مردِ حُر اور محب وطن سیاستدان کی واپسی

December 21, 2016

چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والدگرامی، سابق صدر پاکستان اور پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کی وطن آمد کا اعلان کردیا ہے۔ کراچی میں 18دسمبر کو ایک پریس کانفرنس میں جواں سال چیئرمین نےبتایا ’’آصف علی زرداری 23دسمبر کو پاکستان تشریف لا رہے ہیں‘‘ یہ وضاحت بھی وطن عزیزکے سیاسی پس منظر میں لازم تھی یعنی ’’جناب زرداری کی وطن واپسی کسی پس پردہ سرگرمیوں یا سفارتکاری کا نتیجہ نہیں، وہ جمہوریت کی خاطرآرہے ہیں‘‘
یاد رہنا چاہئے ، یادکرانے میں حرج بھی کوئی نہیں، سابق صدر محترم 25جون 2015کو بیرون ملک گئے تھے۔ وطن سے باہر انہوں نے 18ماہ گزارے۔ ملک سے ان کی اس طویل عدم موجودگی کو خودساختہ جلاوطنی کی اصطلاح کا نام دیاگیا، یہ علیحدہ بات ہے جناب زرداری کا اپنا قول ہی دراصل بنیادی صداقت اور واقعیت پر مبنی ہے، ان کے مطابق ’’پہلی بات یہ کہ میں جلاوطن نہیں ہوں۔ میں پاکستان سے باہر ضرور ہوں لیکن سیاست میں دیکھنا پڑتا ہے کہ وقت کا تقاضا کیا ہے۔ اس وقت ٹائم ایسا تھا کہ مجھے تھوڑا بیک سیٹ لینا پڑی۔ میں چاہتا تھا کہ بلاول بھی آگے آئے۔ ذمہ داریاں اس پرجائیں، و ہ بھی کچھ سیکھ سکے، بزرگ یا بڑے جگہ نہ دیں تو نیاپودا اُگ نہیں سکتا۔ اب وہ پودا اُگ رہا ہے، آپ دیکھ رہےہیں، ماشااللہ! اپناکام وہ بہت اچھےطریقے سے کر رہاہے۔ عنقریب آپ کو میں بھی پاکستان میں نظر آئوں گا۔‘‘ وہ ’’عنقریب‘‘ 23دسمبر کو سابق صدر کی متوقع آمد کے طور پر ایک روز بعد طلوع ہو رہاہے۔ جناب زرداری کا یہ مکالمہ اینکرپرسن حامد میر کے ساتھ ہوا۔
25جون 2015کو ملک سے روانگی کامعاملہ جناب زرداری کی اس تقریر سے بھی نتھی کیا جاتا رہا جس میں بلاشبہ افواج پاکستان کا ادارہ ہی زیربحث تھا۔ پارٹی کی جانب سے ان دنوں پیش کردہ تعبیر سچ کے فطری وجود کی تردید تھی۔ ہاں! سابق صدر کی اس تقریر، اشاروں اور بیانیہ کا افواج پاکستان کے ادارے کو نشانہ بنانے سے کوئی تعلق نہ تھا، نہ ہے، ان کی وہ تقریر، اشارے اوربیانیہ دراصل اپنی حقیقی تاریخی جبلت میں ان ابواب پر مشتمل تھا جن کے عنوانات 1958، 1969، 1977 اور 1999ہیں، جب جب ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ سے انحراف کے اقدامات اٹھائے گئے! ان حقائق کا تذکرہ یا اظہارکسی پرتنقید نہیںان طالع آزماافراد کو ریکارڈ پر لانا تھا جنہوں نےاپنے ادارے کاامیج مسخ کیا یامسخ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، دوبارہ تھوڑی دیر کے لئے بلاول کی پریس کانفرنس کارخ کرتے ہیں!
جواں سال چیئرمین نے اس اعلان کے حوالے سے ایک بہت ہی جاگتا ہوا سیاسی جملہ کہا۔ کہتے ہیں ’’اگرآصف علی زرداری ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہم وفاق سے اپنے چار مطالبات منواسکیں گے۔‘‘ بلاول کے اس خیال کی مزید تشریح بعد میں، پہلے پیپلزپارٹی کےوہ چارمطالبات ریکارڈ پر لے آئیں:
O قومی سلامتی پر پارلیمانی کمیٹی کاقیام
O پی پی کے پاناما بل کی منظوری
O سی پیک پر اپوزیشن کی قرارداد پرعملدرآمد
O کل وقتی وزیرخارجہ کا تقرر
