یکم نومبر سے دو نومبر تک

October 23, 2016

دفاعِ پاکستان کونسل کے ایک وفد نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کی اور انہوں نے مذہبی شخصیات کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بحال کرنے کے حکم جاری کردئیے ہیں۔یہ تمام پاسپورٹ اور شناختی کارڈ شدت پسندوںکی حمایت کرنے کی بنا پر منسوخ کئے گئے تھے ۔وزیر داخلہ سے ملاقات کرنے والے وفد میںکالعدم مذہبی جماعت اہل سنت و الجماعت کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی بھی شامل تھے۔ جن پر ایک طویل عرصے سے اسلام آباد میں داخل ہونے پر پابندی ہے ۔اُس وفد میں حرکت المجاہدین کے بانی اور جہادی رہنما فضل الرحمان خلیل بھی شریک تھےجن کا نام امریکہ نے عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا ہواہے۔دفاع پاکستان کونسل 28 اکتوبرکو اسلام آباد میں ایک بڑے جلسہ کا انعقاد کر رہی ہے۔اُسی روزشیخ رشید حکومت کے خلاف راولپنڈی میں وارم اپ جلسہ کررہے ہیں۔جس میں عمران خان بھی شریک ہوں گے۔ دفاع پاکستان کونسل اور حکومت میں کیا معاملات طے ہوئے ہیں ۔اس کی وضا حت کہیں نہیں دکھائی دیتی۔یہ بات توطے ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ کسی طرح بھی دونومبرکا دھرنا روکا جائے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دفاع پاکستان کونسل کے لوگ عمران خان کی حمایت میں باہر نکل رہے ہیں۔اُنہی لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ عمران خان کا دو نومبر کا دھرنا مارشل لاکا راستہ ہموار کرنے کےلئے ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دفاع پاکستان کونسل میں شامل تمام تنظیمیں و ہ ہیں جو افغان طالبان کی حمایت کرتی ہیں اور پاکستانی طالبان کےلئے ہمدردی کا جذبہ رکھتی ہیں ۔فوج کا کردار ان کےلئے بہت زیادہ تکلیف دہ ہے ۔ ضرب عضب سے متعلق ان کے خیال سے پوری قوم واقف ہے ۔سو دفاع پاکستان کونسل کیسے اس بات کو پسند کر سکتی ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ اور زیادہ با اختیار ہو۔وزیرستان کی مکمل صفائی کے بعداب دفاع پاکستان کونسل کی زیادہ طاقت پنجاب میں ہی رہ گئی ہے اور یہ بھی ایک سلگتا ہوا سچ ہے کہ پنجاب حکومت ،پنجاب میں رینجرز کی آمد کی سخت مخالف ہے ۔پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے بیانات سب کے سامنے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے افواج پاکستان ابھی تک پنجاب میں دہشت گردی اور دہشت گردی سے جڑی ہوئی کرپشن کے خلاف بھرپور کارروائی نہیں کرسکی ۔
دوسری طرف تحریک انصاف اس بات پر بھی پوری سنجیدگی سے غور کررہی ہے کہ کہیں دو نومبر کے دھرنے میں مسلح افراد کو شامل کرکےخونریزی کرانے کاکوئی منصوبہ کامیاب نہ ہوجائے ۔تحریک انصاف کی اطلاعات کے مطابق کچھ لوگ پولیس کی وردیوں میں نہتے احتجاجیوں پر فائرنگ کرسکتے ہیں اورجواباً کچھ لوگ پولیس کے اصل سپاہیوں پر فائرنگ کرکے انہیں ہلاک کر سکتے ہیں ۔اس بات پر بھی غور کیا جارہا ہے کہ جس طرح کہا جاتا ہے کہ ماڈل ٹائون میں چودہ لوگوں کو شہید کرنے والی 92 معصوموں کو زخمی کرنے والی پولیس میں کچھ دہشت گردایسے بھی تھے جنہوں نے پولیس کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں۔کہیں ویسی ہی کسی کارروائی کا تحریک انصاف کو سامنا نہ کرنا پڑ جائے ۔