ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی ... خصوصی تحریر…زبیرحسن

February 17, 2017

’’جب تک پاکستانی عورت بااختیار نہیں ہوگی مردکے ہاتھوں ظلم سہتی رہے گی۔‘‘ حقوق نسواں کی جھنڈا بردار خاتون گلا پھاڑ پھاڑ کر مجمع پر اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کررہی تھی۔ خاتون نے پاکستانی ، خاص طور پر دیہات کی عورت کی مظلومیت کا ایسا نقشہ کھینچا کہ مجھے گاؤں کی کئی مظلوم خواتین یاد آگئیں ۔ پہلا خیال اپنی ہمسائی رشیداں بی بی کا آیا جو کم و بیش روزانہ دھان پان سے میاں پر ایسی ’’لفظی چڑھائی‘‘ کرتیں کہ آدھا محلہ سنتاتھا۔طعنے ایسے کہ زباں پر توکیا تحریر میں بھی نہیں لائے جاسکتے۔ ایک بار رشیداں بی بی کا غصہ اس حد تک چلا گیا کہ پکتی ہانڈی کے نیچے سے جلتی لکڑی کھینچ کرشوہر کو دے ماری ۔ مجال ہے اس ظالم نے جوابی وار کا سوچا بھی ہو۔ہمارے ایک استاد جتنے میٹھے اورنرم تھے ،ماسٹرانی جی اتنی ہی تیزاور مرچ مزاج واقع ہوئی تھیں۔ وہ ماسٹر جی کی ایسی’’ صوتی کلاس‘‘ لیتیں کہ ہم خوف کے مارے سارےٹیوشن ویوشن بھول جاتے ۔ ایک دن ہمارا ایک ساتھی بو ل ہی پڑا۔’’ماسٹر صاحب خاموش ہیں،آپ رکنے کو تیار نہیں۔کچھ تو خدا کا خوف کریں۔‘‘ماسٹرانی جی نے اس گستاخ کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھا اور بولیں۔’’ یہ تیرا ماسٹر بڑا میسنا ہے، مجھے دل ہی دل میں برا بھلا کہتا ہے ۔‘‘ پھر اس بے ادب کو بازو سے پکڑا اور نکال باہر کیا۔ ایک مرتبہ عین اسکول جاتے وقت میرا جوتا ٹوٹ گیا، مجھے معلوم تھا کہ موچی اس وقت ٹھیکے پر فٹ بال سی رہا ہوگا ، جوتے کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔ سیدھا چاچی کے پاس گیا ، ہاتھ پر اٹھنی رکھی ۔ اگلے لمحے جوتے کی مرمت شروع ہوگئی اور موچی کی ٹھیکے داری کا بلبلہ ٹھس ہوگیا ۔ ہم دوست ایک میدان میں ہاکی کھیلا کرتے تھے۔ ایک روز چوہدری صاحب نے وہاں ہل پھروا کے گندم بو دی۔ اگلے دن ہم سب دوست مل کر چوہدررانی جی کے گھر پہنچ گئے جس میںچوہدری کا اپنا بیٹا بھی شامل تھا۔انہوں نے چوہدری صاحب کوکھڑے کھڑے لائن حاضر کرلیا اور بولیں۔’’تم ایک آدھ ایکڑ میں گندم نہیں اگاؤ گے تو ہم بھوکے نہیں مرجائیں گے۔جاؤبچو کھیلو جاکر۔‘‘ چوہدری صاحب اس وقت گل جی کا مجسمہ لگ رہے تھے ۔ اقبال نائی سے مرضی کی کٹنگ کرانی ہو، اشرف لوہار سے چاقو چھری تیز کرانی ہو ،شیدے کولار کے گھر کی چاٹی کی لسی پینی ہو،اینٹ مٹی گارے کیلئے جلال کمہار کے ریڑھے کی ضرورت پڑے، شیدے سمرا سے سرسوں کا ساگ منگوانا ہو، گلزارراجپوت کی دکان سے ادھار لینا ہو،ہر جگہ مظلوم و محکوم اور ’’بے اختیاردیہاتی بیویوں ‘‘کی ایسی سفارش چلتی تھی، جسے کوئی پھنے خان ٹال نہیں سکتا تھا۔