آرٹیکل 62/63آئین کا حصہ ہے تو اسے لاگو کیا جائے،تجزیہ کار

January 11, 2017

کراچی(ٹی وی رپورٹ)سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ عمران خان نے پوری اسمبلی فارغ کرنے کا بیان دے کر قبول کرلیا کہ وہ 62/63پر پورے نہیں اترتے ہیں، آئین کی شقیں62/63موجود ہے تو اس کا احترام کرنا چاہئے، اگر آرٹیکل 62/63درست نہیں تو اسے آئین سے نکالا جائے،آرٹیکل 62/63 منافقت اور مذاق ہے اس سے جان چھڑائی جائے، اسلامی اتحادی فوج کا سربراہ بننے سے جنرل راحیل شریف اور پاکستان کو نقصان ہوگا،جابھی جنرل راحیل شریف کے اسلامی اتحادی فوج کا سربراہ بنانے کا فیصلہ نہیں ہوا بلکہ ابھی صرف ذکر کیا گیا ہے تاکہ اس پر ردعمل کا اندازہ لگایاجاسکے۔ان خیالات کا اظہار مظہر عباس،سلیم صافی، حسین نثار، منیب فاروق، امتیاز عالم اور شہزاد چوہدری نے جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان عائشہ بخش سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ میزبان کے پہلے سوال آرٹیکل 62/63پر اگر اسمبلی پوری نہیں اترتی تو فارغ ہوجائے! کیا عمران خان کا بیان درست ہے؟ کاجواب دیتے ہوئے منیب فاروق نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 62/63 ضیاء الحق دور کا تحفہ ہے، عمران خان کو آرٹیکل 62/63پر اسمبلی فارغ ہونے کا بیان نہیں دینا چاہئے تھا، عمران خان کا یہ بیان محض سیاسی بیان ہے۔حسن نثار نے کہا کہ آئین کی شقیں62/63موجود ہے تو اس کا احترام کرنا چاہئے، اگر آرٹیکل 62/63درست نہیں تو اسے آئین سے نکالا جائے، آرٹیکل 62/63کے معیار پر تو انسانی تاریخ میں چند نام ہی پورے اتریں گے، یہ منافقت اور مذاق ہے اس سے جان چھڑائی جائے، یہ ضیاء الحق کا بنایا گیا قانون ہے جو ہماری تاریخ کا سب سے بدترین جھوٹا آدمی تھا۔شہزاد چوہدری کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62/63آئین کا حصہ ہے تو اسے لاگو کیا جائے، فی الحال آرٹیکل 62/63پر پورا نہ اترنے والے ارکان اسمبلی کو فارغ کردیا جائے،یہ منافقت ہی ہے کہ آرٹیکل 62/63کے ہوتے ہوئے بھی اس طر ح کے لیڈر اسمبلیوں میں آرہے ہیں، آرٹیکل 62/63 میں سے صادق اور امین کے الفاظ نکال کر ایک معیار طے کرلیں کہ سزا یافتہ لوگ اسمبلی میں نہیں آسکتے ہیں۔مظہر عباس نے کہا کہ آئین کی شق 62/63کو ہم سب نے مل کر مذاق بنادیا ہے، قانون ایسے بنانے چاہئیں جو قابل عمل ہوں، عمران خان نے پوری اسمبلی فارغ کرنے کا بیان دے کر قبول کرلیا کہ وہ 62/63پر پورے نہیں اترتے ہیں، عمران خان سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کروائیں کہ ہم میں سے کوئی 62/63پر پورا نہیں اترتا اس لئے سب کو فارغ کردیا جائے۔امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعتوں کے سربراہان اور شوریٰ کی بھاری اکثریت آرٹیکل 62/63پر پوری نہیں اترتی ہے۔سلیم صافی نے کہا کہ پاکستان کا آئین اور نظام منافقت کا درس دے رہا ہوتا ہے، آرٹیکل 62/63 میں اللہ تعالیٰ کا اختیار انسانوں کے ہاتھ میں دینے کی کوشش کی گئی ہے جو کبھی نہیں ہوسکتا ہے، عمران خان کے بیان کو درست سمجھتا ہوں کیونکہ ایسی اسمبلی 62/63 پر کیسے پوری اترسکتی ہے جس میں درجنوں ایسے لوگ بھی بیٹھے ہیں جنہوں نے اس اسمبلی کو گالیاں دی ہیں،جنہوں نے اسمبلی سے استعفے دیئے اور آج بھی حرام کی تنخواہیں لے رہے ہیں۔دوسرے سوال راحیل شریف کا اسلامی اتحادی فوج کا سربراہ بننے کا فیصلہ! کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی متنازع بنائے گا؟ کا جواب دیتے ہوئے شہزاد چوہدری نے کہا کہ اسلامی اتحادی فوج کا سربراہ بننے سے جنرل راحیل شریف اور پاکستان کو نقصان ہوگا۔ سلیم صافی نے کہا کہ جنرل راحیل شریف کی بحیثیت اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ تقرری وزیراعظم نواز شریف کامنصوبہ ہے، وزیراعظم اس طرح جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کم کر کے توپوں کا رخ ان کی طرف موڑنا چاہتے ہیں، راحیل شریف کی تقرری یمن کے بعد ہماری پالیسی کا تسلسل ہے، پاکستان کا سعودی عرب سے تعاون فوجی تربیت اور ریٹائرڈ پاکستانی فوجیوں کی تعیناتی کی صورت میں پہلے سے جاری ہے، یہ اسلامی فوجی اتحاد امریکا کی سرپرستی میں بن رہا ہے، اسلامی فوجی اتحاد کا فیصلہ ساز فورم ان ملکوں کے وزرائے دفاع کی ایڈوائزری کونسل ہوگی جس میں خواجہ آصف پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے جرنیل جنہیں سب سے زیادہ سہولیات دی جاتی ہیں، وہ ایک شفاف نظام کے تحت ارب پتی بن کر ریٹائر ہوتے ہیں، ان میں سے جنرل پاشا، جنرل احسان، جنرل مشرف اور اب جنرل راحیل شریف کیوں بیرون ملک ملازمتوں کی طرف جاتے ہیں، پاکستانی جرنیلوں کا بیرون ملک ملازمت کرنا پاکستان کے قومی مفاد سے ٹکراؤ ہے، اس بارے میں واضح پالیسی بنانی چاہئے۔مظہر عباس نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اسلام آباد میں نہیں واشنگٹن، ریاض اور اب بیجنگ میں بنتی ہے، ابھی جنرل راحیل شریف کے اسلامی اتحادی فوج کا سربراہ بنانے کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا بلکہ ابھی صرف ذکر کیا گیا ہے تاکہ اس پر ردعمل کا اندازہ لگایا جاسکے۔