فاٹا میں نئے دور کا تاریخی آغاز

March 05, 2017

آج سے بیس برس قبل جب ابھی نائن الیون نہیں ہو ا تھا لیکن دہشت گردی کاا مڈتا طوفان ملاحظہ کرتے ہوئے ہم نے یہ استدلال تحریر کیاکہ فاٹا کو جلد از جلد فرنٹیئر میں ضم کر دیا جائے یہ کوئی غیر معمولی دانشمندی نہ تھی۔ فاٹا کے اندرونی حالات سے باخبر کوئی بھی شخص اسی نتیجہ پر پہنچ سکتا تھا بلکہ یہ فیصلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہو جا نا چاہئے تھا مگر ہمیں بتایا گیا کہ ریاست پاکستان انگریز دور کے کسی معاہدے کی پابند ہے کہ وہ ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی حالانکہ یہ ایک بودی دلیل تھی بالخصوص جب ہمارا پہلا آئین بنا تھا تو اس کی عملداری بلا تمیز و تخصیص تمام اہل وطن اور خطوں پر مساویانہ و منصفانہ اسلوب میں ہونی چاہئے تھی جبکہ یہاں حالت یہ رہی کہ قتل جیسی گھنائونی واردات ہو جاتی تو کہا جاتا کہ مبینہ قاتل مفرور ہو کر علاقہ غیر میں جا چکا ہے حتیٰ کہ کوئی گاڑی بھی چوری ہو جاتی تو پولیس کی طرف سے یہ کہانی سنائی جاتی کہ آپ کی گاڑی تو فاٹا پہنچ چکی ہے وہاں تو ہمارا کوئی اثر ورسوخ نہیں ہے۔ ایسی فضا میں اگر یہ بد نصیب خطہ دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن گیا تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہونی چاہئے۔
آج برطانوی اخبار ’’ ڈیلی میل‘‘ یہ لکھ رہا ہے کہ ’’شمالی وزیرستان کا علاقہ ایک عشرے سے زائد تک عالمی دہشت گردی کا اہم مرکز رہا ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ شہید وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی یہ تمنا تھی جس کا وہ بارہا اظہار بھی کرتی رہیں کہ فاٹا کو قومی دھارے میں لا یا جائے گا۔ لیکن یہ سعادت شاید قدرت نے وزیراعظم نواز شریف کے نام لکھی تھی جنہوں نے 2015 میں بزرگ سیاستدان سر تاج عزیز کی قیادت میں فاٹا اصلاحات کمیٹی تشکیل دی اس کمیٹی نے خطے کا دورہ کرتے ہوئے قبائلی عمائدین، سرکاری و غیر سر کاری ذمہ داران سے میٹنگز کیں اور اب کابینہ میں اپنی 24نکاتی سفارشات پیش کیں جنہیں وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں منظور کرتے ہوئے یہ تاریخی فیصلہ سامنے آیا کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا جائے گا یوں تعمیر و ترقی کا ایک قابلِ اطمینان پیکج دیا جا رہا ہے اور سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ 2018 کے انتخابات میں ون پرسن ون ووٹ کا اصول اپناتے ہوئے قبائل کے عوام کو براہِ راست حق نیابت دیا جا رہا ہے کہ وہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے لیے اپنے نمائندے آبادی کی بنیاد پر خود منتخب کر سکیں گے سینیٹ میں بھی آئینی طریقِ کار کے مطابق انہیں نمائندگی حاصل ہو گی جو ظاہر ہے کہ کے پی سے منسلک ہو گی۔
یہاں ہم مولانا فضل الرحمٰن کے اختلافی نقطہ نظر یا تحفظات پر یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ کسی نوع کے ’’ریفرنڈم‘‘، ’’ضم کرنے‘‘ یا’’ قومی دھارے میں لانے ‘‘ کی بحث غیر ضروری تھی جس کی توقع کم از کم مولانا جیسے عملیت پسند منجھے ہوئے سیاستدان سے نہیں کی جا سکتی تھی ۔ فاٹا میں مولانا کی جمعیت العلماء کے اثر و رسوخ سے ہمیں انکار نہیں ہے لیکن اگر مسئلہ کریڈٹ کا ہے تو وہ انہی کا ہے کیونکہ وہ اس وقت حکومتِ پاکستان کے اتحادی کی حیثیت سے کابینہ میں بھی نمائندگی رکھتے ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ اگلے روز انہوں نے وزیراعظم پر اپنے تمام اعتراضات واپس لیتے ہوئے شمالی وزیرستان میں کرم تنگی ڈیم پروجیکٹ کی افتتاحی تقریب میں نہ صرف شرکت کی بلکہ دعا بھی فرمائی۔
