی یہ تصویر شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے خاتمے میں کیا کردار ادا کرے گی۔

.