باقی آپ خود سمجھدار ہیں!

March 10, 2017

آج پھر ایک اہم قومی مسئلہ درپیش ہے اور اس کا تعلق اس تصویر سے ہے جو میرے کالم کے ساتھ شائع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے میری جو تصویر شائع ہوتی تھی اس میں عمومی طور پر میں مسکراتا دکھائی دیتا تھا۔ عمومی طور پر اس لئے میری ملین ڈالر مسکراہٹ والی یہ تصویر مونا لیزا کی تصویر کی طرح تھی، یعنی دیکھنے والا اسے جس زاویے سے دیکھتا تھا یہ اسے ایسی ہی نظر آتی تھی، چنانچہ خوش باش عیش پوری صاحب اور ان کے’’پیروکاروں‘‘ کو میں اس میں مسکراتا محسوس ہوتا جبکہ غمگین اندوہ پوری صاحب اور ان کے’’مریدوں‘‘ کو میں روتا دکھائی دیتا تھا، تاہم عمومی رائے یہی تھی کہ اس تصویر میں بھی مسکراہٹ نمایاں ہے، چنانچہ قارئین کا مطالبہ تھا کہ یہ تصویر بدل دی جائے کیونکہ زیر لب مسکراہٹ والی یہ تصویر جب کسی تعزیتی کالم کے ساتھ شائع ہوتی ہے تولگتا ہے کہ آپ مرحوم کا مذاق اڑا رہے ہیں، تاہم غمگین اندوہ پوری اسکول آف تھاٹ کے پیروکاروں کے نزدیک، چونکہ میں اس تصویر میں مسکراتا نہیں روتا نظر آتا تھا، چنانچہ وہ خطوط اور ٹیلیفون کالز کے ذریعے مجھے یہ باور کراتے رہے کہ آپ کی یہ رونی شکل والی تصویر آپ کے کالم کے لئے بہت موزوں ہے کیونکہ آپ جب اپنی طرف سے کوئی شگفتہ کالم لکھتے ہیں تو خود آپ کی یہ تصویر اس کوشش پر گریہ کناں نظر آتی ہے۔
میں چونکہ ہر معاملے میں قومی مفاد کو مدنظر رکھتا ہوں اور ذاتی مفاد کو پس پشت ڈال دیتا ہوں، چنانچہ میں نے قومی امنگوں اور عوام کی اکثریت کی رائے کا ساتھ دینے کے لئے اپنی یہ دل آویز مسکراہٹ والی تصویر بدلنے کا ارادہ کیا۔ میں فوٹو گرافر کے پاس گیا اور اسے کہا کہ وہ میری ایک خوبصورت سی تصویر بنادے۔ اس بدبخت نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا اور پھر کہا’’جناب آپ عجیب آدمی ہیں، آپ کو جو فرمائش اللہ تعالیٰ سے کرنا چاہئے تھی وہ آپ مجھ سے کررہے ہیں‘‘ مگر میں نے اس کی اس بدتمیزی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا’’تم کوشش تو کرسکتے ہو‘‘۔ اس پر اس نے دل آزاری کے کچھ مزید جملے بولے مگر میری طرف سے جواب نہ پاکر اس نے مجھے تصویر کھنچوانے کے لئے اس اسٹول پر بیٹھنے کو کہا جس پر اس کے بقول ریما اور رنگیلا مرحوم بھی بیٹھ چکےتھے۔ یہ ریما کو میں نے نظریہ ضرورت کے تحت اپنی طرف سے شامل کیا ہے ورنہ اس بدبخت نے صرف رنگیلے کا نام لیا تھا۔اس کے بعد اس نے لائٹ وغیرہ سیٹ کی اور پھر مجھے مسکرانے کے لئے کہا میں نے کہا’’میں اس مسکراہٹ ہی سے تو جان چھڑانا چاہتا ہوں برائے کرم تم میری کوئی بہت غصے والی تصویر کھینچو تاکہ قارئین کو اگر میری تحریر سے نہیں تو کم از کم تصویر سے اندازہ ہو کہ میں ملکی حالات پر کس قدر غصے میں ہوں۔‘‘
