بنانے اور بگاڑنے کا ذمہ دار ایک ہی شخص

August 26, 2016

بلاشبہ متحدہ قومی موومنٹ کو بنانے اور اس کو ایک بڑی سیاسی قوت بنانے کا سارا کریڈٹ الطاف حسین کو جاتا ہے مگرلگتا ہے کہ اب وہی اس کی بربادی کی بنیادی وجہ بن رہے ہیں۔ 80ء کی دہائی میں جب ایم کیو ایم سیاسی منظر نامے پر ایک بڑی پاور بن کر ابھری اس وقت سے لے کر اب تک نہ صرف اس کے ہزاروں کارکن پرتشدد کارروائیوں میں ہلاک ہو چکے ہیں اور بہت سے پابند سلاسل ہیں بلکہ لاکھوں معصوم لوگوں کی جانیں بھی اس خونریزی میں ضائع ہو چکی ہیں۔ گزشتہ تین سال سے اس قتل وغارت میں بڑی حد تک کمی آئی ہے جس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنا ہاتھ متحدہ سے کھینچ لیا اور رینجرز کو فری ہینڈ دیا کہ وہ اس کے عسکری ونگ کو ختم کرے چاہے اس کیلئے جو بھی قانونی طریقہ استعمال کرنا پڑے۔ کراچی کا امن وامان بہتر ہونے پر نہ صرف وہاں کے باسیوں نے سکھ کا سانس لیا ہے بلکہ کاروباری برادری بھی بہت خوش ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ قائد تحریک جو 24سال سے لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور برطانیہ کی شہریت بھی حاصل کر چکے ہیں کو قطعاً پسند نہیں ہے کہ کراچی میں امن و سکون ہو۔ وہ کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کرتے ہیں جس سے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہو جائے۔ تاثر ہے کہ کچھ لوگوںنے انہیں لندن میں گھیر رکھا ہے جو ان سے اپنی مرضی کے مطابق بیانات دلواتےرہتے ہیں حالانکہ ان کی نہ تو ذہنی کیفیت ایسی ہے اور نہ ہی صحت جس میں وہ ایک نارمل انسان کی طرح سیاسی بیانات دے سکیں۔ ان کے ہر غلط بیان کا متحدہ کے سرکردہ رہنما جو پاکستان میں موجود ہیں بھرپور دفاع کرتے رہے ہیں مگر اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور وہ پھٹ پڑے ہیں۔
ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار جن کے نام سے متحدہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے نے یہ بیڑا اٹھایا کہ وہ کھل کر بات کریں اور الطاف حسین سے ایم کیو ایم پاکستان کو دور کریں۔ یہ نوبت اس وقت آئی جب الطاف حسین نے کراچی میں متحدہ کے بھوک ہڑتالی کیمپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے سخت ترین الفاظ میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ اس کے بعد پاکستان میں موجود ایم کیو ایم کے لئے یہ ناممکن ہوگیا کہ وہ کسی طرح بھی ان کے پاکستان پر حملے کا دفاع کریں لہذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے قائد کو ایک طرف رکھیں اور ایم کیو ایم کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر چلائیں۔ تاہم رابطہ کمیٹی لندن نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ معاملات حسب سابق ہی چلیں گے اور فاروق ستار کو اپنے ہر فیصلے کی توثیق الطاف حسین سے ہی کرانا پڑے گی۔ فاروق ستار نے واضح الفاظ میں کہا کہ متحدہ صرف پاکستان میں ہے اور وہی پارٹی کو چلائے گی اور ایم کیو ایم لندن سے نہیں چلائی جاسکتی اور اگر ایسا کیا گیا تو وہ اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ انہوں نے الطاف حسین سے واضح لاتعلقی کا اعلان کرنے سے قبل پارٹی کے تمام وفاقی اور صوبائی ممبران اسمبلی سے مشورہ کیا۔ اب ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان واضح ٹکرائو نظر آرہا ہے اس کی وجہ سے قوی امکان ہے کہ متحدہ تقسیم ہو جائے گی یعنی ایک تو ایم کیو ایم لندن میں ہوگی اور دوسری پاکستان میں۔ چونکہ قائد تحریک متحدہ کو ایک مافیا کے طور پر چلاتے رہے ہیں لہذا قدرتی طور پر بہت سے خدشات نے فوراً جنم لیا کہ فاروق ستار کے کلمہ حق کہنے کے بعد ان کی جان کو سخت خطرات لاحق ہوگئے ہیں لہٰذا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ ان کی سیکورٹی بڑھا دیں۔ ماضی میں کچھ منحرف ہونے والے ایم کیو ایم کے رہنما اور کارکن قتل کئے جاتے رہے ہیں۔ الطاف حسین کےپاکستان مخالف بیانات اپنی جگہ مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہ اب بھی کراچی اور حیدرآباد کے باسیوںکے سب سے مقبول لیڈر ہیں اور ایم کیو ایم انہی کی وجہ سے ہی ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر موجود ہے اور لگاتار انتخابات جیتتی رہی ہے۔
