بجلی:بلوں سے زیادہ ٹیکس

October 14, 2016

ایک اخباری رپورٹ میں بجلی کے بلوں کے ذریعے صارفین سے مختلف حیلوں اور بہانوں سے وصول کئے جانے والے ناروا ٹیکسوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں بجلی کے بل کی رقم کے ساتھ ٹی آر، ایف سی، ای ڈی، این جے، پی ٹی وی فیس ملا کر چار قسم کے ٹیکس وصول کرتی ہیں جنہیں مختلف قسم کے سرچارجز کا نام دیا جاتا ہے اور پھر یہ تمام ٹیکس عائد کرنے کے بعد اس پر جنرل سیلز ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ جی ایس ٹی کی مقررہ شرح بظاہر تو17فیصد ہے لیکن ٹیکس در ٹیکس لگنے کے بعد یہ شرح کہیں کی کہیں جاپہنچتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے گردشی قرضوں کے خاتمے اور نئے ڈیموں کی تعمیر کے لئے بھی سرچارج وصول کیا جارہا ہے مگر گردشی قرضے ختم ہونے میں آتے ہیں نہ ڈیم ہی تعمیر ہوتا دکھائی دیتا ہے، اگر اس ساری صورتحال کو عام فہم زبان میں بیان کیا جائے تو یوں سمجھ لیں کہ اگر ایک صارف آف پیک آورز میں300اور پیک آورز میں200یونٹ بجلی استعمال کرے تو اس کو 500یونٹ پر3194روپے ٹیکس کی صورت میں ادا کرنا پڑتے ہیں جبکہ 500یونٹ بجلی کا خرچ 5850روپے ہے اور اگر اس میں سے فیول ایڈجسٹمنٹ کے 3ہزار روپے نکال دئیے جائیں تو اس کا اصل بل 2850روپے بنے گا لیکن اس پر بھی ٹیکس3194روپے ہی ادا کرنا ہوگا جو کہ 100فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ وزیر پانی بجلی کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی پارلیمنٹ کی منظوری سے لگایا گیا ہے جبکہ ٹی آر اورایف سی سرچارج ای سی سی کی منظوری سے نافذ کیا گیا ہے۔2015ء میں بجلی کی تقسیم کار تمام کمپنیوں نے فیصلہ کیا تھا کہ تمام کیٹیگریز کے تحت آنے والے صارفین پر یکساں ٹیرف نافذ کیا جائیگا تاکہ صارفین کے مفادات کا تحفظ ہوسکے ، اگر اس خبر میں دی گئی تفصیل کو سامنے رکھا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ صارفین کو بجلی کے اصل خرچ سے100فیصد سے زائد ٹیکس ادا کرنے پڑرہے ہیں جو ان پر ایک ناقابل برداشت بوجھ ہے جسےکم کرنے کی حکومت کو فوراً کوئی تدبیر کرنی چاہئے۔

.