بلیک فرائیڈے

December 04, 2016

پاکستان میں آج کل مذہبی حلقوں میں بلیک فرائیڈے پر بڑی تنقید ہورہی ہیں ۔خصوصاً لفظ جمعہ کے نام پر، مغرب میں اُس بلیک جمعہ کو خصوصی رعایت پر بازار لگتے ہیں ۔50فیصد سے 70فیصد تک اشیاء پر سیل لگتی ہے اور عوام اس موقع سے فائدہ اُٹھاکر بہت زیادہ خریداری کرتے ہیں۔اس طرح کی سیل سال میں مختلف موقعوں پر لگتی رہتی ہے۔مثلا ایک سیل گرمیوں کے شروع میں سمر سیل کہلاتی ہے اُس پر ہلکے پھلکے کپڑے خصوصی طور پر خریدے جاتے ہیں ۔اُن کے ساتھ دیگر اشیاء بھی شامل کرکے کاروبار بڑھایا جاتا ہے ۔پھر سردی آنے سے پہلے بھی سردیوں کے کپڑے سیل پر لگا دیئے جاتے ہیں۔جس سے کم قیمت پر عوام گرم کپڑے خرید کر کافی بچت کرتے ہیں ۔پھر کرسمس پر بہت بڑی سیل سے ہر ایک کو تہوار منانے میں آسانی ہوجاتی ہے اور تحفے تخائف بھی سستے کرکے عوام کو خوش کیا جاتا ہے۔بڑے بڑے ادارے اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔پھر یہ سیل بڑھتے بڑھتے نیو ائیرمیں داخل ہوجاتی ہے ۔جو چیز خریدنے سے رہ جاتی ہے وہ نیو ائیر یعنی نئے سال کے شروع میںلگنے والی سیل سے خریدی جاتی ہے۔سب سے زیادہ رش امریکہ ،کینیڈااور یورپ میں باکسنگ ڈے کےنام سے سیل میں ہوتا ہے جس میں وہ سامان جو سارے سال بکنے سے رہ جاتا ہے اُس کو ختم کرنے کی غرض سے ایک دن یعنی نئے سال کی رات سے لے کر دوسرے دن تک سیل لگائی جاتی ہے ۔جس کو اب ایک ہفتے تک بڑھادیا گیا ہے۔اور آپ پورے ہفتے جو سامان بچ جاتا ہے خرید سکتے ہیں ۔اس کے پیچھے ایک کامیاب اکانومی اصول ہے ایک طرف تمام پُرانا سامان ختم ہوجاتاہے ،شیلف خالی ہوجاتے ہیں ،پیسے وصول ہوجاتے ہیں اور پھر نئے نئے ڈیزائن متعارف کرائے جاتے ہیں ۔اور پھر سے خریداروں کو للچایاجاتاہے کہ نئے نئے کپڑے ،چیزیں خریدیں ۔اُس سے نئی کمائی کا راستہ کھلتا ہے۔ملک میں نئے نئے کارخانے وجود میں آتے ہیں ۔عوام کو روزگار ملتا ہے اور گلشن کا کاروبار کامیابی سے چلتا رہتا ہے ۔اس موقع پر ہوائی جہاز کے کرائے بھی کم ہوتے ہیں ۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اول تو ایسے مواقع عوام کو نہیں دیئے جاتے اُلٹا مذہبی تہواروں پر قیمتیں دُگنی تگنی کرکے مسلمانوں کا تہوار دشوارکردیاجاتا ہے۔مثلا رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی کھانے پینے کی اشیاء تمام بازاروں میں ازخود مہنگی کردی جاتی ہیں۔رمضان کے آخری عشرے میں کپڑوں ،جوتوں اور سامان آرائش بھی مہنگا کردیا جاتاہے۔
