نوکر شاہی میں اِصلاحات ۔عملدرآمد کون کرائے گا؟

March 01, 2015

گزشتہ دنوں وزیراعظم نے بیوروکریسی کو کھری کھری سناتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ملک کی بیوروکریسی ایسے مہاکلاکار افسروں پر مشتمل ہے جو مطلوبہ اہلیت، قوتِ فیصلہ اور مستقبل کے چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کی صلاحیتوں سے بالکل عاری ہے‘ نتیجتاً عوام کے گمبھیر مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہے ہیں‘‘۔ ہم تو شروع سے ہی حکمرانوں کو باور کراتے چلے آ رہے ہیں کہ جن پر آپ اندھا اعتماد کئے ہوئے ہیں وہی آپ کو لے ڈوبیں گے اور یہی ہوا کہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے اور بے مقصد کاموں میں الجھائے رکھنے کے ماہر ان مہاکلاکاروں نے حکمرانوں کو اپنے حصار میں اس قدر جکڑ رکھا ہے کہ وہ کمال فنکاری سے عوام کے مسائل حل ہونے ہی نہیں دیتے اور ایسی رکاوٹیں ڈالتے ہیں کہ حکمرانوں کو بھی لاجواب کر دیتے ہیں۔ وزیراعظم نے انہیں راہِ راست پر لانے کیلئے سول سروس میں اصلاحات لانے کا عندیہ بھی دیا تھا، انہیں کون سمجھائے کہ یہ مہاکلاکار اپنے مفادات کیخلاف ایسی اصلاحات کیسے لانے دینگے جو عوام کی اُمنگوں کے مطابق ہوں اسلئے ان کی نام نہاد اصلاحات بھی پہلے کئی ادوار میں کی گئی اصلاحات کی طرح کھوہ کھاتے میں ہی چلی جائیں گی۔ بیوروکریسی میں اصلاحات سے پہلے ہمیں نوکرشاہی کے بنیادی ڈھانچے کا جائزہ لینا ہو گا جو ہمیں تقسیم ہند سے قبل برطانوی سامراج اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی انتظامی اصلاحات کی ورق گردانی کی طرف راغب کرتا ہے۔ اِیسٹ اِنڈیا کمپنی بنیادی طور پر برطانیہ کی ایک تجارتی کمپنی تھی جس کے انگریز افسران اور ملازمین نے تجارت کی شکل میں مقامی لوگوں کااِستحصال شروع کیا ۔ اِیسٹ اِنڈیا کمپنی کا ’’لوگو‘‘ دو خونخوار شیروں پر مشتمل تھا جسکا علامتی مقصد ہندوستان کے لوگوں کا خون چوسنا، ان کا گوشت اور ہڈیاں چبانا اور کمزور انسانوں کا استحصال کرنا تھا۔ سو اس نے یہ کام بیوروکریسی کے ’’سہولت کاروں‘‘ کے ذریعے انجام دیا۔ 1858 ء میں اِیسٹ اِنڈیا کمپنی نے ہندوستان کا اِنتظام و اِنصرام تاجِ برطانیہ کے حوالے کیا تو ایچی سن کمیٹی کی سفارشات پر اِنڈین سول سروس (آئی سی ایس) کی داغ بیل ڈالی گئی جسکے تحت اِمپیریل سول سروس اور پراونشل سول سروسز قائم کی گئیں ۔ قیام پاکستان کے وقت اِنڈین سول سروس اور اِنڈین پولیٹیکل سروس کے 1157 افسران میں سے 608انگریز، 448ہندو اور 101 مسلمان تھے‘ ان 101 مسلمان افسران میں سے 95 نے پاکستان میں سروس جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ اِن 95 افسران میں 83 اِنڈین سول سروس (آئی سی ایس) اور 12 اِنڈین پولیٹیکل سروس کے تھے لہٰذا پاکستان کے انتظامی ڈھانچہ کی اَساس اِنڈین پولیٹیکل سروس کی بنیاد پر اقلیتوں کو خاص اہمیت دیتے ہوئے قائم کئی گئی۔ یوں روزِ اوّل سے ہی نوکر شاہی کے انتظامی ڈھانچہ کی بنیادکوٹہ سسٹم پر تھی۔ قیام ِپاکستان کے بعد پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس (پی اے ایس) کی بنیاد رکھی گئی جس میں مشرقی پاکستان سے صرف ایک افسر شامل تھا لہٰذا کوٹہ سسٹم کو رائج کرتے ہوئے مشرقی پاکستان سے کچھ افسران کو وفاقی سروس میں لیا گیا۔ بابائے قوم اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سیاسی انتشار بڑھتا گیا‘ ایسے میں گورنر جنرل غلام محمد کے دور میں بیوروکریسی ایک طاقتور مقتدر طبقہ کی صورت اختیار کر گئی۔ 1954 میں اس مقتدر طبقے نے اپنا نام پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس سے تبدیل کر کے سی ایس پی رکھ لیااور یوں سول سروس آف پاکستان کی داغ بیل پڑ گئی۔ 1947 تا 1956 ملک بے آئین رہا‘ اِنتظامی افراتفری کے اِس دور میں بیورو کریسی نے ملک کو من مانی انتظامی کاروائیوں کے تحت چلایا۔ ایوب خان نے سب سے پہلے بیوروکریسی کی تطہیر کیلئے کرپٹ، بددیانت اور بدتدبیر 12افسران کو فارغ کیا۔ یحییٰ خان نے 303 اور ذوالفقار علی بھٹو نے 1303 خودسر، متکبر اور بدعنوان افسران کو نوکری سے فارغ کیا۔ 1973میں وفاقی سروس کا نا م سی ایس پی سے تبدیل کرکے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (ڈی ایم جی) رکھ دیا گیا‘ جسے بعد ازاں 2012 ء میں از سرنو تبدیل کرکے دوبارہ پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس (پی اے ایس) رکھ دیا گیا۔ 1947 ء سے سیاسی ریشہ دوانیوں، نوکر شاہی و سیاسی گٹھ جوڑ، بدعنوانیوں، خویش پروری، جانبداری، لاقانونیت اور بیجا تکبر کی بنیاد پر یہ اِدارہ آج اس حد تک روبہ زوال ہے کہ مسائل کا حل تو درکنار یہ انکا ادراک کرنے کے بھی قابل نہیں رہا۔ آج انہیں صرف اپنی ترقیوں کی فکر ہے۔ سیاسی گٹھ جوڑ کے تحت حُبِّ جاہ و جلال اور حرصِ مال و زر ہی انکا مطمعِ نظر اور گریڈ22 کا حصول انکی آخری منزل ہے جس پر کھڑے ہو کر پھر وہ ’’ورلڈ بینک‘‘ اور دیگر یہودی کمپنیوں میں اعلیٰ نوکریوں کے حصول کیلئے تگ و دَو کرتے ہیں‘ یہی انکی فکری ژولیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان میں اِنتظامی اصلاحات کا ڈرامہ کئی دفعہ رچایاگیااور 1947ء سے 2009ء تک تقریباً 37کمیشن اور کمیٹیاں بنائی گئیں، جن میں سب سے آخری کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنی رپورٹ اس وقت کے وزیراعظم کو پیش کی جس میں سول سروس کو نئے ڈھانچے پر استوار کرنے کی سفارشات کرتے ہوئے چار سطحی سروسز قائم کرنے کی تجویز دی گئی جن میں آل پاکستان سروس، وفاقی سروس، صوبائی سروس اور ضلعی سروس شامل تھیں۔ عشرت حسین کمیشن کی رپورٹ میں سب سے عجیب اور معنی خیز بات آل پاکستان سروس کے ماڈل پر نیشنل ایگزیکٹو سروس (این ای ایس) کا قیام بذریعہ مقابلہ امتحان عمل میں لانے کی تجویز دی گئی یعنی اگر صوبائی سروس کے کسی افسر نے آل پاکستان سروس کا حصہ بننا ہو تو اسے ایک اور امتحان سے گزرنا ہوگا جبکہ وفاقی سروس کے افسران بغیر کسی امتحان کے ہی اس سروس کا حصہ بن سکیں گے۔ 