’’’ہز ایکسیلنسی‘‘ عطا الحق قاسمی

January 26, 2017

زندگی کے گزرے ہوئے ماہ و سال واپس نہیں آتے لیکن ان سے وابستہ یادیں ہمیشہ ہمارے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں۔ خاص طور پر جن لوگوں کے ساتھ تعلق خاطر پیدا ہوجائے ان کی کھٹی میٹھی یادیں اور باتیںکبھی دل سے محو نہیںہو پاتیں۔ ممتاز دانشور اور مزاح نگار عطاءالحق قاسمی کے ساتھ میری کچھ ایسی ہی یادیں وابستہ ہیں۔ ان سے میر اکئی طرح کا تعلق ہے ایک تعلق تو یہ ہے کہ ہم دونوں ایم اے او کالج لاہور میںاکٹھے پڑھتے تھے۔ میں ان دنوں عمر میں ان سے ایک دو نہیں پورے 211دن بڑا اور پڑھائی میںدو کلاس آگے تھا۔ عمر میںتو خیر کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی و ہ مجھ سے بڑے نہیں ہو سکے البتہ علم و فضل اور مرتبے میںکئی کلاسیں آگے نکل گئے۔ ان سے دوسرا اور سب سے اہم تعلق ان کے والد گرامی مولانا بہا ء الحق قاسمی سے ارادت مندی کا ہے۔ مولانا مرحوم سے میری پہلی ملاقات کالج کی ا سٹوڈنٹس یونین کے الیکشن میں اپنے ایک دوست عطاءالرحمٰن کے لئے عطا کا ووٹ مانگنے کے سلسلے میںتھی۔ ہم ماڈل ٹاؤن لاہور میں ان کے گھر گئے۔ دستک دی تو عطا کی بجائے خود مولانا نے دروازہ کھولا۔ انہیں دیکھ کر ہم کسی قدر گڑ بڑاگئے۔ اس عالم بے بدل کے بارے میں سنا تو بہت کچھ تھا مجسم صورت میں دیکھنے کا پہلی بار موقع ملا۔ عطا کے متعلق پوچھنے پر انہوں نے جواب دیا’’گھر پر نہیں‘‘ ہم نے پوچھا ’’کہاںہو نگے ؟‘‘ نجانے کس موڈ میںتھے فرمایا ’’گیا ہوگا کہیں آوارہ گردی کرنےـ‘‘عطا کے اس بلیغ تعارف سے گھبرا کر میں جلدی سے بولا ’’مولاناملنا تو دراصل آپ ہی سے ہے‘‘ اس پر وہ مسکرائے اور ہمیںاندر بیٹھنے کو کہا۔ ہمارے پاس اس وقت ان کے علمی مرتبے کے مطابق پوچھنے کیلئے کچھ نہیں تھااس لئے وہیں کھڑے کھڑے عرض کیا ’’حضرت ! اجازت ہو تو کبھی کبھار آپ کی مجلس میںبیٹھنے کیلئے آجایا کریں آپ وقت دے سکیں گے ؟‘‘ انہوں نے بخوشی اجازت دی اور مسجد کا راستہ سمجھا دیا۔ مولانا سے ملنے کے بعد عطاء الحق سے ’احتیاط‘ اور بھی لازم ہو گئی۔
ایم اے او کالج ہمارے زمانہ طالب علمی کا خوبصورت تعلیمی گہوارہ تھا۔ عطااکثر اپنے کالموں میںاس کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ پڑھائی میں کیسے تھے یہ نہیںجانتا کیونکہ انہیں کبھی پڑھتے نہیں دیکھا۔ البتہ اسلامیات کے کمرے سے اپنے شفیق استاد پروفیسر ارشد بھٹی کے شانہ بشانہ باہر نکلتے اکثر دیکھا ہے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا کہ کلاس بھٹی صاحب نے لی ہے یا عطا نے۔ اپنے امرتسری ڈیل ڈول کی وجہ سے یہ اس وقت بھی ’استاد‘ ہی لگتے تھے۔ کسی دوسری کلاس میںجاتے انہیںنہیںدیکھا اس لئے لگتا تھا صرف اسلامیات پڑھنے کالج آتے ہیں۔ کبھی کبھار اُردو کے پروفیسر طفیل داراصاحب کے ساتھ بھی کھڑے نظر آتے جس سے گمان ہوتا کہ اردو بھی پڑھتے ہوںگے۔ کالج میں ہمارے اپنے اپنے شوق اور اپنی اپنی دلچسپیاں تھیں۔ میںطلبا سیاست میں سرگرم تھا۔ ہر سال ا سٹوڈنٹس یونین کا الیکشن لڑتا اورجیت بھی جاتا۔ عطا سے کبھی ووٹ نہیں مانگا۔ مانگتا بھی تو انہوں نے کونسا دینا تھا ! پڑھائی میںپوزیشن ہولڈر تھا اس لئے سیاست کے شوقین اور پڑھاکوقسم کے لڑکے میرے ارد گرد جمع رہتے۔ عطا کی پہچان ان کی خوش مزاجی، بزلہ سنجی اور’ مجمع گیری‘ تھی۔ ان خوبیوں کی وجہ سے وہ زندہ دلان کالج کے ’’پیر‘‘ تھے۔ اپنی الگ الگ دلچسپیوں کے باوجود ہمارے ’سفارتی‘ تعلقات اچھے تھے لیکن بے تکلفی نہیںتھی۔ جو آج بھی نہیں ہے عطا اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ کالج میں ہم دوہی شریف لڑکے تھے۔ اس زمانے میں کالج کی عمومی شہرت ایسی ہی تھی یہ اس وقت اچھی ہوئی جب ہم دونوں کالج سے نکل گئے۔
پڑھائی کے پریڈ ختم ہوتے تو عطا شریف بچوں کی طرح اپنے خاص خاص ’مریدوں‘ کے ہمراہ سامنے واقع لیڈی میکلیگن گرلز کالج کارخ کرتے۔’ کوایجوکیشن‘ نہ ہونے کی وجہ سے ان دنوں ایم اے او کالج میںیہ سہولت حاصل نہیں تھی۔ یہ ان سے اچھے تعلقات ہی کا نتیجہ ہے کہ پانچ دس یا پندرہ سال بعد جب بھی ملتے ہیں مجھے پہچان لیتے ہیں۔ بشرطیکہ کوئی یاددلائے۔ کوئٹہ کی ایک تقریب میںسامنا ہوا تو بڑی گر مجوشی سے ملے۔ فرمایا ’’بڑی عمر ہے یار تمہاری آج ہی کوئی تمہارا ذکر کر رہا تھا‘‘ دوسری بار اسلام آباد میںملے تو بھی یہی جملہ دہرایا۔ تیسری بار ملاقات ہوئی تومیںنے خود ہی کہہ دیا ’’بڑی لمبی عمر ہے جناب، میری۔ آج ہی کوئی آپ سے میرا ذکر کر رہا تھا ‘‘ اس سے پہلے کہ کوئی جواب دے کر مجھے لاجواب کر دیتے، ہجوم عاشقاں میںسے کوئی درمیان میںآگیا اور یہ مجھے چھوڑ کر اس کے ساتھ چل دیئے۔ ایک عرصہ کھوج لگانے کے بعد پتہ چلا کہ جو ’’کوئی‘‘ ان سے میرا ذکر کرتا رہتا ہے وہ ہمارا کالج فیلو انور شہزاد ہے جو ایک بینک سے ریٹائر ہو کر اب اللہ اللہ کر رہا ہے۔ صحافت کے پیشے سے عطا اور میں تقریباً ایک ہی وقت میں منسلک ہوئے۔ انہوں نے کالم نویسی اختیار کی اور شہرت دوام پائی۔ میںرپورٹر سے مختلف مدارج طے کرتا ہوا یڈیٹر کے عہدے تک پہنچا اور گم نام رہ گیا۔ عطا کے کالم روز اول سے پڑھ رہا ہوں اور نجانے کیوں اب تک پڑھے جاررہا ہوں۔ انہوں نے سنجیدہ کالم بھی لکھے مگر ان کی اصل پہچان مزاحیہ کالم ہیں۔ تاہم سنجیدہ کالموں میں بھی کہیں کہیں اپنی ’’اصلیت‘‘ ظاہر کرنے سے نہیں چوکتے۔ جو کچھ لکھتے ہیں سچ لکھتے ہیں اور سچ لکھنے کا جی نہ چاہے تو بھی کچھ نہ کچھ ضرور لکھتے ہیں۔ ان کے کالموں کی خوبی یہ ہے کہ قاری کو ہنسانے کیلئے گد گدی نہیںکرنا پڑتی، پڑھنے والا خود زیر لب مسکراتا چلا جاتا ہے اور آس پاس کوئی نہ ہو تو قہقہے بھی لگاتا ہے۔ کئی نامور ادیبوں نے اخبارات میںمزاحیہ کالم لکھے ہیں اور خوب لکھے ہیں۔ تاہم مزاح نگاری میںموجودہ عہد عطاء الحق قاسمی کا عہد ہے۔ عطا نے ایم اے او کالج میںجو کچھ پڑھا وہ بطور پروفیسر اسی کالج کو لوٹا دیا۔ ادبی اور ثقافتی اداروں کی ضرورت تو وہ تھے ہی ناروے اور تھائی لینڈ میںسفیر بھی رہے اور ’’ہز ایکسیلنسی‘‘ ہو گئے۔ پطرس بخاری کے بعد وہ دوسرے سفارت کار ہیں جنہوں نے مزاح نگاری میں بھی بلند مقام حاصل کیا۔ طنز و مزاح پر مبنی ان کی کئی کتابیں عوام و خواص میںمقبول ہیں جو میںنے نہیں پڑھیں۔ کیونکہ انہوں نے ’’ہدیہ‘‘ نہیں کیں۔ ساری کتابیں ویسے ہی بک گئیں۔ ان کے ٹی وی ڈرامے البتہ دیکھے ہیں، میری عینک کا بڑھتا ہوا نمبر اسی کا شاخسانہ ہے۔ آج کل پی ٹی وی کی عاقبت سنوارنے، نوازشریف کو گڈ گورننس سکھانے اور عمران خان کا قبلہ درست کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کافی عرصہ سے ان کے بارے میں لکھنے کا سوچ رہا تھا تا کہ کچھ اپنی بھی ’مشہوری‘ ہو جائے مگر کوئی بہانہ ہاتھ نہیں آرہا تھا ویسے بھی اپنا کچا چٹھا اور گفتنی نا گفتنی وہ خود ہی اس طرح بیان کرتے رہتے ہیں کہ کوئی اور لکھے تو اس پر ہتک کا دعویٰ لازم ہو جائے۔ایم اے او کالج کے تیسرے ممکنہ شریف لڑکے انور شہزاد نے جب بتایا کہ یکم فروری کو عطا کی سالگرہ ہے تو یہ سطور لکھنے کی شہ ملی اب یہ نہیں بتائوں گا کہ کونسی سالگرہ۔ سیانےکہتے ہیں کہ خواتین اور بزرگوں کی عمر پوچھنی چاہئے نہ بتانی چاہئے۔ناراض ہو جاتے ہیں۔ اللہ عطا کی عمر صحت و تندرستی کے ساتھ دراز کرے آمین۔ عطا کی سالگرہ کا دن چند روز میں آنے والا ہے۔ جس کسی نے سالگرہ کا کیک یا کوئی قیمتی تحفہ بھیجنا ہو وہ خاکسار کی معرفت بھیج سکتا ہے۔ البتہ تہنیتی کارڈ انہیں براہ راست ہی بھیجے دیئے جائیں۔

.