پوری پوری بستیاں، پورے پورے شہر بیمار تھے

March 04, 2015

تاریخ ساز ناول ’’جرم و سزا‘‘ کے تخلیق کار فیودر دوستوفسکی نے، کہانی کے مرکزی کردار رسکو لینسکوف کے ان خوابوں کی صدائے بازگشت، اس کی زبانی بیان کی ہے کہ جب اسے بخار نے آن لیا، وہ سرسامی حالت میں سپنے دیکھتا رہتا، ایک بار اس نے دیکھا: ’’ساری دنیا کو ایک بیماری‘‘ کا شکار بنا دیا گیا، یہ ایشیا کی گہرائیوں سے یورپ پر نازل ہوئی۔ سوائے چند برگزیدہ لوگوں کے سب کو تباہ ہو جانا تھا۔ کچھ نئی قسم کے جراثیم نمودار ہوگئے تھے لیکن یہ جراثیمی روحیں تھیں جو عقل اور مرضی کی مالک تھیں۔ جن لوگوں پر یہ حملے کرتیں وہ فوراً ہی غضب ناک اور پاگل ہو جاتے لیکن لوگوں نے خود کو کبھی اتنا دانش مند اور برحق نہ سمجھا تھا جتنا یہ بیمار لوگ سمجھتے تھے۔ لوگوں نے اپنے فیصلوں کو، اپنے سائنسی نتائج کو، اپنے اخلاقی عقیدوں اوراصولوں کو کبھی اتنا غیر متزلزل نہ سمجھا تھا۔ پوری پوری بستیاں، پورے پورے شہر بیمارتھے اورپاگل تھے، سب کے سب ہیجان میں تھے اور ایک دوسرے کو بالکل نہیں سمجھتے تھے، ہر ایک یہ سمجھتا تھا کہ بس وہی سچائی کا حامل ہے، دوسروں کو دیکھ کر اسے اذیت ہوتی تھی، وہ اپنا سینہ کوٹتا تھا، روتا تھا اور ہاتھ ملتا تھا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ کس کا اور کس طرح احتساب کریں۔ وہ کسی طرح اس بات پر متفق ہی نہ ہو پاتے تھے کہ بدی کیا ہے اور نیکی کیا ہے۔ وہ نہیں جانتے تھے کس کو قصور وار قرار دیں اور کس جرم کا جواز پیش کریں۔ لوگ ایک دوسرے کو کسی غصے میں قتل کردیتے تھے، وہ ایک دوسرے کے خلاف پوری پوری فوجیں جمع کرتے لیکن فوجیں کوچ کے دوران خود اپنے ہی اوپر حملہ کردیتیں، صفیں ٹوٹ جاتیں اور سپاہی ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے، ایک دوسرے کو کاٹ کر رکھ دیتے، مار ڈالتے، بھنبھوڑتے اور کھا جاتے۔ شہروں میں سارے دن خطرے کی گھنٹی بجتی رہتی، سب دوڑ پڑتے لیکن یہ کسی کو نہ پتہ ہوتا کہ کون بلا رہا ہے اور کس لئے، اور سب کے سب ہیجان میں ہوتے، انتہائی معمولی کاموں کو چھوڑ دیا گیااس لئے کہ ہر ایک اپنے خیالات، اپنی اصلاحات پیش کرتا تھا اور وہ کبھی متفق نہ ہوسکتے تھے۔ کاشتکاری چھوڑ دی گئی۔ کہیں کہیں لوگ ٹولیوں میں جمع ہوتے، سب کسی نہ کسی چیز پر متفق ہوتے، قسمیں کھاتے کہ الگ نہ ہوں گے لیکن ابھی ابھی جو چیز خود تجویز کی تھی اس کے مقابلے میں فوراً کچھ اور ہی شروع کردیتے، ایک دوسرے کو قصوروار بتانے لگتے، لڑتے اور مار کاٹ کرتے۔ آگ لگنی شروع ہوگئی، قحط پڑ گیا، سارے لوگ اور ساری چیزیں تباہ ہوگئیں، طاعون بڑھا اور پھیلتا ہی چلا گیا۔ صرف چند لوگ دنیا میں اس سے محفوظ رہ سکتے تھے۔ یہ پاک صاف برگزیدہ لوگ تھے جنہیں مقرر کیا گیا تھا کہ لوگوں کی نئی نسل اور نئی زندگی شروع کریں۔ زمین کی تجدید اور صفائی کریں، لیکن ان لوگوں کو کسی نے نہیں دیکھا اور کسی نے ان کی بات اور آواز نہیں سنی!‘‘
