سر رہ گزر

January 24, 2017

بندگی میں بھلا نہ ہوا!
وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے:امریکہ سے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے، امن دشمن سی پیک کے مخالف ہیں، 2018کے الیکشن سے پہلے توانائی بحران ختم ہو جائے گا، کسی نے کیا خوب کہا ہے، کند ہم با ہم جنس پرواز، کبوتر با کبوتر باز با باز (یعنی دو ایک جیسے ساتھ ساتھ رہتے ہیں) امریکہ سے ہمارے ہمیشہ جس طرح کے تعلقات رہے ہیں وہ بلاشبہ زیادہ مستحکم ہوں گے، بہرحال ہمیں کیا سروکار، جانے وہ سرکار یا جانے یہ سرکار، سی پیک جب مکمل ہو گا اور قوم کو اس کے ثمرات کے بھرے ٹوکرے وصول ہوں گے تو تب کی بات ہے سردست اسے امن دشمن عناصر سے شدید خطرہ ہے، توانائی بحران کے خاتمے کی تاریخ تو دو ہزار ساڑھے سترہ میں بتائی گئی تھی مگر اب اس میں چھ ماہ ڈال کر 2018کر دیا گیا ہے، بہرحال ہم تو اب بھی ن لیگ ہی کی تعریف کریں گے کہ اس کے علاوہ کیا کریں گے، اس ملک میں ہر سیاسی جماعت اپنی اپنی جگہ قابل تعریف ہے، کیونکہ یہ تعریف کوئی گیم چینجر نہیں صرف گیمر ہے، امریکہ نے ہمیں نقطۂ آغاز سے آگے نہیں جانے دیا کیونکہ ہمارے ہر دور کے حکمرانوں نے اس سے اپنے تعلقات گہرے کئے اور پاک امریکہ تعلقات کی کسی کو خبر نہیں، چین سے تعلقات ہمارے لئے مفید رہے ہیں، گیم چینجر تو پاکستان کے عوام ہی ہو سکتے ہیں مگر وہ ایسی کوئی گیم نہ جانے کیوں نہیں کھیلتے، یہاں تو سیاسی سطح پر اب یہ عالم ہے کہ پرانوں کو نیابنا کر پیش کیا جائے گا اور اگر کوئی نیا تھا بھی تو اس نے خود کو پرانوں جیسا بنا لیا، گویا اب کوئی اچھا ہے یا برا، دونوں لحاظ سے مکمل مساوات ہو گئی ہے، اور یہ بات غلط نہ تھی کہ باری کا بخار ہے کہ اقتدار ہے، چڑھتا ہے اترتا ہے، پرانے انجن نئی باڈی یہ ہے حکومت گاڑی جواب بھی ورکشاپ میں ہے، ہمارے یعنی غریب عوام کے حالات جوں کے توں رہیں گے، 5سال کا عرصہ خاصا طویل ہوتا ہے کسی قوم کی حالت بدلنے کے لئے بشرطیکہ قوم اپنی حالت بدلنے پر آمادہ ہو۔
٭٭٭٭
غور طلب!
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے کہا ہے:فوجی عدالتوں کی توسیع سے پہلے اے پی سی بلائیں، نثار سے زیادہ عمران نواز شریف کے خدمت گار ہیں، تحفہ دیا جائے، فاٹا کو فوری طور پر خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے، بہت پہلے ہم یہ لکھ چکے ہیں کہ عمران خان، نواز شریف کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئے، رہے چوہدری نثار علی تو وہ صرف وزیر ہیں، پاکستان کی یہ بڑی اچھی قسمت رہی ہے کہ یہاں بعض خاندانوں نے سیاست کو اپنا کمائو پیشہ بنا لیا ہے اور اب یہ وراثت کی شکل اختیار کر گئی ہے، نیپ ولی خان مرحوم کے دور تک خالص تھی اب اس میں سیاست کم کم اور روایتی پاکستانی سیاست زیادہ نفوذ کر چکی ہے، الغرض یہ مملکت خدا داد پاکستان ایک ایسی پرانی گاڑی ہے جو ایک عرصے سے اینٹوں پر کھڑی ہے، اور اس میں مخصوص لوگ چڑھتے اترتے ہیں، اسے ریس دیتے ہیں مگر حرکت میں نہیں لاتے، اسفند یار کی یہ تجویز قابل غور ضرور ہے کہ فاٹا کو بلاتاخیر خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے، اگر