امریکی ادارے بنام ٹرمپ آرڈر اور امریکی مسلمان

February 08, 2017

صدرٹرمپ کا 7مسلم ممالک کے شہریوں پر ’’ٹریول بین‘‘ غیراصولی اور ناجائز ہے۔ اسے ختم کیا جائے۔ ایپل، فیس بک، ٹوئٹر، مائیکرو سافٹ سمیت 99امریکی کمپنیوں کا امریکی ایپلٹ کورٹ میں مشترکہ موقف۔ ہمارا کاروبار متاثر ہورہا ہے۔ ٹرمپ کا آرڈر امتیازی اور غیرمنصفانہ ہے۔ اس سے ہمارے شہری، معیشت اور نظام متاثر ہورہے ہیں۔ ریاست واشنگٹن کے اٹارنی جنرل کا صدر جارج بش کے تقرری یافتہ وفاقی جج کی عدالت میں موقف۔ جج نے ٹرمپ آرڈر پر عمل کو روک دیا۔ ٹرمپ آرڈر کے خلاف عدالتی کارروائی میں ریاست منی سوٹا کی طرح ہمیں بھی شریک کارروائی فریق بنایا جائے ریاست ہوائی اور ریاست الاسکا کی درخواست۔ نیویارک اور دیگر ریاستیں پہلے ہی اس آرڈر کے خلاف ہیں۔ عدالتی حکم امتناعی بھی ہیں۔ ہم مسلمانوں سے امتیازی سلوک اور پابندیوں کے خلاف ہیں وہ مساوی حقوق کے حامل امریکی شہری ہیں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ائیرپورٹس پر روکے جانے والے امریکی ویزا کے حامل مسافر وزیٹرز، گرین کارڈ ہولڈرز اور امریکی شہریوں کو وکلاء ائیرپورٹس پر ہی رضا کارانہ خدمات فراہم کررہے ہیں۔ وکلاء اور انسانی حقوق کی امریکی تنظیموں کا اعلان۔ مسلمان بالکل خوف زدہ نہ ہوں وہ مساوی حقوق والے امریکی شہری ہیں۔ رکن کانگریس ایورٹ کلارک، کانگریس مین ٹام سوازی۔ o… مسلم رجسٹریشن اور دیگر مذہبی امتیاز کے اقدامات کئے گئے تو ہم مسلم نام رکھ کر اپنا رجسٹریشن بھی کرائیں گے۔ غیرمسلم امریکی دوست۔
یہ سب کیا ہوا؟ سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد یعنی 15؍سال قبل مسلمانوں کے بارے میں جو تاثر پیدا ہوا تھا اور امریکہ کی مسلم کمیونٹی جن پریشان کن حالات و مشکلات سے گزری اب ری پبلکن صدر ٹرمپ کے اعلانیہ ایجنڈے اور اقدامات کے باوجود امریکی معاشرے کا ایک بڑا حصہ آخر امریکی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیوں اور کیسے کررہا ہے؟ ایسے میں کہ جب مسلم ممالک کے حکمراں یا تو بالکل خاموش ہیں یا پھر ٹرمپ کے ’’ٹریول بین‘‘ کی حمایت میں بیان دے رہے ہیں۔
مگر یہ نقشہ ابھی امریکہ کے بڑے شہروں میں ابھر رہا ہے۔ مڈویسٹ، بائبل بیلٹ کی امریکی ریاستوں میں صورتحال ابھی مختلف ہے۔ صدر ٹرمپ بدستور ان ججوں کے بارے میں ناراضی کے ٹوئٹر جاری کررہے ہیں جو حکم امتناعی جاری کرتے ہیں۔ ٹرمپ امریکیوں کو دہشت گردی کے ممکنہ خطرات یاد دلا رہے ہیں میڈیا کو جھوٹا اور بے ایمان کہہ رہے ہیں وہ اپنے انتخابی وعدوں کو عملی شکل دینے پر اب بھی مصر ہیں۔ نیویارک کی سب وے پر بھی نسلی اور مذہبی منافرت کے نعرے بھی کوئی لکھ گیا تو ایک مسافر نے کچھ لوگوں کی مدد سے ان لکھے ہوئے نعروں کو صاف کردیا۔ انسانی معاشروں میں جہاں اکثریت متوازن مزاج ہوتی ہے چند جرائم پیشہ متعصب اور شر انگیز عناصر بھی اسی معاشرہ میں سرگرم ہوتے ہیں لیکن معاشرہ کی نوعیت افراد کی اکثریت طے کرتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جس انداز کی انتخابی مہم کے ذریعے امریکیوں کو سیاسی طور پر تقسیم کرکے جس خوف اور امریکی تنزلی کا ذکر کرکے الیکٹورل ووٹوں کی جیت سے وہائٹ ہائوس میں داخل ہوئے ہیں ان کا ایجنڈا ہی اسی انداز کا ہے۔ کم سے کم وقت میں وہ جس طرح امریکہ اور دنیا کو تبدیل کردینا چاہتے ہیں اسی تیز رفتاری کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے دور صدارت کے ابتدائی 15؍دنوں میں ہی داخلی سطح پر تو عدالتی محاذ پر الجھ گئے ہیں جبکہ بیرونی دنیا میں قریب ترین امریکی حلیف برطانیہ کا دورہ کرنے کی مخالفت میں برطانوی اسپیکر بھی بول اٹھے۔