ہاں جونے ماچھی جیسے کچھ لوگ بھی موجود تھے جو بیوی کو جوتی سمجھتے تھے ، یہ شخص ہر ماہ دو ماہ بعد اپنی گھر والی کو ڈنڈوں سے پیٹتا اور نیل و نیل کر دیتا ، بیوی روٹھ کر میکے چلے جاتی تو اسے واپس لانے کے لئے علاقہ معززین کی منتیں کرتا،سسرال جا کر ناک رگڑتا،یہ کام اس نے اتنی بار کیا کہ اس کی ستواں ناک چینیوں جیسی ہوگئی تھی لیکن کم بخت بیوی کو جوتی کہنے سے پھر بھی باز نہیں آتا تھا ۔رفیقہ خاتون ہمارے گاؤں ہی نہیں پورے علاقے میں مقبول تھیں ۔انتہائی نیک، ملنسار اور نرم دل ۔ یہ عورت سبزیوں کا ٹوکرا سر پر رکھ کر قریہ قریہ گھومتی لیکن اس کا مجازی خدا سارا دن گھر میں بیٹھا حقہ پیتارہتا۔جب کوئی رفیقہ خاتون سے پوچھتا کہ وہ اپنے میاں کو کام کرنے کا کیوں نہیں کہتی تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ’’بے چارہ بیمار ہے،اس سے کام نہیں ہوتا۔‘‘ رفیقہ تو جلد ہی مر گئیں لیکن اس کا میاں بیوی کے غم میں پورے پندرہ سال تک حقہ گڑگڑاتار ہا۔ گاؤں میں بے شک ’’لیڈیز فرسٹ‘‘ کی بناوٹی آوازیں سنائی نہیں دیتیں لیکن اس کے عملی مظاہرے آپ کو ہر گلی اور ڈیرے پر نظر آئیں گے۔ شہروں میں مناظر مختلف ہوتے ہیں لیکن بنیادی فلسفہ یہاں بھی نہیں بدلتا۔کسی محکمے میں کوئی کام پھنس جائے، ملازمت کا معاملہ ہو، حتیٰ کہ کسی سیاسی پارٹی کا ٹکٹ درکار ہو ، لوگ بیگمات کی جی حضوری کے راستے ڈھونڈتے ہیں۔ شاپنگ یا شادی کی تقریبات میں بچے اٹھانے کی ذمہ داری مرد کی، ہوٹل میں کھانے کا مینیو بیگم کے سامنے ، گھر کے مالی امور اور ٹی وی ریموٹ کی انچارج بھی بیوی ۔اور تو اور ابا کے گھبر سنگھ کہلانے کا زمانہ بھی بیت چکا،اب ماں نہیں کہتی’’چپ کر نہیں تو ابا آجائے گا‘‘ اس کے باوجود ورلڈ اکنامک فورم عورت سے صنفی امتیاز میںپاکستان کو 144 ملکوں میں 143 واں نمبر دے رہی ہے جو بہتان ہی کہا جاسکتا ہے، آج کا مرد بیوی بچوں سے زیادہ فرینڈلی اور کوآپریٹو ہے۔ کتنے دوستوں کوآپ نے یہ کہتے سنا ہوگا’’ یار ابو تو مان گئے لیکن امی نہیں مانتیں۔‘‘ماں ہی کی خواہش کے سامنے آج بھی سیکڑوں نوجوان گھوڑی نہیں سولی چڑھتے ہیں۔رہی بات عورت پر تشدد کی تو دنیا کا کوئی خطہ اس سے پاک نہیں، جونے ماچھی آپ کو مشرق اور مغرب ہر جگہ ملیں گے ۔کچھ عرصہ پہلے کراچی میں ماضی کے اسٹار کھلاڑی کی بیوی شوہر کے خلاف تشدد کی شکایت لے کر تھانے پہنچ گئی تھی۔ پچھلے سال جنوبی افریقہ کے ایتھلیٹ آسکر پسٹوریئس نے ویلنٹائن ڈے پرگرل فرینڈز کو سرخ گلاب کی جگہ موت کا تحفہ دیاتھا۔اکادکا واقعات سے قطع نظر پاکستان میںمجموعی طور پر عورت کو مقام احترام اور یقینا ’’اختیار‘‘ بھی حاصل ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ ہر مرد جونا ماچھی ہے نہ ہر عورت رشیداں بی بی ۔ تمام مر د یکساں دانش رکھتے ہیں اورنہ ساری عورتیں ناقص العقل۔ ویسے آپ یقین کریں یا نہ کریں کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’دنیا بھر کے نوے فیصد مرد اپنی بیوی سے ڈرتے ہیں باقی دس فیصد جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘ اس کے باوجود ’’ناحق مردوں‘‘ پر مختاری کی تہمت ہے کہ جاتی نہیں۔

.