پی پی ن لیگ درست ڈگر پر

January 08, 2017

وطن عزیز میں آج جو بھوک و بیماری ہے، اس میں جہاںفوجی آمروںکا حصہ ہے وہاں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ (ن) کا حصہ بھی ان سے کم نہیں ۔ اس کے باوجود عوام جہاںپوری فراخدلی سے ان دو جماعتوں کو ووٹ دینے کے لئے ہمہ وقت تیار و بے قرار رہتے ہیں، اسی طرحفوجی حکومتوں کو بھی خوش آمدید کہتے ہوئے ان کی سر شاری قابلِ دید ہوتی ہے۔ نہ جانے اس قومی طرز عمل کو کیا نام دیا جائے! البتہ ان سے استفسار کیا جاسکتاہے کہ جو کہتے ہیں کہ پاکستان مذہب کے نام پر بنا ہے کہ اس روگ لگی بیماری کا حل کیا ہے ؟ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا حل خلافت راشدہ کے نظام میںہے۔ بالکل ہے، لیکن آدھا ملک ہندو بنیا کے ہاتھ گنوانے اور سات عشرے غربت میں بیتانے پر بھی آخر آپ خلافت راشدہ کے اہل کیوںنہیں ہوسکے ؟ ظاہر ہے کہ خلافت راشدہ کے نظام میںتو کوئی ٹیڑھ نہیں،پھر کہیں دال میںکالا تو ضرور ہے...!
ہاں ہم جیسےخواب پرست، جو انقلابی ترانوں پر رقصاں ہوتے کسی قلندر کے مسکان ہوئے، یا جو جمہوریت کی راگنی پر زلف پریشاں ہوئے، بے خودی سے خودی کے سفر پر لوٹتے ٹوٹتے البتہ بقول استاد غالب یہ دہائی دیتے رہتے ہیں۔
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، درد بے دو ا پایا
اساتذہ کہتےہیںفی زمانہ جمہوریت ہی بہترین بندوبست ہے۔ اس سے انکار بھی نہیں ،کہنا مگر یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میںاس بندوبست کے دعویدار سیاستدان اگر جو کہتےہیں اس پر عمل پیرا ہوتےتو پھر کیاآج اِس اسلامی جمہوریہ میں مسرتوں وشاد کامیوںکے چشمے نہ اُبلتے،اور عیش وآفرین کے غلغلے بلند نہ ہوتے!مگر اے چارہ گر... کہ وطن عزیز میںجمہور کا نقشہ بقول ناصر کاظمی جو ہےوہ تو یہ ہے۔
اک پائوں میںپھول سی جوتی
اک پائوں سارا ننگا ہے
جو ارباب فکر و نظر کہتے ہیںکہ قوموں کی زندگی میں ساٹھ ستر برس زیادہ عمر نہیںہوتی، ان سے بصدِ احترام اختلاف کرتے ہوئے یہ کہنے کی جسارت کے خواستگار ہیںکہ ہم نے قوموں کی اِسی مختصر زندگی میںمملکت خداداد پاکستان کو دو لخت ہوتے دیکھا،اور تباہ حال جرمن و جاپان سے لے کر کوریا، ملائیشیا تک کو سطح بلندی سے بہرہ مند، یہاںتک کہ بدوئوں نے ریگستان و نخلستان کو گلستان بنا دیا۔ یہ ممالک اگر ساٹھ ستر سال یوںہماری طرح ’’پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے یا نہیں‘‘ کے موضوعِ سخن کے گرد بھنگڑا پاتے گزارتے، تو کیا آج ناگاہ انہیں شاہراہ ترقی پر سفر کا راستہ ملتا!
جناب عالی! اخباری تراشے جمع کرتے، کنویں کے مینڈک،ان خود ساختہ مورخین کے من گھڑت جھوٹاگر یونہی از بر کرائے جاتے رہے تو لکھ کر رکھ لیں کہ خدانخواستہ۔
ہوائے ظلم یہی ہے تو دیکھنا ایک دن
زمین پانی کو سورج کرن کو ترسے گا