امریکہ میں آباد مسلمانوں کے لئے نائن الیون کے مقابلے میں اس بار عام امریکی شہریوں میں جو بہتر صورتحال پائی جاتی ہے اس کی متعدد وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس بار پہلی مرتبہ امریکی مسلمانوں نے آگے بڑھ کر سیاسی نظام اور انتخابات میں بطور شہری اور ووٹر بھی حصہ لیا ہے۔ ہیلری کلنٹن اور ڈیموکریٹ ناکام رہے مگر مسلمانوں نے اپنی تعداد، حیثیت اور صلاحیت سے بڑھ کر اپنا رول ادا کیا اور سیاسی حلیف اور رفیق بنائے آج مسلمانوں کی حمایت کرنے والوں میں ڈیموکریٹ اراکین کانگریس، میئرز، ریاستی اسمبلی کے اراکین، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ادارے شامل ہیں جو لبرل سوچ، ملٹی کلچر اور ملٹی ریشیل ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں۔ امریکہ میں آباد ہونے والی دیگر کمیونٹیز کی طرح ہم مسلمانوں کو بھی مشکلات اور چیلنجز سے گزرنا پڑا۔ آئرش، اٹالین، یہودی اور دیگر کمیونٹیز نے بھی امریکہ میں آباد ہونے کا خراج کسی نہ کسی صورت میں ادا کیا ہے۔ اب 15؍سال کی مشکلات کے دوران امریکہ میں ایک نئی مسلم نسل جوان ہوکر مختلف شعبوں میں کامیابی سے کام کررہی ہے۔ ان نوجوانوں کا تلفظ، حس مزاح، اور اپروچ بالکل امریکی انداز کا ہے اب وہ مسلمان نسل سامنے آرہی ہے جو اپنے والدین کے آبائی وطن اورورثہ سے ربط تو رکھتے ہیں لیکن ان کے لئے خود کو امریکی مسلم کہلانا زیادہ اچھا لگتا ہے۔
رہی بات ڈونلڈ ٹرمپ کا دور کیسے گزاریں تو جب تک ہم اقلیتوں، ڈیموکریٹس اور لبرل امریکیوں کے الائنس کا حصہ ہیں تو یہ اس پورے الائنس کے لئے آزمائش کا دور ہے لبرل امریکی میڈیا بھی ٹرمپ کی دشمنی اور نفرت کے مراحل سے گزر رہا ہے لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ ٹرمپ نے صرف 7مسلم ملکوں کے شہریوں پر ’’بین‘‘ لگایا تو اقلیتوں کے اسی ڈیموکریٹک الائنس نے ٹرمپ کے اختیار کو چیلنج کرنے اور مزاحمت کی ایک مضبوط لائن قائم کرکے سڑکوں پر احتجاج، میڈیا پر مباحثوں اور عدالتوں میں قانونی جنگ کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے۔ ججوں کے بارے میں ٹرمپ کے تنقیدی ٹوئٹس وہائٹ ہائوس کی پریشانیوں کے ترجمان ہیں۔ بقیہ ایگزیکٹو آرڈرز کے ڈرافٹ نظرثانی کرکے مزید غور و فکر کے بعد جاری ہوں گے۔ نظام کو اپنے ایجنڈے کے لئے مولڈ کرنے کے خواہشمند ٹرمپ اب خود کو امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مولڈ ہونے کے بارے میں سوچتے نظر آتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کو امریکہ میں متنازع، یورپ میں غیرسنجیدہ اور ایشیا و افریقہ میں خطرناک کے طور پر ابھی سے لیاجارہا ہے۔ صرف دولت مند طبقہ اور نسل پرست عناصر بوجوہ خوش ضرور مگر عام امیج اچھا نہیں۔ مسلمانوں پر امریکہ کے لئے سفر کی پابندیاں معطل اور عدالت کے زیر سماعت ہیں جس کا فیصلہ اس کالم کی اشاعت تک آجائے گا لیکن امکان ہے کہ اس فیصلے کی اپیل سپریم کورٹ میں کی جائے اور آخری فیصلہ ہونے میں مزید کچھ وقت لگے مگر یہ بھی مسلم کمیونٹی کی آزمائش کا محض ایک مرحلہ ہے۔ مستعدی اور دانشمندی کے ساتھ موجودہ الائنس سے وابستہ رہ کر ٹرمپ دور کو گزارنا ہوگا۔ امریکہ میں مسلمانوں کی نئی نسل کے لئے اور کوئی راستہ ہی نہیں وہ تو امریکی شہری ہیں اور انہیں اپنا حال اور مستقبل اسی امریکہ میں گزارنا ہے انہیں اپنی جگہ اسی امریکی معاشرے اور سیاسی و معاشی نظام میں بنانی ہے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ تعلیم یافتہ باصلاحیت اور نمایاں مسلم اقلیت کے طور پر مشکلات اور چیلنجوں سے گزر کر اپنی شناخت کو تسلیم کروانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔ حال بتا رہا ہے کہ مستقبل بڑا خوشگوار ہوگا۔ ٹرمپ دور بھی عارضی ہے۔ صدر ٹرمپ! امریکی مسلمانوں کو بیدار اور متحرک کرنے کا شکریہ۔



.