بحران کے بعد بحران

January 26, 2015

یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ سیاسی اور جمہوری حکومتیں بہتر طرز حکمرانی نہیں دے سکی ہیں ، جس کی وجہ سے ایک کے بعد دوسرا بحران پیدا ہو رہا ہے ۔ پٹرول کےبحران پاکستان کی تاریخ میں پہلےکوئی مثال نہیں ملتی ۔ بلا شبہ خراب حکمرانی، بد انتظامی ، اقربا پروری اور احتساب کا نہ ہونا اس بحران کے بنیادی اسباب ہیں ۔ اب اس بحران کے بعد بجلی کا بحران بھی پیدا ہونے کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔یہ درست ہے کہ پاکستان اس وقت دہشت گردوں کیخلاف حالت جنگ میں ہے لیکن بحران پیدا ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے۔ایسے بحران حکمرانوں کے اپنے پیدا کردہ ہیں ۔
ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی پیٹرول کے اس بحران کا کوئی سبب موجود نہیں ہے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حکومت کا کوئی بھی عہدیدار اس بحران کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔یہ بحران دراصل اداراتی ناکامی ہے ۔اس سے نہ صرف وفاقی حکومت کی وزارتوں کی کارکردگی سوالیہ نشان بن گئی ہے بلکہ خود مختار سرکاری کارپوریشنوں اور کمپنیوں کی کارکردگی بھی مشکوک ہو گئی ہے ۔ موجودہ وفاقی حکومت کے دوسال مکمل ہونے والے ہیں اس نے ابھی تک 20سے زیادہ کارپوریشنوں اور دیگر خود مختار اداروں کے سربراہ مقرر نہیں کئے۔ پاکستان اسٹیٹ آئل ( پی ایس او )، پاکستان اسٹیل اور آئل اینڈ گیس ڈولپمنٹ کارپوریشن سمیت کئی ادارے سربراہ کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ یہ ملک کے بڑے ادارے ہیں ، جن کا پاکستان کی ترقی میں بہت اہم کردار ہے ۔جن اداروں کے سربراہ مقرر کئے گئے ہیں ، وہ میرٹ پر نہیں بلکہ مخصوص مفادات کی بنیاد پر مقرر ہوئے ہیں۔یہ لوگ نہ صرف نااہل ہیں بلکہ ان کا ان اداروں کی پیشہ ورانہ ضرورتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ایسی صورتحال میں تو اس طرح کے بحران ہی پیدا ہوں گے ۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت عام انتخابات میں اکثریتی نشستیں لے کر کامیاب ہوئی ہے۔ وہ ووٹوں کے تناسب سے پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ عوام نے اسے یہ مینڈیٹ دیا ہے ۔ اگر حکمران جماعت اہم کارپوریشنوں اور دیگر اداروں کیلئے اہل آدمی تلاش نہیں کر سکتی تو یہ اس کے لوگوں کی نااہلی کا ثبوت ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پٹرولیم سے متعلق امور میں تین وزارتوں کا اہم کردار ہے ۔ ان میں خزانہ ، پٹرولیم و قدرتی وسائل اور پانی و بجلی کی وزارتیں شامل ہیں ۔ ان کے بعد آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی ( اوگرا ) اور پی ایس او کی ذمہ داری آتی ہے ۔ پی ایس او کے سربراہ کو معطل کر دیا گیا ہے اور تحقیقاتی کمیٹی نے اوگرا کو بھی ذمہ دار قرار دیا ہے لیکن بحران کی اصل ذمہ دار وزارتوں اور وزراء کو بچایا جا رہا ہے ۔ آج کے دور میں منیجمنٹ کا بنیادی تصور یہ ہے کہ کچھ ڈلیور کیا جائے ۔ اگر کوئی ڈلیور نہیں کر سکتا تو وہ ہٹ جائے ۔ قبل ازیں بجلی کا بحران پیدا ہوا لیکن ذمہ داروں کو سزا نہیں دی گئی ۔ اگر اس وقت سزا دے دی جاتی تو پٹرول کا یہ بحران پیدا نہ ہوتا ۔ پہلے بھی جرم ثابت تھے ، سزا نہیں ملی ۔ اب بھی جرم ثابت ہیں لیکن سزا نہیں دی جارہی ۔ احتساب کا کوئی نظام موجود نہیں ہے ۔ وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل اور ان کی وزارت کے دیگر لوگ وزارت خزانہ کو اس بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ وزارت خزانہ نے بروقت فنڈ جاری نہیں کئے،جس کی وجہ سے پٹرول کی خریداری کی مد میں ادائیگیاں نہیں کی جا سکی ہیں ۔ وزیر خزانہ اس بحران کی ذمہ داری وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل پر ڈال رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی طرف سے اس معاملے کی تحقیقات کیلئے جو کمیٹی قائم کی گئی تھی ، اس نے بحران کا ذمہ دار آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی ( اوگرا ) کو قرار دیدیا ہے ۔ غرض کوئی وزیر یا حکومت کا کوئی بھی اعلیٰ عہدیدار یہ ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ اگرچہ وزراء یہ کہتے ہیں کہ وہ اس بحران پر شرمندہ ہیں لیکن شرمندگی مٹانے کیلئے وہ کوئی اقدامات نہیں کر رہے۔ اگر افسران اس بحران کے ذمہ دار ہیں تو ان افسروں کے وزراء بھی یقیناً اس بحران سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے لیکن تادم تحریر کسی کو سزا نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی نے اخلاقی طور پر ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے ۔
جب سے مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت آئی ہے ، تب سے ایسی باتیں ہو رہی ہیں ، جن کا گہرائی میں جا کر ادراک کر لیا جائے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ بجلی کا بحران موجودہ حکومت کو ورثے میں ملا ہے لیکن اس بحران کو حل کرنے کیلئے اس حکومت نے قومی خزانے سے بہت بڑی رقم خرچ کر ڈالی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے ۔
حکومت بنتے ہی سب سے پہلے گردشی قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 480ارب روپے کی خطیر رقم قومی خزانے سے نکالی گئی اور یہ کہا گیا کہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز ( آئی پی پیز ) کو ادائیگی کرنا لازمی ہے تاکہ ان سے مزید بجلی خریدی جا سکے۔ ان گردشی قرضوں کی ادائیگی کے بعد بجلی کا بحران ختم ہوجائے گا لیکن بجلی کی لوڈشیڈنگ ابھی تک موجود ہے ۔ اس کے بعد مزید 100 ارب روپے اسی مد میں خرچ کئے گئے ۔ تقریباً 600 ارب روپے گردشی قرضوں کے نام پر قومی خزانے سے حاصل کرنے مختلف لوگوں کو دے دئیے گئے ۔ اس رقم کا آج تک آڈٹ نہیں ہو سکا ہے ۔ کسی کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ یہ رقم کس کو دی گئی اور کس مد میں ۔ اب دوبارہ گردشی قرضے 500 ارب روپے سے زیادہ ہو گئے ہیں ۔ ایک آئی پی پی کمپنی ’’ حبکو ‘‘ کے چیئرمین کا بیان اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ انہیں ادائیگیاں نہ ہوئیں تو پاور پلانٹ چلانا ممکن نہیں رہے گا ۔ دیگر آئی پی پیز کو بھی ایسی ہی شکایات ہیں ۔ اب اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پرائیویٹ پاور سیکٹر کی طرف سے بجلی کی سپلائی کسی بھی وقت بند ہو سکتی ہے کیونکہ انہیں ادائیگیاں نہیں کی گئی ہیں ۔ یہ سپلائی بند ہونے سے بجلی کی رسد میں مزید کمی ہو گی اور لوڈشیڈنگ میں اور زیادہ اضافہ ہو گا ۔ اسکے ساتھ ساتھ بجلی گھروں کیلئے فرنس آئل کا ذخیرہ بھی تھوڑے دنوں کا رہ گیا ہے ۔ اس کی وجہ سے بھی بجلی کی پیداوار میں کمی ہو سکتی ہے ۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا بحران ہمارا انتظارکر رہاہوتا ہے ۔ اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہے ۔ ہمیں اس شرمناک حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیاست کو صرف کمائی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے ۔اہلیت اور میرٹ کو ہر جگہ نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ بہترین حکمرانی کا تصور یہ رہ گیا ہے کہ حکومت اپنی نااہلی اور سنگین غلطیوں کی پردہ پوشی کرسکے۔ اس طرح کی صورت حال میں معاملات کو بہتر نہیں کیا جا سکتا ۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ کا یہ بیان آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے کہ پٹرول کا بحران جمہوریت کو لے ڈوبے گا ۔ اگر احتساب کا مضبوط نظام وضع نہ کیا گیا اور بہتر حکمرانی نہ دی گئی تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی غیر معمولی صورتحال میں سیاسی نظام کی ناکامی کے زیادہ امکانات پیدا ہو سکتے ہیں اور پھر اس ملک پر حکمرانی کا حق سیاست دانوں کا نہیں رہے گا ۔