’’قومی ریاست ‘‘میں مذہبی امتیاز اور جبر کا خاتمہ

March 16, 2017

پنجاب پولیس نے جو نیا ڈ یجیٹل سسٹم شروع کیا ہے آج ہمارا ارادہ تو اس پر کالم لکھنے کا تھا کیونکہ اس پروقار تقریب میں جناب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے خیالات کو براہ راست سننے کے بعد جو نئی توقعات پیدا ہوئیں اور تھانہ کلچر میں جس تبدیلی کی باتیں کی جا رہی ہیں انہیں زیر بحث لایا جانا چاہیے۔ وزیر اعظم کی یہ بات بڑی اہم ہے کہ ہم ایسے پولیس ا سٹیشن چاہتے ہیں جنہیں مظلوم عوام اپنی پناہ گاہ سمجھیں۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف ہماری پولیس جس عزم نو کے ساتھ بر سر پیکار ہے اُس کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیے لیکن اسی روز میاں نواز شریف نے جامعہ نعیمیہ میں علمائے دین کے سامنے یہ سوال رکھا کہ وہ دینی مدارس میں دی جانے والی تعلیم کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بتائیں کہ یہ مدارس قوم کو متحد کر رہے ہیں یا تقسیم در تقسیم؟ انہوں نے جہاں جہاد اور دہشت گردی میں فرق واضح کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے، وہیں علمائے دین سے یہ تقاضا بھی کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے دلائل کا جواب دیں کیونکہ دہشت گرد اپنی تمامتر غیر انسانی وارداتوں کو اسلام کے مقدس نام کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ بلاشبہ وزیراعظم کی یہ درد مندی اس قابل ہے کہ اس پر ایک نہیں درجنوں کالم آنے چاہئیں یقیناً ہم بھی اس پر اظہارخیال کریں گے مگر اس سے اگلے روز ہندو برادری کی ہولی کا تہوار تھا۔ اس موقع پر وزیراعظم پاکستان نے اپنا جو سرکاری پیغام جاری کیا ہے اس پر ہمارے میڈیا نے کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے، حالانکہ اسے پڑھ کر یوں محسوس ہورہا تھا جیسے 11اگست1947ء کے بعد قائدؒ کی فکری روح وزیراعظم نواز شریف کے وجود یا سراپے میں حلول یا سرایت کر گئی ہے۔
اپنے اس پیغام میں وزیراعظم نے جہاں یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ قائداعظمؒ کے عہد کو نبھائیں گے وہیں قائد کے وہ تاریخی الفاظ بھی دہرائے ہیں کہ ’’پاکستان میں ہر کسی کو اپنے عقیدے کے مطابق عبادات کی آزادی ہوگی‘‘۔ وزیراعظم نے کہا ’’قائد ِاعظمؒ نے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا ریاست پاکستان اُسے نبھانے کی پابند ہے۔ اس معاملے میں کوتاہی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ہندو برادری نے دوسرے مذاہب کے بھائی بہنوں کے ساتھ مل کر وطن عزیز کی ترقی میں جو رول ادا کیا ہے پوری قوم اس کی معترف ہے، ہمیں یکجان ہو کر آگے بڑھنا ہے اور ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جس میں ہر کوئی اپنے آپ کو آزاد سمجھے اور اسے کسی جبر کا سامنا نہ کرنا پڑے‘‘۔
