ماضی اور حال

December 04, 2016

آج لکھنے کو جی نہیں چاہ رہا کیونکہ تین دسمبر کے حوالے سے طبیعت پر اداسی اور صدمے کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ تین دسمبر کو کیا ہوا؟ ہماری جوان نسلوں کو شاید یاد بھی نہیں ہوگا۔ دوستو تاریخ پڑھتے رہا کرو کہ تاریخ قوم کا حافظہ ہوتی ہے۔ تاریخ پڑھنی چھوڑ دیں تو حافظے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے اس لئے اگر اسے غور سے پڑھ کر سبق حاصل کیا جائے تو ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ آج میں اس حوالے سے کچھ عرض کروں گا اور اپنا درد بانٹوں گا۔ تین دسمبر وہ دن ہے جس روز ہندوستان نے 1971ء میں مکتی باہنی کی آڑ میں مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تھا اور 16 دسمبر کے دن پاکستان کو بزور فوجی قوت توڑ دیا تھا۔ آج میں اس حوالے سے موجودہ صورتحال کے باطن میں پوشیدہ خطرات کا ذکر کروں گا اور ہندوستانی حکمت عملی پر تھوڑی سی روشنی ڈالوں گا۔ چند روز قبل میں ایک ہندوستانی چینل پر ایک ممتاز ہندو تجزیہ نگار اور ایک سابق ہندوستانی فوجی کی گفتگو سن رہا تھا۔ گفتگو کے دوران میرا ذہن تاریخ کے صفحات کھنگال رہا تھا۔ دونوں تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ دسمبر 1971ء میں ہندوستان کا مشرقی پاکستان پر حملہ بالکل جائز تھا کیونکہ پاکستان نے بنگالیوں کو غلام بنا رکھا تھا، ان سے بے انصافیاں اور زیادتیاں کی گئی تھیں اور وہاں سے لاکھوں بنگالی پناہ لینے ہندوستان آگئے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مشرقی پاکستان میں یحییٰ خان کے آرمی ایکشن (مارچ 71) میں قتل و غارت ہوا، کتنے ہی معصوم شہری اس کی لپیٹ میں آئے۔ اس بحث میں پڑنے کا یہ موقع نہیں کہ کیا فوجی ایکشن ناگزیر ہوگیا تھا لیکن یہ بات اپنی جگہ قابل غور ہے کہ حالات کو اس قدر کیوں بگڑنے دیا گیا کہ ملٹری ایکشن کرنا پڑا؟ سول نافرمانی، بغاوت، غیربنگالیوں کا قتل عام اور فوجیوں پرحملوں سے پہلے بگڑتی صورت حال کے تیور دیکھ کر بحران سے نکلنے کا راستہ کیوں نہ بنایا گیا؟ کیا فوجی حکمران اس چیلنج سے نپٹنے کی صلاحیت اور وژن سے محروم تھے یا مشرقی پاکستان سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے جس کے لئے یہ راستہ اختیار کیا گیا۔ بات قدرے دور چلی گئی۔ یہ رام کہانی لکھنے کا مقصد فقط یہ تھا کہ ہندوستان کے دانشوروں کی اکثریت، عوام اور سیاستدان بلکہ حکمران پڑوسی ملک کی ’’غلام‘‘ رعایا کو فوجی طاقت کے ذریعے آزادی دلوانا اپنا حق سمجھتے ہیں ’’غلامی‘‘ کا فیصلہ بھی وہ خود کرتے ہیں اور اس کی تشریح کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔ فی الحال اس تضاد پر بحث بھی میرا موضوع نہیں کہ خود ہندوستان مقبوضہ کشمیر کو بزور شمشیر دبائے بیٹھا ہے، آزادی کی تحریک کو اسلحے سے کچل رہا ہے، ہزاروں حریت پسندوں اور مجاہدین کو شہید کر چکا ہے، لاکھوں خواتین کی عصمت لوٹ چکا ہے لیکن اس کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں اور ہندوستانی دانشوروں کی بہت بڑی اکثریت حکومتی ایکشن کی حامی ہے۔ ارون دتی جیسی آوازیں چند ہیں جو انسانی احساسات اور حقوق کی ترجمانی کرتی ہیں۔ باقی سب پاکستان کے خون کے پیاسے..... مقبوضہ کشمیر کے علاوہ ہندوستان میں کوئی پندرہ علیحدگی پسند تحریکیں متحرک ہیں جن میں میزو اور خالصتان خطرناک ہیں لیکن ہندوستان انہیں قوت سے دبائے بیٹھا ہے اور ہمسایہ ملک کے ’’غلاموں‘‘ کی آزادی کے منصوبے بنا رہا ہے۔ یہ درراصل ہندوستان کا سپر پاور بننے اور علاقائی تھانے دار کا کردار ادا کرنے کا زعم بلکہ خواب ہے۔