کرم تنگی ڈیم پروجیکٹ خطے کی ترقی میں جوہری حیثیت کا حامل منصوبہ ہے جو امریکی تعاون و معاونت سے مکمل کیا جا رہا ہے امریکی حکومت نے US ایڈ پروگرام کے تحت اس پروجیکٹ کے پہلے فیز کے لئے 81ملین ڈالر کی رقم فراہم کی ہے اس پر کل 23ارب روپے لاگت آئے گی ۔ اس موقع پر امریکی سفیر نے کہا کہ کرم تنگی ڈیم پروجیکٹ توانائی کے شعبے میں پاکستان کی اعانت اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کے عزم کا عکاس ہے اس سے خطے میں نہ صرف زرعی ترقی ہوگی بلکہ سستی بجلی بھی پیدا کی جا سکے گی۔ یہاں ایک بحث کی جارہی ہے کہ فاٹا کو KP میں ضم کرنے کی نسبت کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ اسے ایک علیحدہ صوبے کی حیثیت دے دی جاتی ہماری نظر میں یہ سوچ درست نہیں ہے جیسے کہ کمیٹی کے چیئرمین جناب سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ہمارے سامنے چار پہلو تھے ایک یہ کہ جیسا یہ ہے ویسے ہی رہنے دیاجائے دوسرے گلگت بلتستان کے پیٹرن پر ایک کونسل تشکیل دے دی جائے تیسرے یہ کہ اسے ایک علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے اور چوتھے یہ کہ اسے KP میں ضم کر دیا جائے ۔
27 ہزار دو سو بیس کلومیٹر پر محیط یہ خطہ سات قبائلی ایجنسیوں باجوڑ ، مہمند، خیبر، کرم اور کزئی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان پر مشتمل ہے جہاں درجن بھر مختلف پشتون قبائل آباد ہیں جن کی ثقافت ہی نہیں سماجی و علاقائی حیثیت بھی کے پی والوں سے جڑی ہوئی ہے جیسے جنوبی وزیرستان ٹانک اور ڈیرہ اسمعیل خاں سے اور شمالی وزیرستان بنوں وغیرہ سے، سچ تو یہ ہے کہ فاٹا سیکرٹریٹ کو پشاور میں بیٹھے لوگ ہی چلا رہے تھے ہمیں خود بھی فاٹا کے کچھ علاقے وزٹ کرنے کا موقع ملا تو یہی واضح ہوا کہ اسے KPK کا با ضابطہ سیاسی و قانونی حصہ ہونا چاہئے۔ یوں KPK کا حجم بڑھنے سے اُس کی اہمیت دوسرے صوبوں کے درمیان موجود کمی کو بہتر توازن میں لے آئے گی بلکہ ہم تو یہ نقطہ نظر رکھتے ہیں کہ آزاد کشمیر کو گلگت بلتستان سے اسی طرح ملاتے ہوئے ایک پانچواں صوبہ بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے ۔
امید کی جا سکتی ہے کہ دہشت گردی سے چھٹکارا پانے کے بعد پانچ سالہ عرصے میں خطے کی تقدیر بدلے گی یہاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی عملداری ہی نہیں ہو گی بلکہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے دفاتر کھلیںگے یوں سیاسی سر گرمیوں کے ساتھ بلدیاتی اداروں کا نیٹ ورک قائم ہو گا ان کے لئے جدید تعلیمی ادارے بنیں گے سٹرکیں اور تفریحی پارک بنیں گے اسپتال ، ڈسپنسریاں ، لائبریریاں سب کچھ آئے گا وزیراعظم نواز شریف کے الفاظ میں خوف اور فساد کا دور اپنے اختتام کو پہنچا ہے آج ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے جو تعمیر و ترقی اور مسرت و خوشحالی کا دور ہے۔



.