رسکو لینسکوف کی سرسامی بپتا نے نہ معلوم اس کے ماضی، اس کے ملک، اس کی دنیا، جہاں وہ پیدا ہوا، پلا، بڑھا، جواں ہوا، کی کن یادوں اور پرتوں سے اس کی جسمانی اور ذہنی حالت کے جینز اتھل پتھل کر دیئے، کچھ کہا نہیں جاسکتا، ہاں! رسکو لینسکوف کے اس سرسامی بیانیے نے ایک پاکستانی شخص کے دماغی اختلال کی کیفیتوں کو ایک دوسرے کو پھنکارتی اور ٹکراتی پرشور غضباک لہروں کے سپرد کردیا، وہ بار بار کہتا ہے، یہ رسکو لینسکوف کو میرے بارے میں کیسے خبر ہوئی، ادھر ایشیا میں جس دھرتی پر میں نے جنم لیا، پلا، بڑھا اور جوان ہوا، فیودردستوفسکی کو آج سے 149برس پہلے، یوں کہنا زیادہ اچھا لگتا ہے، ’’ایک کم ڈیڑھ سو برس پہلے‘‘، ایسے ادراک سے کام لینے کی آخر کیا پڑی تھی جس کا میں ہی ہدف ہوتا۔
یہ پاکستانی صاحب اس وقت کوئی 50 اور 60 برسوں کے درمیانی پیٹے میں ہیں، ان دنوں ان حضرت نے رسکو لینسکوف کے اس ذکر کردہ سرسامی خواب پر بڑبڑانے کا ’’سلسلہ اضطرابیہ‘‘ شروع کر رکھا ہے!
آپ ان حضرت کے زیادہ سے زیادہ قریب جانے کی کوشش کریں، آپ کو متعدد بڑبڑاہٹوں کے بطن سے مچھلی کے انڈوں کی طرح مختلف جملے برآمد بلکہ گرتے دکھائی دیں گے۔ خود کلامی میں آپ کو سنائی دے گا، جیسے کہہ رہے ہوں، جہاں میں رہتا ہوں وہاں بھی تو گزشتہ تین دہائیوں سے اپنی عقل اور مرضی کی مالک جراثیمی روحیں نمودار ہو چکی ہیں۔ چند برگزیدہ لوگوں کے سوا سب کی تباہی ان کا مقدر بنتی جارہی ہے۔ یہ روحیں جن لوگوں اور گروہوں میں اترتی ہیں ان کی غضبناکی اور پاگل پن نے میری دھرتی کو خون کا سمندر بنا دیا، ان جراثیمی روحوں کے پرستاروں اور مقلّدین نے میری سرزمین کے بچوں، جوانوں، بچیوں، عورتوں، جانبازوں، اہلکاروں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، ڈاکٹروں، جو بھی ان کے سامنے آیا، ان جراثیمی روحوں کے پرستاروں اور مقلّدین نے اپنے غضبناک اور پاگل پن کا کشکول ان کے لہو سے بھرا۔
یہ کسی مقدس عادت یا نظام کا نفاذ کر کے خدا کی مخلوق کے شب و روز جہنم بنا دینے اور زندگی کی ساری کلکاریاں قبرستان کی سی اداسیوں کی نذر کرنے کے بعد، خود کو خدا کے حضور پیش کرنے کو بے چین رہتے ہیں، ایک دانشور کو بھی تو میں اکثر پڑھتا ہوں وہ پورے ہندوستان کے ایک ایک محلہ پر قبضے کے بعد پوری دنیا کے غیر مسلم ممالک پر چڑھائی کی پاکیزہ پیش گوئیوں کے ذریعہ ان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے الوہی پرچار میں اپنا دن رات ایک کئے رکھتے ہیں تاکہ خدا راضی ہوسکے، میں سوچتا ہوں، انہیں ہر ایک کو اپنی اپنی زندگی اپنے اپنے انداز سے گزارنے کا حق چھیننے کا مشن ’’خدا‘‘ نے کب اور کہاں سپرد کیا؟ پاکستان کے بارے میں ان سمیت متعدد حضرات کے پاس اللہ کی جانب سے ’’روحانی پیغامات‘‘ اور ’’روحانی منصوبوں‘‘ کے ’’اطلاعاتی ذخیرے‘‘ نے مجھ جیسے عامیوں کو سوالوں اور جھنجھلاہٹوں کے دریائوں میں غرق کر رکھا ہے جبکہ میرے سامنے پاکستان دولخت ہوا۔ حالات نے ایک ایک اینٹ پر ایک سنگین بردار لاکھڑا کیا ہے۔ وطن کے درودیوار، لوہے کی دیواروں، تاروں، سلاخوں میں منڈھ دیئے گئے ہیں مگر ان جراثیمی روحوں کا ہیجان ویسے کا ویسا ہی ہے، اب تو برسوں سے نامعقول غصہ ہماری روٹین کا حصہ ہے، کراچی میں ہم سب روزانہ اس کی مشق کرتے، اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے ارادوں سے اپنے ماحول میں خطرے کی گھنٹیاں بجا بجا کر ایک دوسرے کی گردنوں پر سوار رہتے ہیں۔
جب ان کی بڑبڑاہٹ حد سے گزر جاتی، مطلب یہ کہ دوستوں کی محفل کا بیڑا غرق کرنے کے مقام پر پہنچ جاتی ہے، تب وہ کہتے ہیں، اچھا میں بڑبڑانا بند کردیتا ہوں، تم لوگ صرف اتنا بتا دو، دوستوفسکی کو ایک کم ڈیڑھ سو برس پہلے اپنے ناول کے کردار رسکو لینسکوف کو حالت سرسام میں یہ خواب دکھانا ضروری تھا؟ اور بھی ایسی کئی باتیں میرے ذہن کو بری طرح گرفت میں لئے ہوئے ہیں، یہ سب دوستوفسکی کے رسکو لینسکوف کے اس سرسامی خواب کا نتیجہ ہے، ہم بھی ٹولیوں میں جمع ہوتے،قسمیں اٹھاتے اور جونہی ٹولی سے باہر آتے ہیں، اپنی اپنی چوریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں، پورے ملک کا ٹریفک، عدل کے سارے ٹھکانے، وفاق ہو یا صوبے، دونوں کے تمام سرکاری محکمے، حکمرانوں کے اربوں کھربوں کے اللے تللے، ان کی قانون شکنیاں، ان کی من مرضیاں، ان کی نسلوں اور ان کے لواحقین کی اندھیر گردیاں، مزدوروں اور ورکروں کی بے توقیری اور بے عزتی کی روزمرہ کہانیاں، قومی ہو یا صوبائی اسمبلیاں، سینیٹ ہو یا یونین کونسلیں، ہمارے زوال کا چہرہ ایک عالم پہ آشکار ہو چکا، خطرے کی گھنٹیوں پر ہم دوڑتے ہیں، جبکہ واقعی یہ پتہ نہیں ہوتا، کون بلا رہا ہے؟
گو رسکو لینسکوف کا یہ کہنا مجھے الہامی سا لگتا ہے: ’’صرف چند سو دنیا میں اس (جراثیمی روحوں کی) بیماری سے محفوظ رہ سکتے تھے، یہ پاک صاف برگزیدہ لوگ تھے جنہیں مقرر کیا گیا تھا کہ لوگوں کی نئی نسل اور نئی زندگی شروع کریں، زمین کی تجدید اور صفائی کریں لیکن ان لوگوں کو کسی نے نہیں دیکھا اور کسی نے ان کی بات اور آواز نہیں سنی ‘‘ ہمارے ساتھ یہ ہو چکا ہے، پاکستان میں ایسے برگزیدہ لوگ موجود تھے، کسی نے ان کی بات اور آواز نہیں سنی، ہم سب ایک دوسرے کو بھنبھوڑنے اور کھانے میں جتے ہوئے ہیں، اخبارات کے صفحات اور ٹی وی سکرینوں پر جو کچھ ہے، اس کے آٹے میں سے نمک کی مقدار نکال کر، باقی سارے کے سارے مناظر جھوٹ، مفادات، خود غرضانہ مصلحت کیشیوں، ظالموں، جابروں، استحصالیوں کی وکالت اور پروجیکشنز سے اٹے ہوئے ہیں، ’’ہم سب سارا دن ایک دوسرے کو قصوروار بتاتے، لڑتے اور مار کاٹ کرتے ہیں‘‘، کیا دوستوفسکی کو پاکستان کے قیام اوراس میں تشکیل پانے والی ایک طبقے کی ذہنی کیفیت کا اندازہ ہوگیا تھا؟ وہ بھی ایک کم ڈیڑھ سو برس پہلے؟