21ویں صدی میں نوکر شاہی کا تصور اور وجود پوری دُنیا میں معدوم ہو چکا ہے‘ ماسوائے ان ممالک کے جو نوآبادیاتی نظام کا حصہ رہے اور تاحال ترقی پذیر ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں آج تک ہم یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ ہمیں نوکرشاہی میں اصلاحات کس بنیاد پر لانی چاہئیں؟ کیا یہ اِیسٹ اِنڈین کمپنی کے گوروں کا چربہ ہوگا یااسکی اَساس دوقومی نظریہ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور عوامی خدمت کے تصور پر مبنی ہو گی؟ ہم تو ابھی تک کوٹہ سسٹم کی اصلاح نہیں کر پائے۔ وفاقی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کئے جانیوالے افسران کا کوٹہ پنجاب بشمول فیڈرل کیپٹل 50فیصد، سندھ 19فیصد، خیبرپختونخوا 11.5فیصد، بلوچستان 6فیصد، فاٹا، گلگت بلتستان 4فیصد، آزاد جموں وکشمیر 2فیصد اور خواتین کا کوٹہ 10فیصد ہے (جو ہر صوبہ و علاقہ کے کوٹہ سے شمار ہو گا) جبکہ میرٹ کا تناسب صرف 7.5 فیصد ہے۔ 21ویں صدی میںآج ان صلاحات کے تناظر میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا ہماری آئندہ سول سروس کی بنیاد اِیسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی سامراج کے رائج کردہ کوٹہ سسٹم پر ہی رہے گی یا ہم نے اوپن میرٹ کو بنیاد بنانا ہے۔ سول سروسز اکیڈمی یوں تو کئی دہائیوں سے ایسے افسران کو تربیت دے رہی ہے جنہوں نے مختلف محکموں کی نہ صرف انتظامی باگ ڈور سنبھالنا ہوتی ہے بلکہ پرانی پالیسیوں پر عملدرآمد کیساتھ ساتھ نئی پالیسیاں بھی مرتب کرنا ہوتی ہیں۔ مگر یہ اکیڈمی بذاتِ خود بہت سی خرافات کی بنیادی وجہ ہے جن میں میکاولی کی تعلیمات، چانکیہ کوتلیہ کی حکایات اور گھڑسواری جیسی فضولیات نمایاں ہیں۔ شہزادوں اور بادشاہوں کے تصورات کون سے ملک کی سروس اکیڈمی میں سول افسروں کو ذہن نشین کرائے جاتے ہیں جو ایک ایسے ملک کے ننگے دھڑنگے غریب عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لیتے ہو ں جس کی نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو۔ گھڑسواری جو آج بھی اکیڈ می میں رائج ہے، اس کے بارے میں امریکن اسکالر رالف برائے بنٹی کا کہنا ہے کہ ’’سی ایس پی افسران کی گھڑ سواری کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ دراصل پاکستان کے پاس اتنے ہاتھی موجود نہیں ہیں‘‘۔ رالف تو یہاں تک بھی کہہ گیا کہ ’’برطانوی اِنڈین سول سروس افسران، سی ایس پی کیڈر رولز 1954 اور سول سروس اکیڈمی لاہور یہ تینوں وہ مکروہ گٹھ جوڑ ہے جس نے پاکستان کے اندر ایسے غیرجمہوری اِنتظامی ڈھانچے کو فروغ دیا جس کی وجہ سے تمام تر طاقت کا محور سی ایس پی کلاس کچھ اس طر ح بنی کہ سی ایس پی کی حکومت، سی ایس پی کے ذریعے اور سی ایس پی کیلئے‘‘۔ لہٰذا آج ہم فیصلہ کن دوراہے پر کھڑے ہیں کہ انگریز کے تربیت یافتہ اِن مسٹر برائونز کو بابو، برہمن اور بیوروکریٹ بنانا ہے یا عوامی خدمت کیلئے ایک ایسا طبقہ تیار کرنا ہے جو نخوت زدہ افسر ی کی بجائے حقیقی معنوں میں عام لوگوں کو خدمات فراہم کر سکیں۔