یہ پلان بھی ترتیب دیا جارہا ہے کہ اگر حکومت دھرنے کو روکنے کی کوشش کرے تو دھرنا صرف اسلام آباد تک محدود نہ رہے بلکہ پورے ملک میں پھیل جائے۔اس سلسلے میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ جہاں جہاں کسی جلوس کوروکنے کی کوشش کی جائے ۔لوگوں کو چاہئے کہ وہیں بیٹھ جائیں اور اسی روڈ کو بلاک کردیں ۔اگر پولیس ایک جگہ سے ہٹانے میں کامیاب ہوجائے تو دوسری جگہ جاکر بیٹھا جائے۔اسلام آباد اور راولپنڈی کی سڑکیں تو خود اِنہی شہروں میں رہنے والے بلاک کریں گے ۔کئی لوگ اپنے گھروں کے باہر سے گزرنے والی سڑکوں کو بند کرنے کی پلاننگ کر رہے ہیں ۔سڑکوں پر ہی کھانے پکائے جائیں گے ۔اور وہیں بیٹھ کر کھانے کھائے بھی جائیں گے ۔بلکہ سڑکوں پر دعوتوں کےاہتمام کا بھی سوچا جارہا ہے ۔جن میں میوزک کے طور پر پی ٹی آئی کے ترانے پوری آواز سے بجائے جائیں گے ۔لوگ اپنی گاڑیاں سڑکوں پر کھڑی کر کے خود گاڑیوں کے پہیوں سے ہوا نکال دیں گے ۔بلکہ کچھ نوجوان ایسی گاڑیوں کی تلاش میں بھی ہیں جن کے پہیے اتار کر انہیں رستوں پر کھڑا کردیا جائے ۔پہلے راستے پولیس بند کیا کرتی تھی کنٹینر لگا کر ۔اس مرتبہ راستے تحریک انصاف کے کارکن بند کریں گے ۔ایک امکان یہ بھی پیدا ہوچکا ہے کہ ممکن ہے سپریم کورٹ اس دھرنے سے پہلے کوئی ایسا فیصلہ دے دے۔
جس کی بدولت تحریک انصاف کو اپنادھرنا منسوخ کرنا پڑ جائے ۔ سپریم کورٹ نے پاناما کیس سے متعلق کارروائی کےلئے پانچ نومبر کی تاریخ تبدیل کرکے یکم نومبر کردی ہے۔یعنی سپریم کورٹ کو پوری طرح دو نومبر کی اہمیت کا احساس ہے۔ اس کیس میں کوئی لمبی چوڑی تحقیق و تفتیش کا تو معاملہ ہےہی نہیں۔ شریف فیملی کے افراد کے ویڈیوزعدالت کو پیش کر دئیے گئے ہیں جس میں اُنہوں نے مختلف ادوار میں لندن میں پراپرٹیز خریدنے کا اقرار کیا ہے ۔وہ جائیدادجس دولت سے خریدی گئی وہ کہاں سے آتی تھی اگرچہ یہ سوال بحث طلب ہے مگر سپریم کورٹ تو صرف اس بات پر بھی فیصلہ سنا سکتی ہے کہ شریف فیملی نے اپنے یہ اثاثے پچھلے کئی انتخابات کے دوران کہیں بھی ڈکلیئر نہیں کئےجن کے ہونے کا وہ ویڈیوز میں اقرار کر رہے ہیں ۔اس بات کا امکان بھی ہے کہ جن ٹی او آرز پر اپورزیشن جوڈیشل کمیشن بنوانا چاہتی ہے ۔یکم نومبر کو سپریم کورٹ اُنہی ٹی او آرز پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دے۔یعنی عمران خان کے لفظوں میں ’’تلاشی ‘‘ کا عمل شروع کرادے۔
دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ ایک غلط خبر فیڈ کرنے پر وزیراعظم ہائوس سےسخت ناراض ہے اور خودمتعلقہ لوگوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہ رہی ہے۔اس سلسلے میں کچھ اداروں کو خصوصی اختیارات بھی دے دئیے گئے ہیں ۔ کالعدم تنظیموں کے لیڈروں کے پاسپورٹس کی بحالی بھی ضرب عضب میں مصروف فوج کےلئے تکلیف دہ بات ہے۔یہ بات بھی پسند کی نظر سے نہیں دیکھی جا رہی ہے کہ عمران خان کے دھرنے کو پھراسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔اس بات کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جارہا کہ خورشید شاہ کچھ حکومتی ارکان کے کہنے پرحکومت سے سوال کر رہے ہیں کہ ابھی تک حکومت نے نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان کیوں نہیں کیا۔



.