میڈیا کے حوالے سے ایک خوبصورت جائزہ

January 19, 2017

برادرم مصطفیٰ بیگ نے ہمارے میڈیا کے حوالے سے کچھ بہت خوبصورت باتیں کہی ہیں جن میں سے اگرچہ کچھ باتوں سے اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے تاہم یہ بہت گہری نظروں سے لیا گیا ذاتی جائزہ ہے جو اس سے پہلے بہت کم میری نظروں سے گزرا ہے۔ بیگ صاحب کہتے ہیں:
ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستانی ٹی وی ناظرین کے 63فیصد اب نیوز چینل چھوڑ کر انٹرٹینمنٹ چینلز، اسپورٹس اور ترکش سوپ دیکھ رہے ہیں، جبکہ صرف 37 فیصد ناظرین کی دلچسپی نیوز چینلز میں برقرار ہے۔ ان 37 فیصد میں سے بھی 16فیصد لوگ جیو نیوز دیکھتے ہیں جبکہ بقیہ 21فیصد باقی سارے چینلز کا طواف کرتے ہیں۔ (ظاہر ہے کہ ان اعداد و شمار میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے)پاکستانی ناظرین کی نیوز چینلز میں دن بدن کم ہوتی دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ خراب ہوتی نیوز اسکرین ہے جو دیکھنے والوں میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔(ٹی وی اسکرین پر نواز شریف حکومت کے خلاف ہر وقت کی تنقید اور دھرنوں سے بھی ناظرین اکتا چکے ہیں) نیوز رپورٹ کرنے کے بجائے نیوز تخلیق کرنے کے فروغ پاتے نئے رجحان نے صحافت اور صحافیوں کے لیے نت نئے چیلنجز کو جنم دیا ہے۔ بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کو روکنے اور اسے کنٹرول کرنے کے لیے دریاؤں پر بند بنائے جاتے ہیں۔ بیراج اور ڈیم تعمیر کر کے سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کیوں کہ اگر سیلابی پانی کو کنٹرول نہ کیا جائے تو وہ بستیوں کو تہس نہس کر دیتا ہے۔ اسی طرح اس وقت ملک میں انفارمیشن یا معلومات کا ایک سیلاب ہے جو پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہر لمحہ تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ ایک ایک منٹ میں ہمیں فیس بک، واٹس ایپ، ٹوئٹر اور اپنے ٹی وی پر اتنی انفارمیشن موصول ہو رہی ہوتی ہے کہ ہم اسے دیکھنے اور پڑھنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ انفارمیشن کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لیے نیوز رومز میں ڈیسک، کوالٹی کنٹرول پروڈیوسرز، وڈیو ایڈیٹنگ ڈیسک دراصل وہ بیراج اور ڈیم اور بند ہیں جن کے ذریعے سے انفارمیشن کے اس سیلاب کو کنٹرول کیا جاتا ہے، خبر کو ٹریٹ کیا جاتا ہے اور ایڈیٹنگ اور فیکٹ چیکنگ کے مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ لیکن میڈیا ہائوسز میں کمزور اور دن بدن معدوم ہوتا ادارتی انسٹیٹیوشن اس سیلاب کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہے، جس کے نتیجے میں ایڈیٹنگ سے عاری انفارمیشن قوم تک پہنچا پہنچا کر قوم کو ذہنی مریض بنا دیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں جب ایک اور کھلونا ہر رپورٹر کو تھمایا جا رہا ہے، کہ اپنے موبائل فون سے شوٹ بھی خود کرو، اسکرپٹ خود لکھ کر اسی موبائل فون سے وائس اوور بھی خود کرو اور اسی اسمارٹ فون سے وڈیو ایڈیٹنگ کرکے خبری پیکیج سیدھا نیوز روم کو بھیج دو، اس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں ٹی وی اسکرین مزید خراب ہوتی نظر آ رہی ہے۔ شاید ٹی وی دیکھنے والے ناظرین کی تعداد 37فیصد سے بھی مزید کم ہو جائے گی۔ ایسے حالات میں پاکستان میں پیشہ صحافت اور صحافیوں کو 10بڑے چیلنج درپیش ہیں جن کا مقابلہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔:1غیر جانبداری کم ہے یا سرے سے موجود نہیں، اس وقت پاکستانی میڈیا دو حصوں میں منقسم ہے، جس میں سے ایک خود ساختہ ’مین اسٹریم میڈیا‘ یا قومی میڈیا کہلاتا ہے، جبکہ دوسرے کو ریجنل میڈیا یا لوکل میڈیا کا نام دیا جاتا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا بھی سیاسی بنیادوں پر تقسیم کا شکار ہے۔ غیر جانبدار قومی بیانیے کی بحث جو کہ مین اسٹریم میڈیا کا اہم کام ہے، مین اسٹریم میڈیا اپنا وہ فرض نبھاتا ہوا نظر نہیں آتا۔ کشمیر مین اسٹریم میڈیا میں صرف تب نظر آتا ہے جب زلزلہ آتا ہے یا بھارت کی جانب سے فائرنگ کی جاتی ہے، خیبر ایجنسی مین اسٹریم میڈیا میں تب نظر آتی ہے جب وہاں کوئی خودکش بمبار پھٹتا ہے، بلوچستان مین اسٹریم میڈیا میں تب نظر آتا ہے جب وہاں کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے، جبکہ دوسری جانب یہی مین اسٹریم میڈیا کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا ایجنڈا آگے بڑھاتا ہوا نظر آتا ہے، جس کا اظہار اس کی نیوز فارمیٹنگ اور پروگرامنگ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔:2صرف بڑے شہروں پر توجہ دی جاتی ہے، یہی مین اسٹریم میڈیا لوکل میڈیا یا ریجنل میڈیا کی طرف سے اٹھائے گئے ان عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں ناکام رہا ہے جو واقعی عوامی مسائل اور عوامی ایشوز ہیں۔ بعض اوقات مین اسٹریم میڈیا کی تمام کی تمام ہیڈلائنز صرف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے بیانات کا احاطہ کرتی نظر آتی ہیں۔ مین اسٹریم میڈیا کے اس رویے نے عوام الناس کو نیوز چینلز سے بتدریج بدظن کرکے انٹرٹینمنٹ چینل دیکھنے پر مجبور کیا ہے، جس کی واضح مثال اس دن کی ہے جب کراچی میں ملیر کے ایس پی راؤ انوار کو معطل کیا گیا۔ دوسری جانب اسی دن خیبر ایجنسی کی مسجد میں بم دھماکے میں درجنوں لوگ جاں بحق ہو گئے، لیکن مین اسٹریم میڈیا کے لیے راؤ انوار کی معطلی کی خبر اہم تھی، کئی گھنٹوں تک اہم قومی چینلز کی ہیڈ لائن اسٹوری تھی۔ جبکہ خیبر ایجنسی میں انسانی جانوں کا ضیاع اس نام نہاد قومی میڈیا میں جگہ نہیں بنا پایا۔یعنی عوام جسے خبر سمجھتے ہیں، مین اسٹریم میڈیا اسے خبر ہی نہیں گردانتا اور نہ مین اسٹریم میڈیا میں اس ایشو کے لیے کوئی جگہ ہوتی ہے۔ محسن بھوپالی نے ایسے ہی میڈیا کے لیے کہا تھا۔ جو دل کو ہے خبر، نہیں ملتی کہیں خبر ہر روز اک عذاب ہے اخبار دیکھنا۔:3صحافیوں کی مراعات ناہموار ہیں دنیا بھر میں ہارڈ پوسٹنگ کی ایک اصطلاح رائج ہے کہ جس علاقے میں خطرات زیادہ ہوں، جنگ زدہ علاقہ ہو، وہاں پر تعینات صحافی کو ملنے والی سہولتیں اور مراعات عام صحافی کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہیں۔ مثلاً نیویارک میں کام کرنے والے سی این این کے ایک رپورٹر کی تنخواہ اور اس کی مراعات اس رپورٹر سے کم ہوں گی جو افغانستان میں خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ کابل میں خدمات انجام دینے والے صحافی کا معاوضہ اور اس کی مراعات عام صحافیوں سے ہر حال میں زیادہ ہوں گی۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستانی میڈیا میں اس کے بالکل برعکس ہے۔ بلوچستان اور فاٹا کے پرخطر علاقے ہوں، یا سندھ کے ریگستانی علاقے، وہاں کام کرنے والے صحافیوں کی اجرت اور ان کی مراعات بالکل معمولی ہوتی ہیں۔ کچھ اداروں کا تو بس نہیں چلتا کہ وہ ان علاقوں کے صحافی کا نام شائع کرنے کو ہی اس کی اجرت قرار دے دیں تاکہ دو چار ہزار روپے مزید بچائے جا سکیں۔ اس کے مقابلے میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ایئر کنڈیشنڈ نیوز روم میں کام کرنے والے صحافی کی مراعات اس ہارڈ پوسٹنگ والے صحافی سے زیادہ ہوتی ہیں۔ پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں اس تصور کو بدلنا ہوگا۔ یہی اس وقت کا تیسرا بڑا چیلنج ہے۔ (جاری ہے)

.