عمران خاں بہنوں کو منالاتا

January 13, 2015

ہائی فائی ایلیٹ کلاس کے علاوہ مڈل اور لوئرمڈل کلاس میں بھی کپتان اور اس کی تحریک ِ انصاف خاصا اثرورسوخ رکھتی ہے۔ کہا جاتا ہے، اپنی معاشرتی اقدار کے حوالے سے بھی یہی کلاس زیادہ حساس ہے۔ چنانچہ اس کلاس میں ، کپتان کی دوسری شادی معاشرتی اقدار کے حوالے سے زیادہ زیربحث ہے۔ وہ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے، ان کی محبتوں کا مرکز و محور۔ بھائی کے سر پر سہرا دیکھنا بہنوں کی زندگی کا سہانا خواب ہوتا ہے۔ کپتان کی دوسری شادی پر کوئی بہن موجود نہیں تھی، بھائی کی خوشیوں سے دُور، بہنوں کے دِلوں کی کیا کیفیت ہوگی؟ وہ چاروں علیمہ خاں کے گھر جمع ہوئیں اور حیرت وحسرت کے ساتھ ٹی وی اسکرین پر اپنے چہیتے بھائی کی شادی کی رسوم دیکھتی رہیں۔ کپتان کی سوانح عمری کا مصنف فرینک حضوراس کے بچپن اور لڑکپن کے متعلق لکھتا ہے:ماں باپ کی تیسری اولادعلیمہ، عمران سے 6سال چھوٹی ہیں۔ وہ سب بہنوں سے زیادہ اپنے بڑے بھائی کی چہیتی تھیں، عمران کو بھی ان سے بہت زیادہ انس تھا۔ وہ رات کو سوتے وقت انہیں کہانیاں سنایا کرتا تھا۔ نورین بھی اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی تھیں، جب وہ روتا تو وہ اسے چپ کرانے کی کوشش کرتیں۔ روبینہ خصوصاً عمران کے خواب ناک طلسموں کو ہنسی میں اڑا دیا کرتی تھیں۔ نورین کو اپنے بھائی کے تصورات و خیالات کی کوئی پروا نہیں تھی جبکہ عظمیٰ اتنی چھوٹی تھیں کہ انہیں حقیقت اور غیر حقیقت کے درمیان فرق کا پتہ ہی نہیں تھا۔
حفیظ اللہ نیازی، عمران کا فرسٹ کزن ہے، اس کے تایا کا بیٹا۔ عمران اس سے پانچ ہفتے چھوٹا ہے۔ حفیظ اللہ کی تاریخ پیدائش 24اگست 1952اور عمران کی 5اکتوبر 1952 ہے۔ عمران کے کزنز میں سے حفیظ اللہ ہی اس کے سب سے زیادہ قریب رہا۔ حفیظ اللہ کے بقول عمران کی میرے ساتھ بہت قربت تھی، بچپن اکٹھے گزرا ۔ ہم دونوں اکٹھے ہوتے تو مل کر شرارتیں کیا کرتے، ہمارے درمیان کبھی جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ عمران کی بہن، حفیظ اللہ کی بیگم بن گئیں، تو دونوں میں یہ تعلق اور بھی گہرا اور مضبوط ہوگیا۔ (اور اب دونوں میں بول چال بھی بند ہے)۔
جمائما سے علیحدگی کو تقریباً دس سال ہوگئے تھے، جب کپتان نے دوسری شادی کے اشارے شروع کر دیئے۔ دھرنا مہم کے دوران ایک شام کنٹینر پر وہ کہہ رہا تھا،’’ مجھے نیا پاکستان بنانے کی اس لئے بھی جلدی ہے کہ اس کے بعد میں دوسری شادی کر لوں‘‘ ۔ ایک اور موقع پر اس نے کہا، سوچتا ہوں، دھرنا ختم ہوگیا تو میری شامیں کیسے گزریں گی؟ کہتے ہیں، محبت اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔ منفرد شاعر ظفر اقبال یاد آئے،
چار سُو پھیلتی خوشبو کی حفاظت کرنا
اتنا آساں بھی نہیں، تجھ سے محبت کرنا
چنانچہ کوئی دو ماہ قبل ریحام خاں کا ذکر ہونے لگا۔ ایک سینئر ایڈیٹر نے اپنے ٹاک شو میں پہلے اشارتاً ذکر کیا اور پھر تفصیل بھی بیان کردی۔ تین بچوں کی ماں ، 42سالہ ریحام خاں بی بی سی لندن میں موسم کی خبریں سنایا کرتی تھیں۔ خاوند سے علیحدگی کے بعد پاکستان چلی آئیں اور یہاں ایک ٹی وی چینل سے وابستہ ہوگئیں۔ عمران خاں سے شادی کی بات عام ہوئی تو موصوفہ نے نہ صرف اس کی تردید کی بلکہ صحافتی اخلاقیات کا درس بھی دینے لگیں، اس راز کو فاش کرنے والے سینئر ایڈیٹرسے متعلق اِن کا کہنا تھا، انہیں اپنی عمر ہی کا خیال کرنا چاہئے تھا۔ اُدھر علیمہ خاں ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے ، اِسے اپنے بھائی کے خلاف پروپیگنڈہ مہم کا حصہ قرار دے رہی تھیں۔ کیا وہ واقعی بے خبر تھیں؟ جبکہ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ وہ بے خبر نہیں تھیں انہیں (اور دوسری بہنوں کو بھی) بھائی کی دوسری شادی پر نہیں، ریحام خاں سے شادی پر اعتراض تھا۔ اگر معاملہ اعتراض کا تھا تو کیا یہ محض اس کی عمر کے حوالے سے تھا، یا کچھ اور وجوہات بھی تھیں؟