سول سروس میں قومی یکجہتی کا تصور اب بھی بہت ہی دُھندلا ہے بلکہ یہ کہنا موقع بر محل ہوگا کہ اس تصور کی آڑ میں سول سروس آف پاکستان سے منسلک سی ایس پی اور ڈی ایم جی افسرا ن نے قومی یکجہتی کے تصور کو اجاگر کرنے کی بجائے ہر دور میں اس کی رعنائیوں کو ماند کیا۔ اسی سی ایس پی کلاس کے بیجا غرور، رعونت اور فرعونیت نے مشرقی پاکستان کے اندر وفاق کیخلاف نفرت اور حقارت کے عناصر کو جنم دیا جو سقوطِ ڈھانچہ پر منتج ہوا کیونکہ مغربی پاکستان کی طر ف سے فائز ہونیوالے افسران مشرقی پاکستان میں ایک وائسرے کی طرح اِجارہ داری قائم کرتے تھے۔ اندازہ کریں کہ مشرقی پاکستان میں پٹ سن کے پَرمٹ کے اجراء پر کمیشن خوری، محترمہ فاطمہ جناح کی مصنوعی شکست، ون یونٹ کا قیام، آئین سازی کے پہلوئوں سے تساہل اِن کی انتظامی ریشہ دوانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آج یہ وفاقی افسران بلوچستان، گلگت بلتستان اور شمالی علاقوں میں تعینات ہونا اپنے لئے کالے پانی کی سزا تصور کرتے ہیں۔ کیا اِن افسران کے نزدیک قومی یکجہتی کا تصور یا وفاق کی علامت یہ ہے کہ تمام صوبوں میں صوبائی افسران کو ترقیوں سے محروم کرکے اِن صوبوں کے اعلیٰ عہدوں پر قبضہ کر لیا جائے، گریڈ22 میں صوبائی افسران کو ترقی سے محروم کر دیا جائے اور باقی صوبوں سے قطع نظر صرف پنجاب پر اپنا تسلط قائم رکھا جائے۔ ان 700 سرکاری دامادوں کو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے محروم طبقات کی فکر کیوں ہو؟ انکے نزدیک تو قومی یکجہتی صرف اور صرف اپنی ذات کا محور ہے بلکہ اب تو پنجاب پر انکے تسلط نے وفاقی سروس کو بھی صوبائی سروس ہی بنا دیا ہے۔ جی او آر کی پرتعیش کوٹھیاں، کلبوں کے نظارے، پرنشاط زندگی، گاڑیوں کی لمبی قطاریں، بچوں اور بیگمات کیلئے خدام کی لائنیں، کیا ہم نے اِس قومی یکجہتی کے تصور کو پروان چڑھانا ہے یا آج ہمیںاپنی سمت کو درست کرنا ہے؟ 18ویں ترمیم کے بعد وفاقی بیوروکریسی کا صوبوں کے اندر قومی یکجہتی کا تصور کیا ہونا چاہئے؟ آج کے کمیشن کے سامنے یہ بہت بڑا سوال ہے ۔ کیا قومی یکجہتی مشرقی پاکستان کی طرح صوبائی افسران کے حقوق غصب کرکے حاصل کی جاسکتی ہے یا ریاست کے اِنتظام و اِنصرام کیلئے آئین کے آرٹیکل 240 کے مطابق ’’آل پاکستان سروس‘‘ کا قیام عمل میں لانا ہے یا پھر وفاقی افسران نے پی ایس پی‘ ڈی ایم جی اور سیکرٹریٹ گروپ کو ہی آئین کے منافی آل پاکستان سروس ڈکلئیرکرنا ہے؟ عشرت حسین نے اپنی رپورٹ میں ’’آل پاکستان سروس‘‘ کا تصور پیش تو کیا مگر وہ بھی غیرمنصفانہ اور جانبدرانہ ہے۔ راقم کی نظر میں آج ہم اس فیصلہ کن مرحلے پر کھڑے ہیں کہ ہمیں مساوات، انصاف اور برابری کے اُصولوں پر مبنی ایک ایسی ’’آل پاکستان سروس‘‘ بنا دینی چاہئے جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں کی نمائندگی ہو۔ موجودہ سول سروس میں تطہیرکی ضرورت کس حد تک ہے؟ اسکے جواب کیلئے اتنا عرض ہے کہ سیاسی و نوکر شاہی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں آج محکمہ اینٹی کرپشن اور نیب اِس حد تک ناکام ہو چکے کہ ایک کو اینٹی کرپشن اور دوسرے کو مک مکائو کے نتیجے میں ’’نیشنل ایکوئٹل بیورو‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ کرپشن، کِک بیک، کمیشن خوری کی ایسی ایسی داستانیں ہر روز طشت اَزبام ہوتی ہیں کہ یہ سوال دل و دماغ پر گہری چوٹ لگاتا ہے کہ پاکستان کا وہ کونسا مرد ِمجاہد ہوگا جو اصلاحات کیساتھ ساتھ سول سروس کی تطہیر پربھی غور کریگا۔ یہ کوئی نیا یا اچھوتا خیال نہیں ماضی میں جنرل ایوب خان ، جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں کرپٹ عناصر کی تطہیر ہو چکی ہے لہٰذا اب یہ موجودہ وزیراعظم پاکستان کی ہمت، حوصلہ اور جرات مندانہ حکمت عملی کیلئے سوال ہے کہ کیا وہ بھی سول سروس میں تطہیر کرسکیں گے ؟جبکہ ان پر موجودہ سول سروس کی تنزلی یعنی اسے اِتفاق سول سروس میں تبدیل کرنے کے اِلزام کا بھی سامنا ہے۔ اس معروضی تجزیے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ سول سروس نوآبادیاتی نظام کا چربہ ہے جو کبھی بھی عوامی خدمت کے جذبات سے معمور نہیں ہو سکتی۔ وزیراعظم پاکستان ازسرنو برطانیہ سے رہنمائی لینا چاہتے ہیں‘ خدا خیر کرے‘ ہم تو پہلے ہی پچھلے 67سالوں سے انہی گوروں کی باقیات کاٹھے انگریزوں سے نبردآزما ہیں اور عوامی خدمت کے معاملہ میں نقطئہ زوال کو چھورہے ہیں۔ دیکھئے اب حکیم صاحب ہمیں کہیں ایسی گولیاں نہ دیدیں جن کا اثر پوری قوم ملکر بھی اگلے 67سال تک زائل نہ کر سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حکمران واقعی سول سروس میں اصلاحات چاہتے ہیں تو سول سروس کی بنیاد کوٹہ سسٹم کے ذریعے بھرتی ہونیوالے نالائق، نااہل افسران کی بجائے میرٹ پر کی جائے‘ میرٹ کا محض راگ الاپنا کوئی دانشمندی نہیں عملی مظاہرہ کرنے کا وقت آ چکا ہے لہٰذا موجودہ 93فیصد کوٹے کے تناسب کو تبدیل کرتے ہوئے 93فیصد میرٹ کے تناسب میں یکسر بدل دیا جائے اور قومی یکجہتی کے تصور کو بحال رکھنے کیلئے صرف 7فیصد سلیکشن صوبوں کی نمائندہ ہو۔ سول سروس اکیڈمی میں تربیتی کورس کو از سر نو ترتیب دیا جائے ۔ گھڑ سواری اور افسانوی شاہانہ نظامِ حکومت کی بجائے لوکل گورنمنٹ سسٹم اور عوامی خدمت کے جذبہ کو پروان چڑھانے کیلئے دوقومی نظریہ اور عوامی حکومتوں کا تصور یقینی بنایا جائے۔ اگرچہ اکنامک ڈویلپمنٹ اور پبلک ایڈمنسٹریشن پہلے سے افسران کو پڑھائی جاتی ہے مگر اسکا مقصد صرف اورصرف پاکستان کے 30سے زائد اعلیٰ نیم سرکاری اداروں کی سربراہی حاصل کرنا ہے۔ اِن اداروں میںپلاننگ کمیشن آف پاکستان، انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بینک آف پاکستان، پی آئی سی آئی سی اور سول ایوی ایشن اتھارٹی جیسے اداروں میں اقتصادی پالیسیوں کے اجراء میں افسر شاہی کی اجارہ داری قائم کرنا وفاقی سروس کا بنیادی مطمع نظر ہے۔ آئی سی ایس ہو یا پی اے ایس، سی ایس پی ہو یا ڈی ایم جی مکمل طور پر غیر ٹیکنیکل ہے ۔