ایسا ہو تو قبائل مین اسٹریم میں شامل ہو جائیں گے، اور پاکستان دشمن عناصر فاٹا کو گمراہ نہیں کر سکیں گے، قبائلی علاقوں میں بھی ترقیاتی کام کرنے میں آسانی ہو گی، اور اگر قبائل کو کوئی گلہ شکوہ ہو گا تو بھی دور ہو جائے گا، پختون عوام کو قبائلی غیر قبائلی دھڑوں میں بانٹنا پاکستان کے وسیع تر مفاد میں نہیں، افغانستان اس وقت غیروں کے پنجے میں ہے، کوئی شرارت ہو سکتی ہے ،ایک زبان اور ایک کلچر کے لوگوں میں ایک لکیر کھینچنا درست نہیں، اے پی سی بلانے کی تجویز بھی اچھا مشورہ ہے، کہ اس طرح قومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر ایسا فیصلہ کیا جائے جو سب کے لئے قابل قبول ہو، پاکستان کے نام پر ذاتی مفادات کی سیاست کو جب تک ترک نہیں کیا جاتا ہم ایک فرسودہ دائرے میں کولہو کا بیل بن کر چکر لگاتے رہیں گے اور عوام کا تیل نکلتا رہے گا۔
٭٭٭٭
پپو یار تنگ نہ کر!
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کہتے ہیں:نواز شریف موٹو گینگ سے گالیاں نہ دلوائیں، مجھ سے خود بات کریں، اس بیان میں کام کی بات یہ ہے کہ ’’نواز شریف مجھ سے خود بات کریں‘‘، اگر بات کرنے سے مسائل، اختلاف اور دشنام طرازی ختم ہو سکتی ہے تو نواز شریف خان صاحب کا یہ مطالبہ پورا کر دیں اور ایک عدد ملاقات کر لیں اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ملاقات کی بات عمران خان کی جانب سے ہوئی ہے، تو بحیثیت وزیراعظم پاکستان اگر کسی مخالف سیاسی جماعت کا سربراہ ان سے ملنا چاہے تو وہ ضرور ملیں، اگر میاں صاحب ان سے بات کر لیں تو یہ اتمام حجت کے برابر ہو گا، اور ایک اچھا تاثر پیدا ہو گا، جس کی اس وقت ن لیگ کو ضرورت بھی ہے، خان صاحب کو ن لیگ سے ممکن ہے پیار نہ ہو مگر ان کے دل کے کسی کونے میں نواز شریف کے لئے لاشعور پیار ضرور دفن ہے جو کبھی کبھی کفن پھاڑ کر بولتا ہے، سیاسی منظر نامے کو اگر ہم سیاسی سرکس کہیں تو غلط نہ ہو گا کیونکہ اب یہ ایک کھیل ہے اطفال کا، جو ہم سب کے سامنے ہو رہا ہے، اور لوگ نیوز دیکھنے پڑھنے کے بجائے ٹپے ماہیے سننا زیادہ پسند کرتے ہیں، اکثر نیوز چینلز کا سانس پھول گیا ہے، اس لئے بھی معمولی سی نارمل خبر یا افواہ کو اس طرح سانس چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے کہ پرانی پنجابی فلموں کی ہیروئنیں یاد آ جاتی ہیں، خبروں میں اتنا نمک ہوتا ہے کہ بلڈ پریشر عام ہو گیا ہے، ۔یوں سانس چڑھا کر نتھنے پھلا کر عام سی بات کو ہیجان انگیز بنانے پر اس کے سوا کیا کہیں کہ پپو یار تنگ نہ کر!
٭٭٭٭
پھر کیا کرنے نکلے ہیں یہ بھی تو بتائیں
....Oعمران خان:قطری شہزادے کا خط جھوٹا نکلا تو نواز شریف کی چھٹی ہو جائے گی،
تو بات اب خط پر آ کر ٹک گئی، ویسے خان صاحب کی آج تک کوئی خواہش پوری نہیں ہوئی۔
....Oعائشہ ممتاز کی چھٹی ختم ہو گئی ہے، اور انہوں نے اپنا کام سنبھال لیا ہے،
گدھا کش ظالمو! عائشہ ممتازآ چکی ہے۔
....Oامریکی گلوکارہ میڈونا:دل کرتا ہے وائٹ ہائوس اڑا دوں،
کیا آپ نے وہاں کنسرٹ کرانا ہے؟
....Oمصطفیٰ کمال:تصویر اتروانے کسی کی حکومت گرانے نہیں نکلے،
پھر کیا کرنے نکلے ہیں یہ بھی تو بتائیں۔

.