مسلم یہودی رابطے ۔تاریخ ساز گانگریس مین

March 01, 2017

ری پبلکن صدر ٹرمپ 28 فروری کی شب امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر کے اپنی صدارت کے 40 دن مکمل کر رہے ہیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ 50 ارب ڈالرز کے سالانہ بجٹ سے دنیا بھر میں امریکی ڈپلومیسی کی ذمہ داریاں ادا کرتا رہا ہے لیکن صدر ٹرمپ اس میں بھی کمی کر رہے ہیں اسی لئے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے بہت سے ملازمین استعفیٰ دے کر متبادل راہ اختیار کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ حکومتی محکموں اور اخراجات میں 54 ارب ڈالرز کی کمی کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ دفاع کے شعبے میں نہ صرف 54 ارب ڈالرز کا اضافہ کر کے ڈیفنس بجٹ 603 ارب ڈالرز اور غیر دفاعی بجٹ 462 ارب ڈالرز کرنا چاہتے ہیں۔ 16 مارچ تک امریکی کانگریس میں بجٹ پیش کر کے مئی کے وسط تک وہ بجٹ کی منظوری کا پروگرام رکھتے ہیں۔ غیر ملکی امداد کا بجٹ تو امریکی بجٹ کا ایک معمولی سا حصہ ہوتا ہے لہذا اس میں مزید کمی کرنے یا نہ کرنے سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ اس کے علاوہ صدر ٹرمپ امریکی کانگریس سے 30 ارب ڈالرز کے ضمنی دفاعی فنڈز کی درخواست بھی علیحدہ سے کرنے والے ہیں جو اسی مالی سال میں خرچ ہوں گے۔ مذکورہ بالا امورمیں سے بعض بلا واسطہ یا بالواسطہ امریکی کانگریس سے خطاب کا حصہ بتائے جاتے ہیں جو اس کالم کی اشاعت تک آپ کے سامنے آچکا ہوگا۔ اس بارے میں ایک امریکی تبصرہ نگار نے کیا خوب کہا ہے کہ صدر ٹرمپ ’’ڈپلومیسی پر گولی کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘‘ بات بڑی حد تک درست ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ووٹروں سے کئے گئے انتخابی وعدوں پر تیزی سے عمل کر کے حکومتی اداروں کو کمزور کر کے امریکی فوجی عالمی برتری کو بحال کرنے کے ایجنڈے کو عملی شکل دینا چاہتے ہیں اور امریکی افواج کو نوجوان فراہم کرنے والی امریکی ریاستوں کے ووٹرز کو بھی مطمئن کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اور صورتحال غیر ملکی حکمرانوں اور حکومتوں کے لئے بھی بری خبر ہے۔ ہمارے جنوبی ایشیا کے خطے میں تو بھارت کو اپنے اخراجات اور امریکی انفارمیشن کے تعاون پر امریکی اور بھارتی مفادات کے مطابق کام کرنے کی چھوٹ دے کر افغانستان میں مشترکہ اثر و نفوذ کو بھی کام میں لانے کا پلان بن چکا ہے۔ داعش کو ختم کرنے کے لئے جنرل (ر) میٹس نے صدر ٹرمپ کو اپنا پلان پیش کر دیا ہے۔ گو کہ صدر ٹرمپ اپنے وعدوں اور ایجنڈے کے بارے میں تیزی اور توجہ سے عمل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں لیکن ان کے اردگرد کنفیوژن کا ماحول وہائٹ ہائوس سے لے کر پوری حکومتی مشینری، امریکی معاشرے، خود ان کی ری پبلکن پارٹی تک پھیلا ہوا ہے۔ امریکہ کے مسلمان اور یہودی یکساں طور پر خوف اور تشویش کا شکار ہیں۔ امریکی حکومت اور معاشرے میں مذہبی رواداری کی بجائے مذہبی منافرت کو فروغ ہو رہا ہے۔ٹرمپ کے صدر بننے سے اب تک کئی مساجد کی بے حرمتی اور حملوں کے واقعات ہو چکے ہیں۔ ٹیکساس میں مسجد کی آتشزدگی ’’ٹریول بین‘‘ سے بھی مسلم کمیونٹی میں خوف و ہراس پیدا کر دیا گیا۔ وہ تو امریکہ کے لبرل غیر مسلم اور لیڈرز کا بھلا ہو کہ وہ مسلم اقلیت کے ساتھ کھڑے ہو کر ٹرمپ کی ’’مسلم مخالف‘‘ پالیسیوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وہائٹ ہائوس میں صدر اوباما کے دور سے اسکارف پہن کر نیشنل سیکورٹی شعبہ میں کام کرنے والی بنگلہ دیشی نژاد امریکی لڑکی رومانہ احمد کے مطابق وہ صدر ٹرمپ کے وہائٹ ہائوس میں نئے معاونین اور عملہ کے بدلے ہوئے انداز اور سرد رویوں کے باعث صرف دو ہفتے میں ہی اپنی اچھی خاصی سرکاری ملازمت چھوڑ چکی ہے ۔ وہائٹ ہائوس کے ترجمان نے ’’گڈ لک‘‘ کہہ کر رومانہ احمد کے استعفیٰ کی تصدیق کر دی۔ مذہبی منافرت کا دائرہ اب مزید وسیع ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ موثر، خوشحال اور امریکی کانگریس میں اپنے ہم مذہب سینیٹر اور کانگریس مین رکھنے والی متحرک یہودی کمیونٹی بھی اسی منافرت کا شکار ہے۔ نواحی ریاست پنسلوانیا میں یہودی قبرستان میں درجنوں قبروں اور کتبوں کی توڑ پھوڑ اور یہودیوں کے خلاف نفرت انگیز نعروں کی تحریر تازہ واقعہ ہے حالانکہ ٹرمپ کی انتخابی کامیابی میں اس ریاست کا رول کلیدی ہے۔ اس سے پہلے ریاست مسوری کے شہر سینٹ لوئس کے ایک یہودی قبرستان میں بھی جب بڑی تعداد میں قبروں اور کتبوں کی اکھاڑ اور بے حرمتی کا واقعہ ہوا تو وہاں کے مسلمانوں نے آگے بڑھ کر ایک فنڈ قائم کر کے یہودی قبروں کی مرمت و بحالی کے لئے رقم اکٹھا کی۔ مسلم اقلیت اور یہودی اقلیت دونوں الہامی مذاہب پر عمل کرنے والی امریکی اقلیتوں کو یکساں مذہبی منافرت اور تعصب کا سامنا ہے جس سے ان کے درمیان روابط اور مسائل سے نمٹنے کے لئے تعاون کی ضرورت ہے جس میں متعدد عیسائی پادری اور لبرل شخصیات بھی شامل ہیں۔مسلمان امریکی آبادی میں صرف ایک فی صد اقلیت ہیں۔ ہمیں دیگر اقلیتوں کی حمایت رابطوں اور مشترکہ ایکشن کی ضرورت لازمی ہے ورنہ آپ کی کوئی شنوائی نہیں ہوگی، ایک فیصد کی پروا کون کرے گا۔ ٹرمپ حکومت کے ایام میں مسلمانوں کے لئے حمایت کے احتجاجی مظاہروں اور سوشل میڈیا میں دیگر اقلیتوں کی حمایت نے ہی توجہ اور اور دبائو پیدا کیا ہے ورنہ 9-11 کے بعد امریکہ کے مسلمان جس تنہائی اور مشکلات کا شکار ہوئے تھے وہ سب کے سامنے ہے۔ ابھی بھی گزشتہ 50 سال میں امریکہ آکر آباد ہونے والی مسلم کمیونٹی کے لئے قبولیت اور اسےوہ حیثیت حاصل نہیں جو دیگر اقلیتوں کو حاصل ہے۔ اس بارے میںیہ ایک تازہ تلخ حقیقت ہے۔کیتھ ایلی سن ایک پیدائشی امریکی شہری ہیں۔ وہ اپنے زمانہ طالبعلمی میں ہی اسلام قبول کر کے مشرف بہ اسلام ہو گئے ان کے بقیہ خاندان میں پادری بھی ہیں۔ ریاست منی سوٹا کے یہ سیاہ فام رہائشی نہ صرف اپنی ریاستی اسمبلی کی تاریخ میں پہلے مسلم ممبر منتخب ہونے کا ریکارڈ قائم کر چکے ہیں بلکہ امریکہ کی تاریخ میں بھی منتخب ہونے والے پہلے مسلمان کانگریس مین ہیں جنہوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے لئے بائبل کی بجائے قرآن کریم مانگا اور آنجہانی امریکی صدر تھامس جیفرسن کے نوادرات میں شامل قرآن کے نسخہ پر حلف اٹھا کر مسلم دنیا کی توجہ اور امریکہ میں سخت تنقید حاصل کی۔ 2007ء سے اب تک وہ اپنے حلقہ سے کانگریس میں منتخب ہو رہے ہیں۔ حالیہ امریکی صدارتی الیکشن میں ہیلری کلنٹن کی شکست اور امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں ری پبلکن اکثریت کے باعث ڈیمو کریٹک نہ صرف ڈپریشن کا شکار رہے بلکہ منظم ہونے کے لئے مضبوط قیادت اور حکمت عملی کی کمی کا شکار بھی ہے۔ چونکہ ڈیموکریٹک پارٹی کی تمام ریاستوں میں قائم شاخیں مکمل طور پر آزاد اور اپنے ضوابط رکھتی ہیں لہذا ان کے درمیان قومی کنکشن اور معاملات کے لئے تمام ریاستوں سے وفد بھیجے جاتے ہیں جو ڈیمو کریٹک نیشنل کمیٹی (DNC) کا حصہ اور ووٹر ہوتے ہیں۔ 447 ڈیلی گیٹس اور ووٹروں میں مشتمل اس اہم کمیٹی کے چیئرمین کے لئے کیتھ ایلی سن گزشتہ تین ماہ سے نہ صرف سرفہرست امیدوار تھے بلکہ سینیٹر برنی سینڈرز جیسے مقبول ڈیموکریٹس نے ان کی حمایت کا بھی اعلان کر دیا تھا۔ اسی طرح سینیٹر چارلس شومر اور کئی حلقوں کی حمایت کے باعث کیتھ کے متعدد مخالف امیدوار دست بردار ہو گئے اور یقینی صورتحال تھی کہ کیتھ اس کمیٹی کے چیئرمین ہوں گے۔ ادھر ری پبلکن پارٹی اس صورتحال پر خوش تھی کہ قومی سطح پر ڈیموکریٹک پارٹی کا یہ مسلمان لیڈر ری پبلکن پارٹی کے لئے چار سال تک تنقید کا ایک اچھا ٹارگٹ ہو گا۔ ادھر ڈیمو کریٹک پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی صورتحال کے لحاظ سے سابق صدر اوباما کے لاطینی نژاد ٹام پریز کو اس عہدے کے لئے کھڑا کردیا۔ ووٹنگ کے دو رائونڈ اور صرف 35 ووٹوں سے کیتھ ایلی سن کی شکست اور پھر کیتھ کو ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر متفقہ منتخب کرنے کی تفصیلات واضح کرتی ہیں کہ امریکہ ابھی مسلمانوں کو ’’ٹاپ رول‘‘ سیاسی نظام میں دینے کو تیار نہیں ہے۔



.