کچھ حضرات کا خیال ہے کہ فاروق ستار نے جو بظاہر الطاف حسین کو ’’ڈچ‘‘ کیا ہے وہ ایک ڈرامہ ہے اور یہ سب کچھ انہوں نے متحدہ کے قائد کے کہنے پر کیا ہے تاکہ وقتی طور پر ان کے خلاف اٹھنے والے طوفان اور جذبات کو ٹھنڈا کیا جاسکے اور جو نقصان ان کے نا سمجھ بیانات سے ہوا ہے اس کو کسی حد تک کم کیا جاسکے۔ اگر اس دلیل کو ایک لمحے کیلئے صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فاروق ستار نے الطاف حسین سے اعلان لاتعلقی کرکے دراصل ایم کیو ایم کو مزید مشکلات اور دکھوں سے بچانے کی کوشش کی ہے کیونکہ الطاف حسین کے تازہ پاکستان مخالف بیان کے بعد اب یہ بات اعلیٰ سرکاری حلقوں میں بڑی شدت سے کی جارہی ہے کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگا دی جائے۔ جب فاروق ستار یہ کہہ رہے تھے کہ ایم کیو ایم ہم ہیں اور ہم ایم کیو ایم ہیں تو وہ دراصل اس بات پر زور دے رہے تھے کہ جو متحدہ پاکستان میں موجود ہے وہ تو یہاں کے قوانین کی پابندی کر رہی ہے اور کرتی رہے گی اور اس کا احتساب اور جوابدہی ایم کیو ایم لندن کے غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز بیانات کی وجہ سے نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ایک ذہین سیاستدان کی نشانی ہے کہ وہ اپنی جماعت کے خلاف اٹھتے ہوئے اتنے بڑے طوفان کو روکنے کی کوشش کررہا ہے جس کا ذمہ دار صرف اور صرف وہی شخص ہے جس نے اس پارٹی کی بنیاد رکھی اور اسے ایک بہت بڑی سیاسی فورس بنایا ہے۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ فاروق ستار یا متحدہ کے دوسرے لیڈر جو کہ پاکستان میں سیاست کر رہے ہیں وہ الطاف حسین کےحالیہ پاکستان مخالف بیان کی کسی طرح بھی حمایت نہیں کرسکتے اور اگر انہوں نے اس کا دفاع کرنے کی کوشش کی تو ان پر بھی غداری کا مقدمہ بنے گا اور ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔ الطاف حسین کی ابتر ذہنی کیفیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے یہ ہرزہ سرائی اس وقت کی جب متحدہ کے کراچی میں بھوک ہڑتالی کیمپ میںوزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر اطلاعات متحدہ کے وفد سے ملاقات کرچکے تھے اور دوسری تمام جماعتوں کے اہم لیڈر دورہ کر کے متحدہ سے یکجہتی کا اظہار بھی کرچکے تھے یعنی ایم کیو ایم کے احتجاج کی پورے پاکستان میں کافی پذیرائی ہو رہی تھی اور ان کا پیغام ہر جگہ پہنچ گیا تھا۔
اس کی وجہ سے جو کچھ بھی اس نے سیاسی طور پر حاصل کیا ان کے قائد نے اسے برباد کر دیا اور متحدہ کو ایک بار پھر کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ وزیر اطلاعات نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ ایم کیو ایم کے ایک وفد جس کی سربراہی فاروق ستار کریں گے کی ملاقات وزیراعظم سے کرائی جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کر کے الطاف حسین نے آخر کیا حاصل کیا سوائے مذمت، سیاسی نقصان ، شرمندگی اور مکمل سیاسی تنہائی کے۔ اس کے علاوہ وہ تمام خواتین و حضرات جنہوں نے پاکستان مخالف نعرے لگائے اور ٹی وی چینلز کے دفاتر پر حملے کئے کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا اور سخت سزا سے گزرنا ہوگا۔


.