کشمیر،پس منظر پیش نظر

February 15, 2017

فرنگی نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو اس کی وحدت ختم کرنے کی خاطر اس نے تقریباً چھ سو ریاستیں قائم کیں، جہاں راجائوں، مہاراجائوں، نوابوں اور شہزادوں کی حکومتیںتھیں۔ بعض ریاستیں تو اس قدر وسیع و عریض تھیں کہ انہیںعلیحدہ مملکت قرار دیا جاسکتا تھا، جیسا کہ حیدر آباد دکن۔ جب برطانیہ نے ہندوستان سے واپس جانے کا فیصلہ کیا تو ریاستوں کے الحاق سے متعلق تین جون 1947 کا اعلان غیر واضح تھا، اس میں کہا گیا تھا کہ ’’وہ اقتدار اعلیٰ (Paramouncy) جو ریاستوں نے حکومت برطانیہ کو اپنی رضا سے منتقل کیا تھا، اب یہ اقتدار اعلیٰ حکومت برطانیہ سے واپس ریاستوں کو منتقل ہو جائے گا۔‘‘ ریاستوں کے والیوںاور عوام کو یہ پتہ نہیںتھا کہ ریاستیں کس طرح الحاق کریں گی۔ کانگریس کی پالیسی یہ تھی کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاستی عوام کریں جبکہ مسلم لیگ یہ اختیار ریاستی حکمراں کو دینے کی خواہاں تھی۔ خیر انتہائی کم عرصے میں سردارولبھ بھائی پٹیل(ریاستی امور کے وزیر) اور لارڈ مائونٹ بیٹن کے گٹھ جوڑ سے تین کے ماسوا تمام ریاستوں نے بھارت سے الحاق کر لیا۔ یہ تین ریاستیں حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، اور کشمیر تھیں۔ مشکل امر یہ تھا کہ حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کے نواب اگرچہ مسلمان تھے لیکن آبادی ہندو تھی جبکہ کشمیر کا حکمراں اگرچہ مہاراجہ ہری سنگھ تھا مگر غالب اکثریت مسلمانوںکی تھی۔ تاہم دلچسپ بات یہ تھی کہ مہاراجہ بھارت کے ساتھ یوں نہیں جاسکتے تھے کہ انہیں پتہ تھا کہ ایسی صورت میںپھر حکمرانی سے ہاتھ دھونے پڑیں گے، دیگر کے علاوہ یہ وجہ بھی تھی کہ مہاراجہ کانگریس مخالف تھا، یہاں تک کہ شیخ عبداللہ کی گرفتاری کیخلاف جون 1946میں جب نہرو نے کشمیر جانے کی کوشش کی تو اُنہیں کشمیر میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ تاہم دوسری طرف مہاراجہ کو نوازئیدہ مسلمان مملکت میںبھی تحفظ کا یقین نہیں تھا، اس لئے وہ لیت ولعل سے کام لیتا رہا تاکہ کشمیر کو خود مختار حیثیت دی جائے۔ 22 اکتوبر 1947 کے واقعہ کو برطانیہ نے کشمیر پر حملہ قرار دیا۔ اس سلسلے میں لارڈ مائونٹ بیٹن کے سیکرٹری جانسن نے اپنی کتاب (Mission with Mount Batten میں یوں لکھا ہے’’لارڈ مائونٹ بیٹن، جواہر لعل نہرو کی دعوت میں شریک تھے جہاں مجاہدین کےحملے کی اطلاع ملی، تو فوری اگلے روز اجلاس ہوا جس میںکہا گیا (الزام لگایا گیا) کہ یہ حملہ چونکہ پاکستان کی منشا کے تحت ہوا ہے اس لئے مہاراجہ اگر چاہے تو ہندوستان اس کی مدد کرے گا مگر شرط یہ ہوگی کہ ایسی صورت میںمہاراجہ کو ہندوستان کے ساتھ عارضی الحاق کرنا ہوگا۔ برطانوی نمائندوں کا اصرار تھا کہ حالات معمول پر آنے کے بعد عبوری حکومت کے تحت ریاستی عوام کی جو آرا ہوگی اسی کے مطابق الحاق کا حتمی فیصلہ ہوگا۔‘‘ چنانچہ ریاستوں کے سیکرٹری وی پی مینن کے توسط سے اس فیصلے پر عملدرآمد یوں کیا گیا کہ 27 اکتوبر1947 کو بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کردیں، یہی نہیں کہ عارضی الحاق کے نام پر جو قبضہ کر لیا گیا تھا وہ آج تک برقرار ہے بلکہ بعد ازاںبھارت خود اس مسئلے کو اقوام متحدہ لے گیا۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ جہاں بھارت نے رات کے اندھیرے میں وار کیا تو وہاں ہم نے بھی دن کےاُجالے میں فاش غلطیاں کیں۔ یہ ایک تاریخی مغالطہ ہے کہ پختون قبائل نے سری نگر پر قبضہ کرلیا تھا، قبائل تو بارہ مولا سے آگے جاہی نہیںسکے تھے، بارہ مولا اور سری نگر کے درمیان میدانی علاقہ ہے، قبائل میدانی علاقوں میں لڑنے کا تجربہ نہیں رکھتے۔ سری نگر پر قبضہ اصل مجاہدین و کشمیریوں نے کیا تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن قبائلی لشکر کے ایک بڑے حصے نےایسا نامناسب طرز عمل اپنایا جس کی یادیں آج بھی کشمیریوں کو دکھ دیتی ہیں۔ یہاں تک کے ممتاز مسلم لیگی رہنما پیر صاحب مانکی شریف امین الحسنات بھی ایسے واقعات پررنجیدہ ہوئے تھے۔ ریکارڈ کی درستی کیلئے یہ بھی یاد رہے کہ آزاد کشمیر پاک فوج اورکشمیریوں نے آزاد کرایا تھا ۔سوال یہ بھی ہے کہ اگر سب کچھ قبائل ہی نے کیا تھا تو پھر وہ کشمیر ی کہاں تھےجو تقسیم ہند کے وقت اپنی دھرتی ماں سے لپٹ گئے تھے اور جن کی نسلیں آج تک خون کا نذرانہ پیش کررہی ہیں۔بلاشبہ پختون قبائل نے سکند راعظم سے لیکر فرنگی استعمار تک ہر غاصب کو شکست سے دوچار کیا ،اور پشتو کے عظیم شاعر غنی خان کے مطابق اس خطے کے ہر درے میں ان کے خون کے نشان موجو د ہیں لیکن کشمیر کے حوالے سے کشمیریو ں کی قربانی کو کسی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھانا تاریخی جبر قرار پائےگا۔ گورنر سرحد سر جارج کنگھم کا کہنا ہے کہ میںنے جب جناحصاحب سے بات کی کہ کشمیر پر حملہ دولت مشترکہ کے دو ملکوں کے درمیان سخت مشکلات پیدا کردے گا ، تو جناح صاحب نے جواب دیا، مجھے حملے کا علم نہیں تھا۔ اب جارج کنگھم کی بات کہاںتک درست ہے! اس سے قطع نظر عرض یہ کرنا ہے کہ قبائل کی جدوجہد نے اگر ہمیں نقصان نہیں پہنچایا ہے تو اس سے ہم حاصل بھی کچھ نہیں کرسکے ہیں۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کی حکومت نے جیسے کشمیر کے مسئلے کو لپیٹ ہی لیا تھا۔ کشمیر پر لیاقت علی خان اور امریکہ کے اختلافات پیدا ہوگئے تھے اُن کی شہادت کے بعد یہ اختلافات ختم کرنے کیلئے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے امریکہ کا دورہ کیا تھا جس کے متعلق امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ایچی سن اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں’’ظفراللہ نے کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا، دراصل غلام محمد کی حکومت امریکہ کے مزید قریب آنا چاہتی ہے‘‘ پھر 1955میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو آئین میں شامل کرلیا لیکن ہم آج تک کشمیر کو ایسا کوئی اسٹیٹس نہیں دے سکے، یہاں تک کہ گلگت بلتستان بھی اس لئے آئینی حقوق سے محروم ہے کہ ہمارا مقصود استصواب رائے کے موقع پر یہاں کے باشندوں کےووٹ ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم حق پر ہیں اور طاقت کے کسی بھی پیمانے میں بھارت سے کم نہیں، تو پھر واضح پالیسی اپنانے سے کیوںہچکچاتے ہیں؟ مزید یہ کہ کیا وجہ ہے کہ برحق موقف رکھنے کے باوجود چین سمیت کوئی بھی ہمارا دوست و برادر ملک اس سلسلے میں ہمارا اس طرح ساتھ نہیںدیتا جوحل کے لئے ناگزیر ہے۔ غیروں کے کردار سے قطع نظر اہل وفا کاولولہ تازہ مگر یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی ریاست و عوام کی رائے ایک اور دو ٹوک ہے اور کشمیر کی آزادی کا قرض ریاست پر واجب الادا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے حکمراں اس قرض کی ادائیگی کے لئے کب اور کونسی قابل حل پالیسی اپناتےہیں۔



.