ذرا تھوڑا سا مستقبل کی آنکھ سے دیکھیں۔ ہندوستان دنیا بھر سے اسلحہ اور جنگی سامان اکٹھا کررہا ہے۔ بظاہر مقابلہ چین کا لیکن اندرونی اداروں کا نشانہ پاکستان ہے۔ بلوچستان میں ’’را‘‘ کے متحرک ہونے کا مقصد وہی ہے جو مشرقی پاکستان میں تھا۔ چونکہ ہندوستان بلوچستان سے جغرافیائی طور پر دور ہے چنانچہ اس مسئلے کا حل افغانستان سے محبت اور قربت میں پایا گیا ہے۔ ہندوستان نے افغانستان پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے اسے تقریباً اپنا سیٹلائٹ یا از قسم کالونی بنا لیا ہے۔ افغانستان پاکستان بارڈر پر درجنوں ہندوستانی قونصلیٹ دن رات پاکستان کے خلاف کام میں مصروف ہیں لیکن انہیں فقط یہی کام دیا گیا ہے۔ صدر اشرف غنی دن رات پاکستان پر دہشت گردی کے الزام کی رٹ لگاتے اور افغانستان کے تمام مسائل کے لئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ اشرف غنی نے برسراقتدار آکر پاکستان سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا تاثر دیا لیکن افسوس کہ ہم ان کا ہاتھ تھام نہ سکے۔ نہ جانے کمند کہاں ٹوٹی لیکن کمند ٹوٹتے ہی اشرف غنی ہندوستان کی گود میں جا بیٹھے۔ حالات مختلف سہی، حکمت عملی وہی ہے۔ 1971ء میں ہندوستان نے نہایت منظم، موثر اور متحرک پروپیگنڈے کے ذریعے پاکستان کو دنیا بھر میں بنگالیوں کا قاتل قرار دے کر پاکستان کو نہ صرف عالمی رائے کی ہمدردی سے محروم کردیا بلکہ عالمی میڈیا کو بھی مخالف کردیا۔ آج ہندوستان اور اس کے ساتھ افغانستان مل کر دنیا بھر میں پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دے رہے ہیں۔ اس الزام کو میڈیا کی طاقت سے دنیا بھر میں پھیلا دیا گیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی برآمد کرتا ہے، پاکستان دہشت گردی کی ماں ہے اور پاکستان دنیا کے لئے خطرہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہم اس منظم مہم کا توڑ کرنا تو دور کی بات ہے اس کا معقول جواب بھی نہیں دے سکے۔ حکمران ذاتی الزامات کے بوجھ تلے دبے ہیں انہیں ان خطرات کا ادراک ہے نہ ان سے نبٹنے کا وژن اور نہ فرصت۔
اندراگاندھی نے 1971ء میں پاکستان کو توڑنے کی جو حکمت عملی بنائی تھی اس کا اہم ترین پہلو پاکستان کو تنہا کرنا تھا۔ اندرا نے دنیا بھر کے دورے کئے، بہت سے ممالک اور خاص طور پر اہم ممالک کے سربراہوں سے ملی اور بنگالیوں پر پاکستان کے مظالم کی مبالغہ آمیز نقشہ کشی کرتی رہی۔ پاکستان کی نااہل قیادت خاموشی سے عالمی منظر بدلتے دیکھتی رہی اور امریکی دوستی اور چینی حمایت پر تکیہ کئے بڑھکیں مارتی رہی۔ ہندوستانی حملے کے دوران کہیں سے کوئی مدد نہ آئی اور نہ ہی ایسی مدد کی توقع کرنی چاہئے۔ اس تجربے کو آئندہ کے لئے بھی ذہن میں رکھیں اور غیر حقیقی توقعات کے جال سے نکلیں۔ اپنے دامن کو لگی آگ خود ہی بجھانی پڑتی ہے۔ آج ہندوستان نہ صرف پاکستان کو کسی حد تک تنہا کر چکا ہے بلکہ اس کا برملا اظہار کرنے کی بھی جسارت کرتا ہے۔ کالم کا دامن تنگ ہے۔ مطلب تاریخی واقعات کا موجودہ صورت حال پر اطلاق کر کے آپ کو خبردار کرنا اور جگانا ہے۔ کاش ہمارے حکمران تاریخ سے سبق سیکھیں اور ان خطرات سے عہدہ برآ ہونے کے لئے نہایت موثر اور متحرک حکمت عملی بنائیں جو ہمیں نظر بھی آئے اور جس کے اثرات عالمی سطح پر بھی مرتب ہوتے دکھائی دیں۔






.