دوسری شادی کا مسئلہ

November 14, 2014

ملک میں عائلی قوانین 1961کے ہونے کے باوجود ہماری شریعت کونسل انگریز کے بنائے ہوئے قانون 1939 کا حوالہ دینے اور اس میں ترمیم کرنے پر اصرار کر رہی ہے جبکہ مسلم عائلی قوانین میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ پہلی اور موجودہ بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی مرد اس لئے نہیں کر سکتا کہ بیوی اس کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو سزا کا مستحق ہو گا جبکہ شریعت کونسل نے یہ اجازت دینے کیلئے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری بیوی کرنے پہ کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں بہت کم اور بہت دوردراز علاقوں میں تو عائلی قوانین پر عمل درآمد کیا ہی نہیں جاتا۔کم عمری کی شادی کی رسوم کو نہ صرف قبول کیا جاتا ہے بلکہ ان پر اعتراض بھی نہیں کیا جاتا۔ جب سے سندھ کی اسمبلی نے شادی کیلئے لڑکی کی عمر 18؍سال کا قانون پاس کیا ہے، سندھ ہی میں 5-6 سال کی بچیوں کی شادی پہ پولیس چھاپے مار رہی ہے ورنہ پہلے تو سب کچھ روا تھا۔ وہ تو ونی اور سوارا پہ ثمرمن اللہ نے جب فلمیں بنائیں اور ملک میں شعور پھیلانا شروع کیا تو لوگوں نے اس طرف بھی دھیان دیا، اس طرح بھی کہیں کہیں ہوتا ہے۔بہت سے لوگوں کو یاد بھی نہ ہو گا کہ مسلم عائلی قوانین کیسے بنے اور کیسے پاس ہوئے؟ 1960 میں پورا مغربی پاکستان ون یونٹ کہلاتا تھا۔ امریکہ سے تشریف لائے ہوئے ہمارے وزیراعظم محمد علی بوگرا نے وزیراعظم بنتے ہی شادی کر لی۔ اس زمانے میں عورتوں کی ایک ہی انجمن ہوتی تھی جس کا نام اپوا تھا۔ ان خواتین نے نہ صرف ہنگامہ کھڑا کیا بلکہ اعلان بھی کیا اور تو اور چل بھی پڑیں پیدل احتجاج کرتی ہوئیں کہ اس طرح مردوں کو بلا کسی قانون کے دوسری شادی کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ پہلے سے جسٹس عبدالرشید کی رپورٹ میں عائلی قوانین کا مسودہ موجود تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی مرد کو بلااجازت دوسری شادی کی اجازت نہ ہو گی۔ عورتوں کے احتجاج کے باعث حکومت نے اس ایکٹ پر فوراً عمل درآمد شروع کر دیا۔مذہبی جماعتوں نےمخالفت کی مگر حکومت کو سارے ملک کی خواتین کا تعاون حاصل تھا۔ اس قانون پر عمل درآمد اس طرح ہوا کہ چونکہ بلدیاتی نظام تھا فوراً چیئرمین یونین کونسل اور یونین کمیٹی کو اپنے علاقے کے مطابق کام سونپ دیا گیا۔ یہ بھی طے ہوا کہ عائلی عدالتیں بھی قائم ہوں گی جو بچوں کی کفالت، مہر اور جہیز وغیرہ کے معاملات طے کریں گی۔ یہ بھی طے ہوا کہ ایسی عدالتیں حد چھ ماہ میں فیصلہ کر دیا کریں گی۔ جب ضیاء الحق کا زمانہ آیا تو انہوں نے اسلامی شریعت کونسل مستحکم کرنے کیلئے فیڈرل شریعت کورٹ قائم کر دی جہاں خواتین سے متعلق معاملات پر توجہ کم ہی دی جا رہی ہے۔میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ہمیں دوسری شادی کے علاوہ اور کوئی مسئلہ پاکستان میں دکھائی نہیں دیتا ہے کہ مرد کی دوسری شادی کیلئے بار بار مسئلہ اٹھا لیا جاتا ہے، عورت بھی تو وجود رکھتی ہے، وہ کوئی بھیڑ، بکری نہیں ہے کہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں ہانک دی جائے۔ میں جب کبھی بنگلہ دیش گئی ہوں وہاں مسلم عائلی قوانین اپنی اصل شکل میں موجود ہیں اور ان پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ ہندوستان جائو تو وہ مبارک باد دیتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں عائلی قوانین ہیں۔ ہندوستان میں شہر بانو کیس کے باعث مسلم پرسنل لا کے تحت کچھ اقدامات کئے جانے لگے ہیں۔ ہندو لا میں اب بھی یہ ترمیم نہیں آئی کہ وہ طلاق دے سکتے ہیں یا دوسری شادی کر سکتے ہیں۔ ویسے ہو سب کچھ رہا ہے مگر اسکی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔ یہ سارے کام کورٹ میں جا کے طے کر لئے جاتے ہیں۔مجھے تو بہ صد ادب یہ پوچھنا ہے کہ بچوں کے اغواء، تعلیم دینے سے گریز کرنے، غیرت کے نام پہ بچیوں کو قتل کرنے، تیزاب پھینکنے اور گلا گھونٹ کر مار دینے کی اتنی قبیح رسوم جاری ہیں، کیا یہ سب کسی کے سامنے نہیں آتیں، ان کے خلاف قوانین پاس کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی؟ روز کے روز لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہوتے ہیں، کیا یہ طریقہ کسی بھی مذہب میں جائز ہے؟ علاوہ ازیں بچوں کی اسمگلنگ، منشیات کی اسمگلنگ اور عورتوں کی تجارت جیسے گھنائونے طریقے، کیا ہمیں ان گھنائونے جرائم کی آگہی نہیں ہے؟ کیا وجہ ہے ہیر پھیر کر مرد کی دوسری شادی کے لئے اجازت کا مسئلہ ہر دفعہ سفارشات کا حصہ ہوتا ہے؟ رہا نابالغ بچی کے نکاح کا مسئلہ…یہ بھی مخدوش بات ہے۔ کیا خبر لڑکا جوان ہونے کے بعد بری عادات کا اسیر ہو چکا ہو؟ وہ جسے ٹھیکرے کی منگ کہا جاتا تھا۔ اس کو تو ڈپٹی نذیر احمد اور راشدالخیری نے اپنے زمانے میں ہی غلط کہہ دیا تھا۔ اب تو کمپیوٹر اور فیس بک کا زمانہ ہے۔ جب تک فیس بک نہیں تھی صرف نیٹ کے ذریعے بڑی غلط شادیاں ہوتی رہی ہیں، ہوتی آئی ہیں کہ ہر شخص خود کو اچھا کہتا ہے۔ فیس بک کے ذریعہ بھی کوئی صائب باتیں نہیں ہو رہیں ۔ پہلے تو لڑکے، لڑکیوں کی مشترکہ تعلیم کو بے راہ روی کے مماثل سمجھا جاتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ لڑکا دبئی میں ہے اور لڑکی لاہور میں تو فون پر نکاح پڑھنے کو درست سمجھا جانے لگا۔ ایسی بدعتیں بڑھیں تو دوسرے ممالک میں نکاح نامہ باقاعدہ طور پر مانگنا شروع کر دیا۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ دو، چار، دس برس مغرب کی خاتون کے ساتھ گزار کر، گرین کارڈ لے کر پھر الگ ہو کر پاکستانی لڑکی سے شادی میں ہی عافیت سمجھی۔ آخر ان حرکات کی جانب کیوں نگاہ نہیں کی جاتی ؟ مغرب میں زبردستی کی شادی کے خلاف مہم چل رہی ہے، آخر ہم اس پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟ میری ان گستاخیوں کو معاف کریں مگر جواب تو دیں کہ کیا یہ مسائل نہیں ہیں؟