’’چیف جسٹس پاکستان ‘‘ عمران خان سے !

October 24, 2016

کچھ موضوعات ایسےہوتے ہیں جن پر لکھنے کو بالکل جی نہیں چاہتا۔ ان میں سے ایک موضوع عمران خان کا عجیب وغریب رویہ ہے ۔ ہر سیاسی جماعت کی سیاسی جدوجہد کا مقصد اقتدار میں آکر پاکستان کو اپنے نظریات کے مطابق ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے ۔ ان میں سے کچھ جماعتیں کچھ عرصے کے لئے کامیاب ہوتی ہیں عوام انہیں منتخب کرتے ہیں اور وہ ملک کا اقتدار سنبھال لیتی ہیں۔ لیکن اگر عوام ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوتے تو آئندہ الیکشن میں عوام انہیں ووٹ نہیں دیتے اور وہ اقتدار سے علیحدگی اختیار کر لیتی ہیں تاہم کچھ جماعتیں ایسی بھی ہیں جو اپنی تمام تر سیاسی جدوجہد کے باوجود آج تک اقتدار میں نہیں آ سکیں ۔ ان میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور بعض دوسری جماعتیں شامل ہیں جنہیں اقتدار میں جزوی نوعیت کا حصہ ملا لیکن ملک کی زمام کار ان کے ہاتھ میں نہ آئی تاہم ان سب جماعتوں نے اپنی ناکامی کو کبھی ریاستی اداروں کے کھاتے میں نہیں ڈالا ۔ برسر اقتدار حکومتوں پر تو دھاندلی کے الزامات لگائے لیکن کسی ریاستی ادارے کو اپنی ناکامی میں پارٹی قرار نہیں دیا مگر عمران خان واحد سیاسی (؟) رہنما ہیں جو اپنی ہر ناکامی کا الزام حکومت کو چھوڑیں ریاستی اداروں کو دیتے ہیں ۔ صرف کے پی میں اپنی حکومت کے قیام کو انہوں نے جائز تسلیم کیا کیونکہ وہاں ان کی جماعت کامیاب ہو گئی تھی اور میری یہ بات نوٹ کر لیں کہ اب کے پی کے عوام اپنے ووٹوں کے ضیاع پر پچھتا رہے ہیں اور میں پورے یقین سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ آئندہ الیکشن میں عمران خان کو وہاں بھی شکست فاش ہو گی اور یوں وہ وہاں اپنی حکومت نہیں بنا سکیں گے ۔
جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ عمران خان کے بارے میں لکھنے کو میرا جی نہیں چاہتا مگر ان کا ہر بیان اتنا IRRITATINGہوتا ہے کہ مجبوراً قلم اٹھانا پڑتا ہے ابھی گزشتہ روز انہوں نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’نواز شریف کے خلاف کسی عدالتی فیصلے کی ضرورت نہیں ‘‘ گویا انہوں نے سپریم کورٹ کو پیغام دیا ہے کہ آپ خود کو کیا سمجھ رہے ہیں آپ کا خیال ہے کہ جو فیصلہ آپ دیں گے وہ میں مان لوں گا ۔میں فیصلہ صرف اور صرف چیف جسٹس کا مانوں گا اور چیف جسٹس میں خود ہوں ۔ حالانکہ سپریم کوٹ کے موجودہ چیف جسٹس سے گزشتہ دنوں ایک ایسا بیان منسوب کیا گیا جس سے لگتا تھا کہ وہ موجودہ حکومت کے سخت مخالف ہیں اور یوں وہ عمران خان کی آواز میں اپنی آواز ملا رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ بیان محض کذب بیانی تھا جس کی پرزور تردید بلکہ احتجاج سپریم کورٹ کی طرف سے کیا گیا۔ چنانچہ عمران خان کا حالیہ بیان اسی تناظر میں لگتا ہے کہ (جناب چیف جسٹس) ’’نواز شریف کے خلاف کسی عدالتی فیصلے کی ضرورت نہیں!‘‘ پاکستان کے باشعور طبقوں میں عمران خان کے ذہنی رویے کےبارے میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ وہ اقتدار کے حصول کے لئے اپنے ہوش و حواس گم کر چکے ہیں اور عوام کے ووٹوں کےبغیر اسلام آباد پر قبضہ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں ۔یہ سوچ ایک طرح کا MENTAL DISORDER ہے جو پے در پے ناکامیوں کی صورت میں جنم لیتا ہے۔ 2013 کے انتخابات میں عوام نے انہیں رد کیا، بلدیاتی انتخابات میں عوام نے انہیں بہت بری طرح شکست دی۔ کنٹونمنٹ کے انتخابات میں شکست ان کا مقدر بنی۔ ضمنی انتخابات میں وہ اپنی ان نشستوںسے بھی ہاتھ دھو بیٹھے جہاں وہ پہلے کامیاب ہوئے تھے ۔ گلگت بلتستان میں انہیں منہ کی کھانا پڑی اور آزاد کشمیر کے انتخابات میں تو ان کی جماعت پر جھاڑو ہی پھر گیا۔اس کے بعد خان صاحب کیا کریں۔ اسلام آباد پر چڑھائی کرکے اسے ’’فتح‘‘ کرکے، اپنی بادشاہت کا اعلان کرنے کے علاوہ ان کے پاس کیا ’’آپشن‘‘ رہ گئی ہے؟
لیکن کیا وہ ایسا کرسکیں گے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ وہ ترقی کی راہ پر گامزن پاکستان کو ایک بار پیچھے دھکیل دیں گے۔ کوشش کریں گے کہ اپنے دس بارہ کارکنوں کی لاشوں کا ’’بلیدان‘‘ دے کر تخت پر بیٹھ سکیں۔ انارکی پیدا کرکے کسی تیسری طاقت کو آواز دیں گے۔ لیکن ان کے ہاتھ پھربھی کچھ نہیں آئے گا،وہ ’’اب کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے۔‘‘کے موڈ میں ہیں مگر یاد رکھیں ایک چیز عوام کی منتخب حکومت بھی ہوتی ہے ۔عوام اس کی پشت پر ہوتے ہیں اسلام آباد پر قبضہ حکومت پر نہیں ریاست پاکستان پر حملہ ہے اور حکومت ہی نہیں کوئی ریاستی ادارہ بھی یہ برداشت نہیں کرےگا ۔!
خان صاحب پاکستان نے آپ کو بہت کچھ دیا ہے خدا کے لئے اپنی ذاتی ناکامیوں کا بدلہ اس ملک اور اس کے عوام سے نہ لیں اگر آپ اب بھی باز نہ آئے تو تاریخ میں آپ کا حوالہ اچھے لفظوں میں نہیں آئے گا ۔


.