یہی وہ چارمطالبات ہیں جن کی منظوری کا عملی مطلب ’’ن‘‘ لیگ کے منتخب اقتدار کو منتخب اپوزیشن کی جانب سے فالج زدہ کردینے کے مترادف ہوگا۔چیئرمین بلاول نے یہ جو 27دسمبر کے بعد، مطالبات منظور نہ کئے جانے کے حوالے سے تحریک چلانے کا پروگرام دیا، پروگرام ہی نہیں دیا ’’لگ پتہ جائے گا‘‘ کی پراعتماد دھمکی بھی دے دی، اسے چاہے سب لوگ ’’ایزی‘‘ لیں کم از کم وزیراعظم پاکستان اس معاملے میں اپنے ساتھیوں کی سوچ سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتے۔ ان کی سیاسی زندگی ’’اسٹرٹیجک مووز‘‘ کے ذریعے سیاسی مخالفوں کوشکست دینے یا زچ کرنے سے عبارت ہے۔ وقت آپ کو قومی سیاست کے سو فیصد مختلف منظرنامے میں لے جانےکے امکانا ت سے شرابور دکھائی دے رہا ہے!پاکستان پیپلزپارٹی سندھ کا سابق صدر کے استقبال کا عزم بھی غالباً ایسے ہی قرین قیاس قومی منظرنامے کا حصہ ہے!
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ’’آصف علی زرداری کے ساتھ ہونے‘‘ کے جملے میں مضمر مزید تشریحی علامتوں میں سب سے فیصلہ کن علامت بیٹے کا اپنے والد گرامی کے سیاسی وژن، سیاسی علم اور قومی فکر کی گہرائی اور عظمت کے اعتراف سے ہے۔ دوسری علامت، اس اعتراف نے دو ایسے تاثرات کی نفی کردی جنہیں سازش یا جہالت کے تحت پورے ملک خصوصاً پنجاب میں استوار کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ بدقسمتی سے اس سیاسی نا انصافی کے سرخیل،موجداور محرک پارٹی کے اندر بھی موجود تھے اور بدستور موجود ہیں۔ وہ دو تاثرات کیا تھے؟ (1) باپ اور بیٹے میں نظریاتی اور سیاسی اختلافات کی بڑی ہی ناقابل عبور خلیج پیدا ہو رہی ہے (2)بلاول اپنے والد کے امیج کا خراب ملبہ اٹھا کر سیاسی سفر میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ بلاول کے جملے نے ان د ونوں علامتوں سے مکمل برأت کا راستہ اپنایا ہے۔ وہ والدگرامی کے سعادت مند فرزندارجمند تو ہیں ہی، ان کم نگاہ، ذہنی سیم و تھور، مبالغہ آرا کہانیوں اور ذاتی الرجی کے مارے ہوئوں اور ’’آصف علی زرداری‘‘ کو ٹارگٹ پر رکھ کر پارٹی کی مرکزی قیادت کی کردارکشی کرنے کی تاریخی منصوبہ بندیوں کا شکار بھی نہیں ہوئےجن کا ایک ہی مقصد تھا، باپ بیٹے کو ’’بادشاہت کا جھگڑا‘‘جیسے فرسودہ موضوعات کا نام دے کر آغاز ہی میں متصادم ہونے پر مجبور کردیا جائے!
سابق صدر کاکہنا تھا:’’بس یہ وقت اور لوگوں کی غلط فہمی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑی غلطی ہے جس کا ازالہ انہیں کرنا پڑےگا‘‘۔ ’’کس کو ازالہ کرنا پڑے گا؟‘‘
’’وقت کو..... تاریخ کو..... ہر کسی کو ازالہ کرنا پڑتا ہے۔آج دیکھیں مشرف کو بھی ازالہ کرنا پڑ رہا ہے۔ جب بی بی نے کہا تھا کہ یہ بھیک مانگے گا میرے ووٹوں کی، واقعی وہ بھیک مانگ رہا تھا ناں کہ مجھے آپ رہنے دو،مجھے رکھو، الحمد للہ آپ کی دعا سے اور لوگوں کی مدد سے ہم نے اسے مکھی کی طرح دودھ سے باہر نکال دیا۔‘‘
یہ ہے آصف علی زرداری، جب بھی نظریات کا بیانیہ جاری کیا ’’وقت ا ورتاریخ‘‘ کی تصدیقی مہر ہمیشہ اس پر ثبت تھی۔ کسی کو چین نہ آئے، کوئی یقین نہ کرنے پہ تلا ہواہو تب اسے ان کرداروں سے ملاقات کرنی چاہئے جو جمہوری تسلسل کے لئے وطن کی گلیوں پہ واقعی نثار ہوگئے!اور آصف علی زرداری! وقت ہی ان کے امیج، ان کی برداشت، ان کے علم اور ان کے ادراک کے ہر ورق پر سنہرے الفاظ کندہ کر رہا ہے۔ اپنی طرز کے وقت کے ہی ایک حق گو ان سے بولے تھے ’’آپ مردِ حُر ہیں‘‘اے اصحاب ِ پاکستان! آصف علی زرداری، شاید ہمارے لئے سب سے قیمتی قومی متاع ہو۔ شاید ہم ابھی انہیں پوری طرف شفاف نہیں کر پائے۔ ان کے ان الفاظ پر غور کرو، ایک بار کہا ’’ہم اخبار کی سرخیاں نہیں بناتے بلکہ اپنے لہو سے تاریخ لکھتے ہیں‘‘ یہ مردِ حُر ہی نہیں محب وطن قومی سیاستدان کی واپسی بھی ہے!




.