آرزو

October 24, 2014

جناب فیض احمد فیضؔ نے اِس عنوان سے ایک نظم لکھی تھی ؎
مجھے معجزوں پر یقیں نہیں مگر آرزو ہے کہ جب قضا
مجھے بزمِ دہر سے لے چلے
تو پھر ایک بار یہ اذن دے
کہ لحد سے لوٹ کے آ سکوں
تیرے در پر آ کے صدا کروں
تجھے غمگسار کی ہو طلب تو ترے حضور میں آ رہوں
یہ نہ ہو تو سوئے رہِ عدم میں پھر ایک بار روانہ ہوں
اِس وقت ہم وجود اور عدم وجود کے دوراہے پر کھڑے ہیں اور آرزوؤں کا بازار گرم ہے۔ الفاظ کا غبار کچھ اِس قوت سے اُٹھا ہے کہ بیٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ آوازوں کے اژدہام نے ستم گروں اور غمگساروں کے مابین فرق مٹا ڈالا ہے۔ جواں جذبات بغاوت کی سرحد تک آن پہنچے ہیں۔ اہلِ نظر یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی سے زیادہ پریشانی اِس بات سے لاحق ہے کہ ریاست کا ڈھانچہ شکست و ریخت سے دوچار ہے اور اِس کے ادارے اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ اِس تشویش میں طعن و تشنیع اور مایوسی کے زہر میں بجھے ہوئے تیر مزید اضافہ کر رہے ہیں کہ موجودہ حکمران حالات میں کسی قسم کی بہتری لانے کی صلاحیت اور اخلاقی طاقت سے محروم ہو چکے ہیں، اِس لئے اُنہیںا سٹریٹ پاور کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کرنا ضروری ہو گیا ہے۔اِس بحث میں پڑے بغیر کہ جو اصحاب انقلاب لانے اور چھ ماہ کے اندر عوام کی تقدیر بدل دینے کے ’’مژدے‘‘ سنا رہے ہیں ، اُن کے اپنے دامن میں کیا ہے، اُنہیں حکومت چلانے کا کتنا تجربہ ہے اور اُن کے دائیں بائیں جو افراد ہیں ، اُن کے لچھن کیسے ہیں ، ہمیں اِس بنیادی نکتے پر غور کرنا ہو گا کہ عوام حکومت کی کارکردگی سے حد درجہ مایوس ہیں، کیونکہ اُنہیں زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور حکومت کے فیصلوں میں شرکت سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اُنکی سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ حکومت اُن کے معاملات سے بالکل بے تعلق ہو چلی ہے اور وہ اُن کی عرضداشتوں، شکایتوں، سسکیوں اور نالاہائے نیم شبی کا کوئی جواب ہی نہیں دیتی اور حکومتی مشینری ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ جب عوام اور اہل اختیار کے درمیان اُمید اور اعتماد کا رشتہ ٹوٹ جائے تو ایک بھیانک خلا پیدا ہو جاتا ہے جس میں طرح طرح کی کہانیاں اور داستانیں گردش کرنے لگتی ہیں اور الزامات کے طومار باندھے جاتے ہیں۔ پھر تمثیلی انداز میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بادشاہ سلامت یا تو اونگھتے رہتے ہیں یا لمبی تان کر سو جاتے ہیں اور عام لوگوں کی چیخ پکار جس قدر بلند ہوتی جاتی ہے ، اِسی قدر حاکمانِ وقت خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے لگتے ہیں۔
حکومت پر بعض حلقوں میں صحیح تنقید ہو رہی ہے جس کا مقصد عوام کے مسائل کو اُجاگر کرتے رہنا اور اہلِ اقتدار کو اُن کی ذمے داریاں یاد دلاتے رہنا ہے ، مگر دکھ اِس بات کا ہے کہ محض شوقِ خودنمائی میں عالمی شہرت کے مذہبی اسکالر بھی شام غریباں منانے میں کمال درجے کی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ گمان گزرتا ہے کہ اُن کے اندر ہٹلر کے وزیر اطلاعات کی روح تحلیل ہو گئی ہے جو بار بار جھوٹ اِس اعتماد سے بولتا اور نشر کرتا تھا کہ اِس پر سچ کا یقین ہونے لگتا تھا۔ شیخ الاسلام جناب طاہر القادری نے ایک رات فرمایا کہ اِس حکومت نے ہمارے کارکنوں پر ایسا بہیمانہ ظلم ڈھایا ہے کہ اِس کی مثال پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ اُن کا ارشاد تھا کہ ہمارے ہزاروں کارکن گرفتار کر لئے گئے اور جب ہتھکڑیاں ختم ہو گئیں ، تو اُن کے ہاتھ رسیوں سے باندھے گئے ، اُنہیں سولہ سولہ گھنٹے تھانوں میں رکھا اور گلیوں میں گھسیٹا گیا۔ اِسکے علاوہ مظاہرین کو مسخر کرنے کیلئے پچاس ہزار زہر میں بجھے ہوئے شیل بھارت سے برآمد کیے گئے۔ اب جب دروغ گوئی اِس حد تک پہنچ جائے اور سفید جھوٹ اہلِ طریقت کا شعار بن جائے ، تب فساد معاشرے کی رگ و پے میں اُترنے لگتا ہے اور نام نہاد قیادت مجسم فریب دکھائی دیتی ہے۔ بلاشبہ اربابِ اختیار کا احتساب ازبس ضروری ہے، کیونکہ آمریت اور جمہوریت میں بنیادی فرق ہی یہ ہے ، لیکن احتساب کا یہ کام غیر معمولی ذمے داری اور بالغ نظری کا تقاضا کرتا ہے ، اب اگر آپ ہر ادارے پر بداعتمادی کا اظہار کریں گے ، عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوالات اُٹھائینگے ، پارلیمنٹ کو بھی مسمار کر دینا چاہیں گے اور سیاست دانوں پر گھٹیا زبان میں پھبتیاں کسیں گے اور اپنی جماعت میں ایسے افراد کو آگے لائیں گے جو اپنے سروں پر دولت کے پہاڑ اُٹھائے پھرتے ہیں ، تو بامعنی تبدیلی محض ایک خواب ہی رہے گی۔حالات میں غیر معمولی ہلچل اور بے یقینی اور مایوسی کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کی آہ وبکا کا مداوا کر سکتی ہیں اور وہ لوگوں کی اُمنگوں کا ایک ہم آہنگ جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں ، تاہم بنیادی اور مرکزی کردار وزیراعظم نوازشریف کو ادا کرنا اور اپنے وطنوں کو ہر لحظہ یہ احساس دلانا ہو گا کہ اُن کی حکومت پوری طرح مستعد اور ذمے دار ہے۔ مختلف وجوہ سے اُن کا عوام کیساتھ رشتہ جو کمزور پڑ گیا ہے، اُسے مستحکم کرنے کیلئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ مثال کے طور پر وہ شکوک و شبہات اور باغیانہ رجحانات سے معمور فضا میں بہتری لانے کیلئے قوم سے ہفت وار خطاب کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ عوام کو وقفے وقفے سے اعتماد میں لینے سے قیادت کا ویژن واضح ہو جائے گا اور اِن اقدامات کا اعلان کیا جا سکے گا جو عوام اور حکومت کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتے ہیں۔ آج زیادہ تر ہاہاکار بجلی کے ہوشربا بلوں کی وجہ سے مچی ہوئی ہے ، چنانچہ اِس وقت حکومت کی اوّلین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہر قیمت پر کم آمدنی والے صارفین کو زیادہ سے زیادہ ریلیف پہنچایا جائے اور بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں سے صارفین کو بیس ارب واپس دلوائے جائیں۔
عام آدمی کے اندر بغاوت کا جو لاوا کھول رہا ہے ، اِس کا دوسرا سب سے بڑا محرک وی آئی پی کلچر کی نمائش ہے۔ سینکڑوں ایکڑ پر پھیلے ہوئے محلات اور فارم ہاؤسز ، یہ بلٹ پروف گاڑیاں، پروٹوکول کے لمبے لمبے قافلے، انسانوں کو روندتے ہوئے دیوہیکل گارڈز ، امیروں کیلئے کشادہ بستیاں ، الگ تعلیمی ادارے اور الگ ہسپتال ، قدم قدم پر امارت کے مظاہروں نے ذہنوں میں ایک طوفان بپا کر رکھا ہے۔ مغربی ملکوں میں اکثر وزراء پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے اور عوام کے درمیان رہتے ہیں۔ اُن کے دفاتر کے دروازے عام شہریوں کے لئے کھلے ہیں۔ سائل کو خط کا جواب بالعموم ایک ہفتے عشرے میں مل جاتا ہے۔ اسلام نے جس سماجی مساوات کا درس دیا ہے ، وہ مغربی معاشرے میں ہرسُو نظر آتی ہے ، تو ہم وی آئی پی کلچر سے کیوں نجات نہیں پا سکتے ، حسُنِ انتظام ، میٹھے بول اور عمدہ کارکردگی سے وسائل خرچ کیے بغیر عوام کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ اِسی طرح مجسٹریسی کا نظام بحال کر کے اشیائے صرف کی قیمتیں عام شہری کی پہنچ میں لائی جا سکتی ہیں۔ مارکیٹوں کا نظام بہتر کر کے پھل اور سبزیوں کا معیار بلند اور قیمتیں ارزاں کی جا سکتی ہیں۔ اِس وقت سب سے زیادہ ضروری نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا اور اُنہیں اُمید کی روشنی سے فیض یاب کرنا ہے۔ اِس مقصد کے لئے جواں ہمت افراد کی سربراہی میں وفاق اور صوبوں میں نوجوانوں کے امور کی وزارتیں قائم کی جائیں اور وسیع پیمانے پر تعلیم بالغاں کے مراکز قائم کر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے روزگار فراہم کیا جائے جسے آپ سپاہِ دانش کا نام دے سکتے ہیں۔ اِس طرح ایک دو سال میں زبردست تعلیمی انقلاب آ سکتا ہے اور سرکاری اسکولوں اور کالجوں پر پوری توجہ دے کر اُنہیں پرائیویٹ اداروں کا ہم پلہ بنایا جا سکتا ہے۔ عوام کے اندر قومی جذبے کو فروغ دینے کے لئے اُردو زبان کو ہر سطح پر فعال بنانا ہو گا اور مقابلے کے امتحانات میں اِسے بھی رائج کرنا ہو گا ، کیونکہ وہ عوام کی زبان ہے اور وہ اِس زبان میں اپنی صلاحیتوں کا بہتر انداز میں اظہار کر سکتے ہیں۔ اصل انقلاب یہی ہے اور یہی ہر غمگسار کی آرزو ہے۔ اِس کے لئے سیاسی، انتظامی اور وی آئی پی مائنڈ سیٹ کی اوورہالنگ ضروری ہے۔