جہاں تک عمر کا معاملہ ہے، بہنوں نے یہ مسئلہ جمائما کے حوالے سے بھی اُٹھایا تھا۔ عمران کے سوانح نگار کے بقول، جمائما کے ساتھ جیون بھر ساتھ نبھانے کے وعدے وعید ہوچکے تو عمران ذہن میں ایک خواب اور دل میں مسرت لئے لاہور واپس آیا۔ (1994میں وہ نومبر کی ایک سرد رات تھی جب عمران اور جمائما خاں ایک ریسٹورنٹ ’’سان لورینزو‘‘ میں ایک میز پر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ یہ پاکستانی کرکٹ کے دیومالائی حیثیت کے حامل کھلاڑی 42سالہ کنوارے اور 19سالہ برطانوی نواب زادی کی پہلی ملاقات تھی تب جمائما برسٹل یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے دوسرے سال میں تھی)۔ عمران، جمائما سے شادی کی خواہش کے اظہار کیلئے لاہور آیا تھا۔ عمران نے اپنے والد کو اس خواہش سے آگاہ کیا(جنہیں اس پر کوئی اعتراض نہ تھا) اور پھر وہ اپنی بہنوں نورین، علیمہ اور عظمیٰ کو یہ خبر سنانے چلا گیا، روبینہ اس وقت امریکہ میں تھیں۔ اس کی عمر اس کی بہنوں کے درمیان بحث کا باعث بن گئی تھی۔ رائے خطرناک حد تک منقسم تھی۔ علیمہ اپنے بھائی کے فیصلے سے متفق نہیں تھیں۔ انہوں نے دلہن اور دولہا کی عمروں کے بیچ بہت بڑی خلیج کے متعلق غیر جذباتی بحث کی۔ ان کا ذہن وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا تھا۔ جمائما اور عمران دس سال اکٹھے رہے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے انہیں دو خوبصورت بیٹوں سلمان اور قاسم سے نوازا۔ 9جون 2004 کو محبت کی یہ کہانی انجام کو پہنچ گئی۔ یہ عمران کا نہیں، جمائما کا initiative تھا لیکن اس کے بعد بھی جمائما نے اپنے نام کے ساتھ ’’خان‘‘ کا لاحقہ برقرار رکھا۔ عمران کو بھی اپنے سوانح نگار کو یہ بتانے میں کوئی عار نہ تھی کہ ’’ جمائما مجھے ہمیشہ پیاری رہے گی۔ وہ میرے دو بیٹوں کی ماں ہے‘‘۔
ریحام خاں سے شادی نے میڈیا کو ایک اور چٹ پٹا موضوع دے دیا ہے۔ مختلف تبصرے اور تجزیے جاری ہیں۔ دولہا بارات لے کر دُلہن کو بیاہنے جاتا ہے، یہاں دلہن ، ’’بارات‘‘ لے کر دلہا کے ہاں پہنچ گئی تھی۔ بنی گالہ میں اس تقریب میں شرکاء کی تعداد کوئی درجن بھر سے زائد نہ تھی۔ عمران خاں کا کوئی رشتہ دار موجود نہ تھا البتہ ریحام خاں کی چھوٹی صاحبزادی مما کے ساتھ آئی تھی۔ نکاح خواں مفتی سعید کے بقول نکاح کے وقت عمران خاں نے قدرے شرماتے ہوئے جبکہ دلہن نے بڑے بولڈ انداز میں ’’قبول ہے، قبول ہے‘‘کہا۔ چھوہارے پھینکے گئے تو دلہن نے ایک چھوہارا’’کیچ‘‘ کر کے منہ میں ڈال لیا۔ وہ ’’ونس مور‘‘ کا تقاضا کر رہی تھی۔ سیاسی حلقوں میں اس شادی کے ’’سیاسی اثرات‘‘ پر بات ہورہی ہے جبکہ مڈل اور لوئر کلاس میں بہنوں کی عدم موجودگی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ کپتان سے یہ بھی نہ ہوسکا کہ پیار کرنے والی بہنوں کو منا لاتا۔
زیادہ دن نہیں گزرے، جب اس کا حقیقی کزن، جواں سال نجیب اللہ نیازی اس دُنیا کو چھوڑ گیا۔ کپتان اس کے جنازے میں شریک ہوا، نہ حفیظ اللہ نیازی سمیت، کسی کو تعزیت کیلئے کال کی، نہ ٹیکسٹ میسج کیا۔ اس کی ’’انا‘‘ اس میں حائل ہوگئی تھی تو وہ کم از کم اتنا تو کرتا کہ اس شام کنٹینر پر اپنی سالگرہ کا کیک ہی نہ کاٹتا۔