پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری یا قرضے

November 10, 2014

چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی آبادی ایک ارب 30کروڑ ہے۔ چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے جس کی جی ڈی پی 10.3 کھرب ڈالر ہے جس میں سروس سیکٹر کا حصہ 46%، صنعتی سیکٹر کا 44% اور زرعی سیکٹر کا حصہ 10% ہے۔ چین کی فی کس آمدنی 6,959ڈالر ہے۔ WTOکے مطابق چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے جس کی 2013ء میں ایکسپورٹ 2.2 کھرب ڈالر تک پہنچ چکی ہے جس میں ہانگ کانگ کا حصہ 17.4%اور امریکہ کا 16.7% ہے جبکہ چین کی امپورٹ 1.9 کھرب ڈالر ہے۔ 1997ء سے 2013ء تک چین کی 9%اوسطاً جی ڈی پی گروتھ کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا خیال ہے کہ 2025ء تک چین، امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ چین کے ڈینگ ژیوپنگ نے 30 سال قبل ملک میں ریفارمز کا سفر شروع کیا تھا اور چین کے عظیم رہنما مائوزے تنگ اور چواین لائی نے ’’ماڈرن چین‘‘ کی بنیاد رکھی۔ گزشتہ سال دنیا کی بڑی معیشتوں میں امریکہ، جاپان، چین، جرمنی، فرانس اور برطانیہ شامل تھے جبکہ 2020ء میں دنیا کی 7 بڑی معیشتوں میں سرفہرست چین، امریکہ، بھارت، جاپان، برازیل، جرمنی اور روس کی پیش گوئی کی گئی ہیں لیکن معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ 1979ء کی چین کی ’’ایک بچہ فی فیملی‘‘ کی پالیسی کی وجہ سے چین میں کام کرنے والے لوگوں کی شرح میں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور چین میں مزدوروں کی اجرتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس سے اس کی پیداواری لاگت بڑھ رہی ہے جو مستقبل میں چین کی گروتھ میں رکاوٹ ثابت ہوگی۔ چین جس کے پاس اس وقت 4 کھرب ڈالر سے زائد کے زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں، ملک میں پیداواری لاگت بڑھنے کے باعث چین پاکستان اور بھارت سمیت ایسے اسٹریٹجک محل وقوع رکھنے والے ممالک جہاں مزدوروں کی اجرتیں کم ہیں، میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔ ہمارے خطے میں چین کی سرمایہ کاری کو دیکھتے ہوئے یہ بات خوش آئند ہے کہ چین کی بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں سرمایہ کاری 7 گنا زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور چین نے باہمی تجارت بڑھانے کے لئے 2008ء میں آزاد تجارتی معاہدہ (FTA) سائن کیا تھا اور آج پاک چین باہمی تجارت 12 ارب ڈالر ہے جبکہ بھارت اور چین کی تجارت 66 ارب ڈالر ہے۔ اس وقت پاکستان میں 130 چینی کمپنیاں اور تقریباً 14000 چینی ماہرین اور ورکر کام کررہے ہیں۔ دفاعی شعبے میں الخالد ٹینک، JF-17 تھنڈر جنگی طیارے، میزائل، ایٹمی تعاون (چشمہI اور II) پاک چین دوستی کا مظہر ہے۔ حال ہی میں چائنا موبائل (زونگ) نے پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے اور 3G اور 4G کا لائسنس حاصل کیا ہے۔ چین گوادر پورٹ میں اب تک 200 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے اور گوادر پورٹ کی تجارتی راہداری سے پاکستان، ایران، چین اور وسط ایشیائی ریاستوں میں خوشحالی آئے گی۔
وزیراعظم پاکستان نے حال ہی میں ایپک کے اجلاس میں شرکت کے لئے چین کا دورہ کیا جہاں انہوں نے چینی صدر اور وزیراعظم سے ملاقاتیں کیں۔ وزیراعظم کے دورے کے موقع پر دونوں ممالک نے 45 ارب ڈالر کے 19 معاہدے کئے جن میں سے توانائی کے منصوبوں پر 34 ارب ڈالر اور بنیادی انفرااسٹرکچر کی ترقی پر11 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ ان معاہدوں میں پاک چین اقتصادی راہداری، معاشی و فنی تعاون، رعایتی قرضوں کی فراہمی، ایٹمی ری ایکٹروں اور بجلی گھروں کی تعمیر، شمسی توانائی، گوادر پورٹ، کوئلے کی کان کنی اور دیگر شعبوں سے متعلق معاہدے اور مفاہمتی یادداشتیں شامل ہیں جبکہ بہاولپورمیں قائداعظم سولرپارک میں شمسی توانائی پیداکرنے، ساہیوال میں کوئلے سے 1320 میگاواٹ بجلی اور جھمپیر میں ہوا سے100 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے معاہدے بھی شامل ہیں۔ چین نے پاکستان میں کوئلے، شمسی اور ہائیڈرو سے 10,400 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے 14 مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لئے ایگزم بینک سمیت 3 بڑے چینی بینکوں کو نامزد کیا ہے جو پاکستان میں انرجی، ریلوے اور ٹرانسپورٹ سیکٹرز میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کو قرضے فراہم کریں گے۔ اس کے علاوہ اقتصادی اور فنی تعاون کے معاہدے پر بھی دستخط کئے گئے ہیں جن میں رانی کوٹ سے اسلام آباد تک 440کلومیٹر طویل قراقرم ہائی وے II کی تعمیر، کراچی لاہور موٹر وے، حویلیاں ڈرائی پورٹ، کراس بارڈر آپٹیکل فائبر کیبل سمیت دیگر معاہدے شامل ہیں۔ دونوں ممالک میں تھر بلاک 2 سے 65لاکھ میٹرک ٹن کوئلہ نکالنے کا معاہدہ بھی کیا گیا ہے۔
پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے ٹی وی اور اخبارات میں یہ بیانات سامنے آئے ہیں کہ چین سرمایہ کاری کے نام پر پاکستان کو اونچی شرح سود پر قرضے دے رہا ہے لیکن میں یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ چین کی یہ پالیسی نہیں ہے کہ وہ ممالک کو قرضے دے بلکہ چین منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پاک چین معاشی راہداری کے منصوبوں میں چینی کمپنیاں جن میں کچھ چین کی سرکاری کمپنیاں بھی شامل ہیں، پاکستان میں ان منافع بخش منصوبوں میں BOT کے تحت سرمایہ کاری کریں گی جنہیں چینی بینک قرضے فراہم کریں گے اور حکومت پاکستان نے ان کمپنیوں کو صرف منافع کی گارنٹی دی ہے۔ مثال کے طور پر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کو یہ گارنٹی دی گئی ہے کہ ان کی پیدا کی گئی بجلی حکومت ایسے نرخوں پر خریدے گی جس سے ان کی ایکویٹی سرمایہ کاری پر انہیں 27% منافع دیا جائے گا جو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں کوئلے سے پیدا کی گئی سستی بجلی فرنس آئل سے پیدا کی گئی بجلی کے موجودہ نرخوں سے آدھی قیمت پر ملے گی۔ پاکستان میں توانائی کے شعبے میں چینی سرمایہ کاری سے ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پایا جاسکے گا اور مطلوبہ بجلی ملنے سے ملک میں نئی صنعتیں لگیں گی جس سے لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار ملے گا جو موجودہ توانائی کے بحران کے باعث جمود کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ ملکی ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوگا اور اضافی ریونیو کی وصولی کی وجہ سے ملکی معیشت بہتری اور غربت میں کمی آئے گی۔
ملک میں سیاسی بے یقینی کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہونے کے باعث 34 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری کے منصوبوں کے التواء پر مختلف قیاس آرائیاں میڈیا میں آئی تھیں کہ پاکستان چینی سرمایہ کاری سے محروم ہوگیا ہے کیونکہ چینی صدر نے اتنی ہی سرمایہ کاری کے معاہدے بھارت میں کرلئے ہیں۔ اس موضوع پر میری کراچی میں متعین میرے دوست چین کے قونصل جنرل مایوسے گفتگو ہوئی تھی جس میں انہوں نے مجھے اس وقت بتادیا تھا کہ چین نے پاکستان سے گزشتہ کئی سالوں کے مذاکرات کے بعد مشترکہ مفادات کے ان منصوبوں میں سرمایہ کاری پر رضامندی ظاہر کی ہے جن پر جلد ہی وزیراعظم پاکستان کے دورہ چین کے موقع پر دستخط کئے جائیں گے۔ میرے خیال میں اگر ان منصوبوں پر چینی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر دستخط کئے جاتے تو اس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو زیادہ مثبت پیغام ملتا لیکن افسوس کہ ہمارے اپنے لوگوں نے ملک میں دھرنوں سے سیاسی بے یقینی پیدا کرکے چینی صدر کا دورہ پاکستان منسوخ کروادیا۔ چین کی بیرون ملک سرمایہ کاری کی پالیسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس وقت دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک چین کو انتہائی پرکشش مراعات پر سرمایہ کاری کی دعوت دے رہے ہیں لیکن چین پاکستان کو خطے میں معاشی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتا ہے، اس لئے وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہا ہے لہٰذا ہمیں اس سنہری موقع کو ہرگز ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ چینی کمپنیوں نے حکومت پاکستان سے درخواست کی ہے کہ انہیں پاکستان میں ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لئے پیپرا قوانین سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ میری وزیراعظم سے درخواست ہے کہ وہ ان منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لئے اس ابہام کو جلد از جلد دور کریں تاکہ چینی کمپنیاں ان منصوبوں پر بلاتاخیر عملدرآمد کرسکیں۔ آنے والی صدی ایشیاء کی ہے جس میں چین معاشی طور پر طاقتور ملک کی حیثیت سے اہم کردار ادا کرے گا اور ہم دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت سے تاریخی دوستی کے ثمرات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں صنعتی انقلاب لاسکتے ہیں۔