اس پر وہ بولا’’تو پھر آپ غصے والی شکل بنائیں!‘‘ میں نے غصے والی شکل بنانے کی کوشش کی تو اس نے پوچھا ’’جناب! کیا آپ یہ تصویر شرارتی بچوں کے والدین کی فرائش پر اتروارہے ہیں؟‘‘۔مجھے اس کا یہ سوال عجیب سا لگا، چنانچہ میں نے اسے وضاحت کے لئے کہا تو وہ بولا ’’میں جاننا چاہتا تھا کہ کیا شرارتی بچوں کے والدین نے اپنے بچوں کو’’بائوو‘‘ سے ڈرانے کے لئے اس تصویر کی فرمائش کی ہے؟‘‘ ۔ ظاہر ہے یہ فوٹو گرافر اب حد سے بڑھتا جارہا تھا، چنانچہ میں نے سخت لفظوں میں تنبیہ کرتے ہوئے اسے اپنے کام سے کام رکھنے کی تلقین کی اور ایک بار پھر پوز بنا کر بیٹھ گیا۔ اس دفعہ فوٹو گرافر نے مجھ سے بھی زیادہ برا منہ بناتے ہوئے کیمرے کا بٹن دبایا اور دس منٹ بعد منہ دوسری طرف پھیر کر وہ تصویر میرے ہاتھ میں تھما دی جو آپ ان دنوں میرے کالم کے ساتھ دیکھ رہے ہیں!
اب اس پر ایک بار پھر’’عوام‘‘ میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے خصوصاً خوش باش عیش پوری کے پیروکاروں نے ای میل، ایس ایم ا یس، ٹیلیفون کالز اور خطوط کے ذریعے میرا ناطقہ بند کیا ہوا ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ کیا کوئی اخبار اس طرح کی تصویر دیکھنے کے لئے خریدا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے کچھ اور کالم نگاروں کی تصویروں کا حوالہ بھی اتنے ہی منفی انداز میں دیا ہے۔ میں نے ان میں سے ایک صاحب کو فون کیا اور پوچھا’’آپ لوگ اخبار میں ہم لوگوں کی تصویر دیکھتے ہیں، ہمارے کالم نہیں پڑھتے!‘‘ انہوں نے جواب دیا’’کالم پڑھنے کا فیصلہ تصویر دیکھنے کے بعد کیا جاتا ہے!‘‘۔ میں نے پوچھا ’’وہ کیوں؟‘‘ بولے’’ اس لئے کہ کالم میں جھوٹ بولا جاسکتا ہے مگر تصویر جھوٹ نہیں بولتی، چنانچہ کالم نگار کے ظاہر میں اس کا باطن صاف نظر آجاتاہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے راقم الحروف اور میرے دو ایک دوسرے کولیگز کی تصویروں کی ’’تحلیل نفسی‘‘ کرتے ہوئے ہمیں معاشرے کے جن افراد کی صف میں کھڑا کیا سچی بات یہ ہے کہ اس کے بعد ہم پر خودکشی واجب ہوجاتی ہے۔
تصویر کے حوالے سے موصول ہونیوالی دوسری آراء بھی کم و بیش اسی نوعیت کی تھیں، چنانچہ میں نے اپنے ہمعصر کالم نگاروں کو مطلع کئے بغیر حال ہی میں اپنی ا یک ایسی تصویر کھینچوائی ہے جس میں فوٹو گرافر نے اپنی تمام صلاحیتیں اس امر پر صرف کردی ہیں کہ اس ظاہر پر میرے باطن کی کسی کو ہوا نہ لگنے پائے۔
تاہم مجھے یقین ہے کہ اس پر بھی انگلیاں اٹھانے والے بہت ہوں گے اور وہ عجیب عجیب نکتے سامنے لائیں گے لیکن اب میں نے سوچا ہے کہ کسی قسم کی منفی رائے کو درخور اعتنا نہ سمجھا جائے بلکہ منفی ردعمل ظاہر کرتے ہوئے قارئین سے پوچھا جائے کہ کیا آپ کو دہشت گردوں، فرقہ پرستوں اور دوسرے دو نمبر کام کرنے والوں کے منحوس چہرے دکھائی نہیں دیتے۔ یقیناً یہ سب کچھ آپ کو نظر آتا ہے اور صرف نظر نہیں آتا بلکہ آپ انہیں برداشت بھی کررہے ہیں اور پورے صبر و اطمینان کے ساتھ کررہے ہیں اگر صورتحال یہی ہے اور یقیناً یہی ہے تو براہ کرم ہم کالم نگاروں کی تصویروں کے معاملے میں بھی اپنی چونچ بند رکھیں، اگر کسی نے زیادہ اونچ نیچ کی تو یاد رکھیں بہت بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ میرے خفیہ رابطے ہیں۔ وہ آپ کو ایسے’’ہٹ‘‘ کریں گے کہ آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہاں سے ہٹ کیا گیا ہے۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں،وماعلینا الاالبلاغ

.