خوش نظر مناظر اور خنجر بدست یادیں

December 05, 2014

زندگی جس میں خوشی بھی ہے اور غم بھی ، اپنے ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے۔ اِسی طرح پاکستان بھی بیک وقت اچھے مناظر اور پُرخطر یادوں کا مجموعہ ہے۔ میں دو دن پہلے ایشین پارلیمنٹ اسمبلی کے ڈنر میں گیا ، تو دل باغ باغ ہو گیا۔ 25ایشیائی ممالک کے 160مندوبین آئے ہوئے تھے جنہوں نے 23نکاتی اعلامیہ جاری کیا جس نے ایشیا کی قوت اور پاکستان کی عزت و احترام اور اعزاز میں زبردست اضافہ کر دیا ہے۔ ایشیائی پارلیمانی اسمبلی قائم کرنے کا باقاعدہ اعلان 3دسمبر 2004ء کو اسلام آباد میں 26ممالک کے دستخطوں سے ہوا تھا۔ پاکستان کی طرف سے سینیٹر مشاہد حسین سید نے دستخط کیے اور وہ اِس تصور کے روحِ رواں تھے کہ یورپین پارلیمنٹ کی طرح ایشیا کی بھی ایک پارلیمانی اسمبلی ہونی چاہئے ، کیونکہ رواں صدی ایشیا کی ہے اور اِس براعظم کے اندر واقع 42ملکوں کے درمیان گہرے اور پائیدار ثقافتی ، اقتصادی اور سلامتی کے رشتے ضروری ہیں۔ اُن کی شبانہ روز کوششیں بارآور ہو رہی ہیں اور لاہور میں اِس بین الاقوامی اجتماع نے یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان ایک پُرامن ملک ہے اور زیادہ تر ایشیائی ممالک اور اقوام کو اِس پر پورا پورا اعتماد ہے۔ڈنر میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین موجود تھے اور غیر ملکی مندوبین غیر معمولی خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔اُن سے ظہرانے پر خطاب کرتے ہوئے صدر جناب ممنون حسین نے اِس امر پر خاص طور پر زور دیا کہ غربت ، بے روزگاری ، دہشت گردی اور کرپشن سے نمٹنے اور زبردست اقتصادی ترقی کے لئے ایشیائی ممالک میں تعاون ناگزیر ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین سید نیر حسین بخاری ایشیائی پارلیمانی کانفرنس کے چیئرمین تھے۔ اِس بین الاقوامی کانفرنس میں جناب مشاہد حسین سیّد کی صلاحیتیں جوبن پر تھیں اور اُن کی خوش مزاجی نے ماحول کو بے تکلف اور خوشگوار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک ایسے وقت جب پاکستان طرح طرح کے بحرانوں میں گھِرا ہوا ہے ، اِس کا قائدانہ کردار ایک نئی رفعت کے ساتھ سامنے آ رہا ہے اور بھارت کو یہ احساس دلایا گیا کہ اُسے اپنی غیرمتوازن پالیسی اور ہٹ دھرمی پر نظرثانی کرنا پڑے گی کہ چین اور جاپان ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کے قیام اور مذاکرات کے ذریعے تنازعات حل کرنے میں بڑی دلچسپی لے رہے ہیں اور 3دسمبر کے اعلانِ اسلام آباد نے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی پُرزور تائید کی ہے۔
اِسی ہفتے وزیراعظم نے حویلیاں میں ہزارہ موٹروے کا افتتاح کیا۔ اِس موقع پر عوام کا ایک جمِ غفیر دکھائی دیا جو ایک بہت بڑے ترقیاتی منصوبے کے شروع ہونے پر بہت خوش بھی تھا اور حددرجہ پُرجوش بھی۔ اِس موٹروے کی تعمیر سے فاصلے سمٹ جائیں گے اور عام لوگوں کے لئے روزگار کے بڑے مواقع پیدا ہوں گے۔ علاقے میں کارخانے بھی لگیں گے اور چین کے ساتھ ایک مواصلاتی کاریڈاربھی قائم ہو گا۔ وہ اصحاب جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ شاہراہوں کی تعمیر سے غربت ختم ہو گی نہ توانائی کا بحران، اُنہیں اِس حقیقت کا ادراک حاصل کرنا ہو گا کہ ہٹلر نے پورے ملک میں آٹوبان کا جال بچھا کر جرمنی کو ایک زبردست اقتصادی طاقت بنا دیا تھا اور آج بھی وہ ملک پورے یورپ میں اقتصادی طور پر سب سے زیادہ مستحکم ہے۔ ہمیں یہ خوش نظر منظر بھی دیکھنے کو ملا کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً بیس روپے کی کمی کر دی ہے جس کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ کے کرائے اور اشیائے صرف کی قیمتیں کم ہونے لگی ہیں ، مگر اِس تخفیف کے پورے اثرات عام آدمی تک پہنچانے کے لئے صوبائی حکومتوں کو اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
