تبدیلی آگئی لیکن

October 11, 2014

اسلام آباد کے دھرنوں کا دم خم ٹوٹ چکا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی تقریروں کے جوش و خروش میں بھی خاصی کمی آچکی ہے۔ قربانی سے پہلے جس قربانی کی خبر دی جا رہی تھی ،وہ نہیں ہوسکی، نہ ہی کسی ایمپائر کی انگلی اٹھی۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان جون کے پہلے ہفتے میں لندن میں جو عہدو پیماں ہوئے تھے، ان کی گرم جوشی بھی کم ہورہی ہے۔ عمران خان نے دھرنے کو محض علامتی حیثیت دے دی ہے۔ اب ان کی توجہ جلسوں پر مرکوز ہوچکی ہے۔ کراچی، لاہور اور میانوالی میں کامیاب جلسوں کے بعد ان کا اگلا پڑائو ملتان ہے۔ طاہر القادری اور ان کے رفقاء شدت سے محسوس کرنے لگے ہیں کہ کم و بیش دو ماہ پر محیط لانگ مارچ اور دھرنوں کے ثمرات عمران خان سمیٹ رہے ہیں حالانکہ جدو جہد اور قربانیاں ان کی ہیں۔ ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ حکومت نے خان صاحب کو اپنے حال پرچھوڑ دیا ہے لیکن طاہر القادری صاحب سے اس کی سنجیدہ بات چیت جاری ہے۔ جس کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات کافی زیادہ ہیں۔ تاہم قادری صاحب نے بھی اب جلسوں کی حکمت عملی کا اعلان کردیا ہے۔
دھرنے اپنے بنیادی مقصد، یعنی حکومت گرانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ دھرنوں میں کی جانے والی تقاریر اور جلسوں کی دھوم دھام سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں اسکا اندازہ قائم کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ کیا ان دھرنوں نے واقعی حکومت پر کوئی کاری ضرب لگائی ہے ؟ کیا ان دھرنوں سے مبینہ انتخابی دھاندلی کا کوئی سراغ مل جائے گا؟ کیا ان دھرنوں سے حقیقی طور پر عوامی بیداری کی کوئی لہر اٹھی ہے ؟ کیا ان دھرنوں کے بطن سے دوررس انتخابی اصلاحات کا سورج طلوع ہوگا؟ اور کیا یہ دھرنے عوام کو در پیش بنیادی مسائل کے حل میں کوئی اہم کردار اد اکرسکیں گے؟ ان سارے سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لئے خاصا وقت چاہئے۔ لیکن ایک بات واضح طور پر دکھائی دی جانے لگی ہے کہ ان دھرنوں کے انداز، ان میں کی جانے والی تقاریر کے لب و لہجہ اور صبح و شام بھڑکائی جانے والی اشتعال انگیزی نے ہمارے سیاسی کلچر کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وہ سیاست جو برسوں کے بعد تحمل ، برداشت اور شائستگی کی حدود میں داخل ہو چکی تھی اسے ایک بار پھر الزامات ، نفرتوں اور تصادم کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ سیاسی حریفوں کی پگڑی اچھالنے اور گریبان نوچنے کی روش عام ہوتی جا رہی ہے۔
پیچھے پلٹ کر دیکھیں تو ہماری قومی سیاست تلخیوں سے بھری دکھائی دیتی ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہ تلخیاں عروج پر پہنچی ہوئی تھیں جب لکیر کے ایک طرف بھٹو اور ان کے حامی کھڑے تھے اور دوسری طرف بھٹو مخالف عناصر نے صفیں باندھ رکھی تھیں ۔ تلخیوں کا زہر نچلی عوامی سطح تک پھیل گیاتھا۔ یہی سبب ہے کہ بھٹو مخالف سیاستدانوں نے نہ صرف 1977 کے مارشل لا کوخوش آمدید کہا بلکہ وہ ضیاء حکومت کا حصہ بھی بن گئے۔ اسی نفرت کا یہ انتہائی افسوس ناک مظاہرہ تھا کہ بھٹو جیسے لیڈر کی پھانسی پر ان لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔
نواز شریف بھٹو مخالف قوتوں کے نمائندہ کے طور پر ابھرے جب کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کی سیاسی میراث سنبھالی۔ماضی کی نفرتیں بھی ان دونوں کو میراث میں ملیں۔ 1988کے بعد کے انتخابات اسی ماحول میں ہوئے اوران دونوں رہنمائوں نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کے بجائے غیر جمہوری قوتوں سے ساز باز کر کے اپنی سیاسی کامیابیوں کی راہ نکالی۔ نفرتوں کی اس لمبی تاریخ میں پہلا موڑاسوقت آیا جب نواز شریف نے اپنے دورحکومت میں محترمہ کو امورخارجہ کمیٹی کی چیئر پرسن بننے پر راضی کر لیا۔ ضیاء دور کی آٹھویں ترمیم کے خاتمے کے لئے کی جانے والی تیرھویں ترمیم بھی باہمی مفاہمت کے سلسلے کی ایک اہم کڑی تھی ۔جس کی محترمہ نے بھی کھل کر حمایت کی ۔ چودھویں آئینی ترمیم بھی اتفاق رائے سے ہوئی۔
نفرتوں کی خلیج پاٹنے اور ایک نئے سیاسی کلچر کے متعارف کرانے کے سلسلے میں بڑی پیش رفت اکیسویں صدی کے آغاز میں اس وقت ہوئی جب محترمہ بے نظیربھٹو ، آصف علی زرداری کے ہمراہ نواز شریف سے ملنے جدہ کے سرور پیلس پہنچیں۔ اس ملاقات کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہواجس کی رو ح یہ تھی کہ اب وطن عزیز کو، سیاسی تصادم اور نفرتوں کے بجائے تعاون ، خیر سگالی اور تحمل و برداشت کے ساتھ جمہوریت کو پروان چڑھانے کی راہ اپنانی چاہئے۔ دونوں جماعتوں نے اپنے سینئر رہنمائوں پر مشتمل کمیٹی قائم کردی جس نے ایک نئے سیاسی کلچر پر مبنی اہم دستاویز مرتب کی۔ 14جون 2006 کو نواز شریف اور محترمہ نے لندن میں اس دستاویز پر دستخط کئے۔ یہ دستاویز ’’چارٹر آف ڈیمو کریسی‘‘ یا ’’میثاق جمہوریت ‘‘کے نام سے مشہور ہوئی۔ 2007کی لندن گول میز کانفرنس میں ملک کی ساری قابل ذکر سیاسی جماعتوں نے اس کی توثیق کردی۔ ہم صورتحال کو مثالی تو نہیں قرار دے سکتے ۔لیکن گزشتہ چھ سات برس کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان وہ تلخی دیکھنے میں نہیں آئی جو ماضی کی پوری تاریخ پرچھائی رہی۔ پی پی پی حکومت کے دوران نواز شریف نے جمہوری نظام کے تحفظ کے لئے بھرپور کوششیں کیں ۔ ان پر فرینڈلی اپوزیشن کا الزام بھی لگا لیکن وہ اپنی راہ پر چلتے رہے۔ حکومت نے پہلی بار اپنی آئینی مدت پوری کی اور صدر مملکت کواعزازکیساتھ رخصت کیا گیا۔
اسے یقیناافسوسناک ہی کہنا چاہئے کہ ہماری سیاست ایک بار پھر ماضی کے ناخوشگوار عہد کی تصویر پیش کرنے لگی ہے۔ عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران بھی زبان و بیان کی کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی تاہم دھرنوں کے دوران تو وہ ساری حدیں پھلانگ گئے۔ ستم یہ ہوا کہ پی ۔ ٹی ۔آئی کے جوانوں میں آگ سی بھردی گئی ہے۔ اشتعال انگیز نعرے ، ماردھاڑ، عدم برداشت اور دوسروں کی تضحیک ان کا معمول بنتا جارہا ہے ۔ عید کے دن انہوں نے جاوید ہاشمی کو گھیرے میں لیکر شدید نعرے بازی کی۔ دھرنے میں تقسیم تحائف کے دوران آپس میں بھی دست و گریباں ہوئے ۔ اپنے کسی مخالف کی رائے سننے کا حوصلہ ان میں ناپید ہو چکا ہے۔ بد قسمتی سے یہ منفی رحجان بڑھتا جا رہا ہے اوراگر اس سونامی کے سامنے بند نہ باندھا گیا تو مہذب سیاسی روایات اور شائستگی کی وہ ساری سیاسی پونجی برباد ہو جائے گی جو ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنے والے سیاستدانوں نے بڑی محنت سے جمع کی تھی۔
نوازشریف ـــ"اقدار کی سیاست" اور بینظیر" مفاہمت کی سیاست" تک برسوں کے سفر کے بعد پہنچے تھے۔ کیا دھرنے اس سفر کی محنت کو برباد کردیں گے؟