کرنسی نوٹوںکا بحران اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت

December 01, 2016

دنیا میں غریبوں کی غالب اکثریت کے مقابلے میں امیر لوگ انتہائی قلیل تعداد میں ہوتے ہیں چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ امیر آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں مگر جمہوریت کے اصولو ںاور ضابطوں کی زبانی باتیں کرنےوالے معاشروں میں اکثریت کے آٹے پر اقلیت کے آٹے کا حکم چلتا ہے اور اس کی سب سے بری اور سب سے بڑی مثال ہندوستان ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے کے باوصف جمہوریت کے اصولوں اور ضابطوں کی سب سے بڑی خلاف ورزی کا نشانہ بننے والے غریبوں کا ملک ہے جس پر امیر طبقے کے حکمرانوں کی حکومت ہے۔
غریبوں کی غالب اکثریت اور امیروں کی انتہائی قلت سے بھی زیادہ خطرناک حقیقت غریبوں کی غربت اور امیروں کی امارت کے درمیان فرق ہوتا ہے اور ہندوستان میں یہ خطرناک حقیقت دنیا کے دیگر تمام ملکوں میں پائی جانے والی غربت اور امارت کے فرق سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ یہ فرق پاکستان میں اور دیگر بہت سے ملکوں میں بھی ہوگا مگر ہندوستان میں غربت انسانیت کو ذلت کی انتہائوں تک لے جانےوالی ہے اور امارت کو انسانیت کے تمام تقاضوں سے ماورا کرنے والی ہے۔ غریبوں کو توفیق نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو انسان ثابت کرسکیں اور امیروں کو ضرورت ہی نہیں ہے کہ وہ انسان بننے کی کوشش کریں یعنی دونوں حالتوں میں انسانیت کو قتل کیا جارہا ہے اور یہ وہ قتل ہے کہ جس کا الزام پاکستان پر عائد نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح پاکستان کی انتظامیہ انتہائی مشکل حالات میں ڈبل سواری پر پابندی عائد کرنے کا نسخہ آزماتی ہے ویسے ہی ہندوستان کے نابغوں نے کالی دولت اور حرام کی کمائی کو حدود اور قیود سے تجاوز کرنے سے روکنے کے لئے قیمتی کرنسی نوٹوں کو متروک قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے جس سے پورے ہندوستان میں غریبوں اور امیروں کے طبقوں میںحکومت کے خلاف احتجاج کی صدائیں بلند ہونے لگی ہیں اور کرنسی نوٹوں کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ کئی شہرو ں میں ہنگامے ہو رہے ہیں، پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے لگائے جارہے ہیں، لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں اور ٹرینوں کو بھی روکا جارہا ہے۔ اس دوران اگر کسی انتہائی ناخوشگوار حادثے کے رونما ہونے سے چند زندگیاں تلف ہوگئیں تو ان کا الزام پاکستان پر عائدکرنے کی کوشش کی جائے گی۔ امیروں کو اور زیادہ امیر بنانے اور غریبوں کی غربت کے رقبے کو وسعت دینے والے سرمایہ داری نظام کے ’’مودی ازم‘‘ میں نریندر مودی کا ’’مودی ازم‘‘شائد نہیں چل سکے گا اور حرام کی کمائی اور ناجائز دولت کو کنٹرول کرنا شاید مودی سرکار کے لئے مشکل ہو جائے گا۔ قومی معیشت کو عالمی بنک کے حکم کے تحت ’’ڈرائی کلین‘‘ کرنے کی کوشش مودی سرکار کے وجود کو مشکوک بنا سکتی ہے۔ غریبوں کی غالب اکثریت اگر مودی سرکار کاکچھ نہیں بگاڑ سکتی تو امیروں کی اقلیت ان کے خلاف نبردآزما ہونے کی کوشش کرسکتی ہے۔ کرنسی کے بحران کے ہنگاموں میں سے کوئی عوامی تحریک بھی ابھر سکتی ہے اور جائز کمائی والے غریبوں کا احتجاج میں حصہ لینا حکمرانوں کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

.