ہر سال مقامی انتظامیہ دکانداروں کو وارننگ دیتی ہے ۔چند دن پکڑدھکڑہوتی ہے پھر ہرسال کی طرح بقایا دن اُسی طرح مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔یہ حلقے اُس کے خلاف کیوں مہم نہیں چلاتے ،مہنگا بیچنے والوں کے خلاف کیوں خاموش رہتے ہیں ۔مگر جب بلیک جمعہ کے نام پر سستے داموں اشیاء کی فروخت بڑے اسٹوروالوں نے شروع کی تو یہ اُس کے خلاف ہوگئے۔مغربی ،یہودی طرز تجارت کا نام لگادیا اور مسلمانوں کو سستے داموں فروخت کرنے سے منع کردیا ۔اور خریداری اورفروخت کو حرام قرار دے دیا۔اول یہ نام مغربی ممالک نے خود رکھا ہے۔جیسے سنڈے بازار ،منگل بازار ،ویک اینڈ بازار وغیرہ وغیرہ ،کبھی ہمارے مذہبی حلقوں نے یہ بھی بتایا کہ مغرب والوں نے تمام اچھے اصول جو اسلام نے وضع کئے مثلاً سچ بولنا ،فروخت شدہ مال واپس لینا یعنی خراب یا نا پسند مال اگر خریدار واپس کرنا چاہے تو وہ واپس لے کر رقم لوٹا دینا ، اپنائے ہیں۔ان یہودی اور عیسائی ممالک میں قانون کی حکمرانی ہے۔کوئی رشوت ،سفارش کام نہیں آتی نہ رشتہ داریاں کام آتی ہیں جو حق پر ہے وہ صحیح ہے اس کے خلاف کبھی ہمارے یہ حلقے نہیں بولتے۔ جب سرسید احمد خان نے انگریزی تعلیم پڑھنے کی مہم چلائی تاکہ مسلمان غیر ملکی زبان پڑھ کر آگے بڑ ھیں تو اُن کے خلا ف ہوگئے ۔قائداعظم نے ہندوستان کی تقسیم اور مسلمانوں کا الگ ملک بنانے کی کوشش شروع کی تو بھارتی ہندوئوں سے زیادہ انہوں نے مخالفت کی اور قائداعظم کو کافر قرار دیا ۔اور یہی حلقے چاند پر جانے پر بھی لاحول پڑھتے تھے ۔شروع شروع میں تو تصویر کھنچوانے پر بھی فتویٰ،اذان لائوڈ اسپیکر سے منع کی گئی ۔آج کے موجودہ دور میں کچھ حلقے نماز بھی لائوڈا سپیکر سے نہیں پڑھاتے ۔ حکومت نے جودرجنوں ٹیکس لگائے ہوئے ہیں اس کے خلاف کیوں فتویٰ نہیں دیا جاتا ۔اسلام میں زکوٰۃکے علاوہ مسلمانوں پر کوئی ٹیکس نہیں اُس پر کیوں خاموش رہتے ہیں ۔خو د جب پرویزمشرف کے دور میں ایم ایم اے کے نام پر سیاسی گٹھ جوڑ بنا اور بہت بڑی تعداد میں مذہبی رہنما قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچے تو کیا انہوں نے ان غیر اسلامی ٹیکسوں کے خلاف کوئی کارروائی کی،اسلامی نظام نافذ کیا ۔شیورکی مرغی حرام اور سیاسی رشوتیں لے کر بڑی بڑی وزراتیں ،پرمٹ ،مراعات حلال ہیں ۔کبھی ہندی رسومات ،شادی کی رسومات ،پتنگ بازی کی رسومات کے خلاف مہم چلائی گئی ۔فتووں کابازار لگا ہواہے ،ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر مذہبی آڑ میں عوام کو بیوقوف بناکر ان میں تفرقہ ڈال کر لڑایا جاتا ہے ۔دنیا چاند پر جا رہی ہے۔روز روز نئی ایجادات کررہی ہے۔ہم نہ خودترقی کررہے ہیں اور نہ ہی عوام کو ترقی کرنے دینا چاہتے ہیں۔ہم کب تک فرقوں میں بٹے رہیںگے۔ یہ حلقےایک طرف حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں تو دوسری طرف عوام بیوقوف کو بناکر اپنے پیٹ بھر رہے ہیں ۔




.