دوسری طرف قوم نے جن سیاستدانوں کو اپنا والی وارث بنایاہے اسی بنا ان سے یہ استدعا ہے کہ آپ نے اپنا خیال بہت رکھ لیا، بلکہ جتنا’ رکھ‘ لیا ہے وہ آپ اور آپ کے شہزادے اور شہزادیاں ختم نہیں کرسکتے، لہٰذا براہ کرم اب ان عوام کی طرف بھی کچھ نظرِ التفات کیجیے جو قومی خزانے کی امانت آپ کے سپرد کرتے ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیںکہ مسلم لیگ و پیپلز پارٹی اس قابل ہیںکہ وہ ملک کو جمہوریت کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے ایک فلاحی جمہوری مملکت میں تبدیل کرسکیں، تاہم اس حوالے سے اخلاص شرط ائول ہے۔حالیہ برسوں میں اس حوالے سے بعض شواہد یقیناً حوصلہ افزا ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کو کس قدر پابند رکھا گیا، بے شمار ان کہی کہانیاں ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی اس نزاع کے عالم میںرہی سہی توانائیاں لوٹ مار پر صرف کرنے کی بجائے عوامی داد رسی کے لئے وقف کرتی، تو بلاشبہ یہ پیٹ و پیٹھ کی جنگ سے زیادہ جمہوری و عوامی حقوق کا معرکہ کہلاتا۔ آج اسی طرح کی صورت حال مسلم لیگ (ن) کو در پیش ہے۔ اگرچہ اساتذہ، تبدیلی کا مژدہ بھی سناتے ہیں، لیکن یہ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مسلم لیگی حکومت بقول حضرت منیر نیازی گویا جیسے تھی کہ نہ تھی ۔
میں ہوں بھی، اور نہیں بھی، عجیب بات ہے
یہ کیسا جبر ہے ،میںکس کے اختیار میں ہوں
کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگی حکومت کو آزمائش سے باہر نکالنے میںجہاں میاںنواز شریف صاحب کی استقامت کام آئی تو وہاں ایک بردارملک بھی پشتیبان بنا ۔ قصہ جو بھی ہو، حال کا واقعہ مگر یہ ہے کہ مسلم لیگی حکومت کو آج پانا ماکے ماسواکوئی بڑا چیلنج در پیش نہیں۔ خوش آئند امر یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سویلین بالادستی کیلئے یک جان ہیں۔ اگرچہ بظاہر دونوںجماعتوں میںمحاذ آرائی بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، لیکن واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ یہ نظر کا دھوکہ ہے۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا لیکن مشترکہ ہدف جمہوری سیٹ اپ کو استحکام سونپنا اور انفرادی اہداف آئندہ انتخابات کی تیاری ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی کمزوری سے پیدا ہونےوالے خلا کو جس طرح تحریک انصاف نے پُر کیا تھا، عین اب اسی طرحتحریک انصاف کی کم ہوتی مقبولیت کے ثمرات سمیٹنے کی خاطر آصف زرداری صاحب بنفسِ نفیس میدان کارزار میں آئے ہیں۔دونوں جماعتوں کا مشترکہ خفیہ ایجنڈا یہ ہے کہ ہر صورت میںتحریک انصاف کو مسابقتی دوڑ میں ہلکان کئے رکھنا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مملکت کے بہی خواہ جو تحریک انصاف کو کسی کی طفیلی گردانتے ہیں، وہ کرپشن کو ثانوی مسئلہ قرار دیتے ہوئے پی پی ن لیگ کی فعالیت کو درست ڈگر پر دیکھتے ہیں۔
اگر مگر کے اس بیچ منجدھار میں البتہ ہم طفلِ مکتب یہ رائے رکھتے ہیںکہ پاکستان میں زلفِ جمہوریت کے سر ہونے کیلئے جرات رندانہ درکار ہے ۔وہ ادائے بے باکانہ، جو تاریخ نے یا تو 35سال پس زنداں گزارنے والے باچا خان کی مستقیم صورت میںدیکھی ، یا جامِ شہادت نوش کرنے والی بے نظیر کی بے نظیر صورت میں، حضرت اقبال نے بھی تو یہی کہا تھا۔
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے
اگر کانٹے میںہو خوئے حریری




.