کراچی میں آئیڈیاز 2014ء کی نمائش نے پاکستان کی دفاعی طاقت میں غیر معمولی اضافے کا انکشاف کیا ہے۔ پاکستان چین کے تعاون سے بوئنگ اور جنگی طیارے بنا رہا ہے جو قیمت میں مغربی ممالک سے بہت سستے اور صلاحیت کے اعتبار سے نہایت معیاری ہیں۔ اُن کی خریداری میں مشرقِ اوسط اور افریقی ممالک غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان نے اپنی ڈرون ٹیکنالوجی بھی تیار کر لی ہے اور ایک ایسی بندوق ایجاد کی ہے جو چھپے ہوئے دہشت گرد کو تلاش کر کے اُسے نشانہ بنا سکتی ہے۔ اب دنیا کے بیشتر ممالک دہشت گردی کی زد میں ہیں ، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ ، سارک اور افریقی ممالک اِس عذاب سے دوچار ہیں۔ وہ پاکستان کی اِس ایجاد کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں جو دہشت زدہ خطے کے لئے ایک بہت بڑی نعمت سے کسی طرح کم نہیں، اِسی لئے اُن کی دلچسپی آئیڈیاز 2014ء کی نمائش میں بڑھتی جا رہی ہے ، چنانچہ پاکستان کی خوداعتمادی اور وقار میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ اب اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کر کے انسانیت کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے میں اہم خدمات بجا لا سکتا ہے۔ اِس طرح اُس کی معیشت کو بھی بہت سہارا ملے گا۔ ہمیں واہ فیکٹری کے چیئرمین اور اُن کی ٹیم کو بھی خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے جنہوں نے ایک بڑی کارآمد بندوق ایجاد کی ہے۔
انہی دنوں یہ اچھی خبر بھی آئی کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دورۂ امریکہ بہت کامیاب رہا اور امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نیا باب شروع ہو رہا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ امریکی سیاسی اور عسکری قیادت نے ہماری فوج کے سربراہ کو بہت اعلیٰ ایوارڈ سے نوازنے کے علاوہ اُنہیں حساس معاملات پر اعتماد میں لیا ہے اور پاکستان کی اہمیت کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے۔امریکی اعلیٰ حکام ہمارے جرنیل صاحب کی عسکری کارکردگی اور پیشہ ورانہ مہارت سے اِس قدر متاثر ہوئے کہ اُنہوں نے یہ بھی کہہ ڈالا کہ پاکستان کی فوج پاکستان کے لئے ’’بائنڈنگ فورس‘‘ ہے اور ہم اِس پر اعتماد کرتے ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری کی جنرل راحیل سے طویل ملاقات آنے والے خوشگوار حالات کی نشان دہی کرتی ہے۔ہم ابھی اِن سرورآگیں مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ یکایک سینے میں ایک تیر پیوست ہو گیا۔ عمران خان کا ’’سی پلان‘‘ اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ سامنے آ گیا تھا جس کے مطابق وہ 16دسمبر کو پورا پاکستان بند کر دینا چاہتے تھے۔ ایک چیخ نکلی کہ یہ تو وہی 16دسمبر ہے جب پاکستان کا ایک بازو کٹ گیا تھا اور پاکستانی فوج نے بھارتی جرنیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ بعد ازاں جناب شاہ محمود قریشی نے 16دسمبر کا اعلان واپس لے لیا ، مگر تاریخ کا زخم تو ہرا ہو چکا تھا اور پوری قوم سکتے میں آ گئی تھی۔ چوٹ بڑی گہری تھی اور درد ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ دل کو بہت سمجھایا اور اُسے کچھ بھی قرار آیا ، تو ایک خنجر بدست یاد نے پورے وجود کو ہلا کے رکھ دیا۔ یہ روح فرسا یاد 6دسمبرسے وابستہ تھی جب ایک ڈیڑھ لاکھ خونخوار ہندو رضا کاروں نے سولہویں صدی میں تعمیر ہونے والی بابری مسجدشہید کر دی تھی اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہی تھی۔
وہ ایک نہایت منحوس اور دلوں کو گرما دینے والا دن تھا۔ 6دسمبر 1992ء۔ آر ایس ایس کے مشتعل رضاکاروں نے ایودھیا کی طرف مارچ شروع کیا۔ اُنہیں بی جے پی اور وی ایچ پی کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ریلی کا اعلان پہلے کیا جاچکا تھا اور پولیس نے مسجد کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ پُرجوش مظاہرین نعرے لگا رہے تھے کہ یہ ہمارے اوتار رام چند کی جنم بھومی ہے جہاں اُس کا ایک بت نصب تھا اور مسلمانوں نے اُسے منہدم کر کے مسجد بنا لی تھی۔ اِس لئے ہم اپنے اوتار کی جنم بھومی واگزار کرانا چاہتے ہیں۔ رضاکار کلہاڑیوں ، ہتھوڑوں اور دوسرے آلات سے لیس تھے۔ اُنہوں نے مسجد پر ہلّہ بول دیا اور چند گھنٹوں کے اندر اُسے زمیں بوس کر دیا۔ اِس مہم میں واجپائی ، ایڈوانی اور جوشی پیش پیش تھے۔ یوپی کے وزیراعلیٰ ہر طرح کی امداد فراہم کر رہے تھے۔ بابری مسجد کے شہید ہونے کے بعد مختلف شہروں میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے جو ممبئی ، سورت ، احمد آباد اور دہلی تک پھیل گئے۔ اُن میں دو ہزار مسلمان شہید ہوئے اور تین ارب ڈالر کی پراپرٹی کو شدید نقصان پہنچا۔ فسادات کا یہ سلسلہ دو عشروں تک چلتا رہا۔ اِس میں گجرات کے اندر مسلمانوں کا قتلِ عام بھی شامل ہے۔ اُس وقت نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ اُن سے کسی صحافی نے پوچھا کیا آپ کو مسلمانوں کے قتل پر افسوس ہوا۔ اِس انتہائی تنگ دل شخص نے جواب دیا تھا کہ اگر آپ کی گاڑی کے نیچے کتا مر جائے ، تو افسوس تو ہوتا ہے۔ اب وہ صاحب بھارت کے وزیراعظم ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اِس بار سومنات کی آزمائش ہے۔