ہم جناب وزیراعظم کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہاں لبرل سوچ رکھنے والوں کے لیے، چاہے ان کا تعلق کسی مکتبہ فکر سے ہو، ان کا اصل مسئلہ ہی مذہبی جبر سے ہے، بیچاری مذہبی اقلتیں تو رہ گئیں ایک طرف یہاں تو جاوید غامدی صاحب جیسے راسخ مسلمان کے ساتھ محض ان کی تھوڑی روشن خیالی کی وجہ سے جو سلوک ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ انہیں ترک وطن کرتے ہوئے بردار ملک ملائیشیا میں پناہ لینی پڑی ہے۔ اس سے قبل ڈاکٹر فضل الرحمٰن جیسے معروف دانشور اور مدبر انسان کے ساتھ محض فکری و نظری اختلافات کی بنیاد پر جو سلوک روا رکھا جا چکا ہے وہ اس سے بھی برا تھا۔ مذہبی جبر کی ایسی فضا میں وزیر اعظم نواز شریف کا ہولی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ’’وطن عزیز میں جبراً مذہب تبدیل کرانا سنگین جرم ہے۔ دنیا میں جنت اور دوزخ کا فیصلہ کرنے والوں کا ایجنڈا کامیاب نہیں ہونے دیں گے ‘‘۔ تمام مذاہب کا درس انسانیت کا احترام ہے۔ مساجد، گرجا گھروں، مندروں اور دوسری عبادت گاہوں کا تحفظ کریں گے پاکستان مذہبی تصادم کے لیے نہیں اسے روکنے کے لئے بنایا گیا تھا‘‘۔
بیس بائیس کروڑ انسانوں کے منتخب نمائندے کے منہ سے ایسی شعوری باتیں سن کر جو خوشی ہوئی ہے اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، کاش! وزیراعظم کے یہ الفاظ نہ صرف سلیبس میں شامل کیے جائیںبلکہ عوامی مقامات پر آویزاں کئے جائیں۔یہ بھی واضح رہے کہ وزیراعظم نواز شریف پیدائشی طور پر کوئی لبرل سیکولر آدمی نہیں ہیں، وطن عزیز کے وہ ایک ایسے ہردلعزیز رہنما ہیں جن کی قیادت میں تمام بڑی بڑی مذہبی جماعتوں نے بھی عرصہ دراز تک ایکا کئے رکھا۔ ضیاء الحق کی اسلامائیزیشن کا بھی وہ مضبوط حصہ رہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ میری عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے۔ ایک طویل فکری و شعوری سفر طے کرتے ہوئے حالات اور وقت کے تھپیڑوں نے آج انہیں اس مقامِ حقیقت تک پہنچا دیا ہے جہاں 11اگست47ء کو ہمیں بابائے قوم پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں، تو معاملہ محض نشستند، گفتند اور برخاستند تک نہیں رہنا چاہیے۔ اس مبنی برحقائق بیانیے کے ثمرات پوری قوم کے کمزور، مجبور اور جبر کے ہاتھوں لاچار دبے ہوئے طبقات تک پہنچنے چاہیں۔ اس واضح فکر کا اظہار ہماری تمام قومی پالیسیوں اور ریاستی قوانین میں بھی ہونا چاہیے۔
الحمدللہ آج وطن عزیز میں ایک نوع کی شعوری تبدیلی آرہی ہے، خود وزیراعظم کے اپنے الفاظ میں جو ہولی کے پر مسرت موقع پر جاری کئے گئے، کہا گیا ہے کہ ’’ہولی موسم کی تبدیلی اور بہار کی آمد کا اعلان ہے۔ یہ امید اور بہتر مستقبل کا پیغام ہے جس طرح سرما کا موسم بہار میں بدلتا ہے، اسی طرح معاشروں کے حالات بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ پاکستان کا موسم بھی تبدیل ہو رہا ہے، یہاںبھی بہار آرہی ہے ‘‘ ہولی کی تقریب میں جب کسی نے وزیراعظم کا سواگت کرتے ہوئے کہا کہ ’’بہارو! پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے ‘‘ تو وزیراعظم نے عمر رفتہ کو آواز دیتے ہوئے کہا کہ ’’کاش! آپ نے دس سال پہلے یہ گانا یاد دلایا ہوتا تو میں آپ کو اس انداز میں سناتا کہ آپ کیلئے پہچاننا مشکل ہو جاتا کہ یہ آواز میری ہے یا محمد رفیع کی‘‘۔ محمد رفیع جنوبی ایشیاکے وہ عظیم گائیک تھے کہ جنہیں فن موسیقی کا دیوتا قرار دیا جاتا ہے، مجھے دو دہائیاں قبل میرے دوست سابق آئی جی سردار محمد چوہدری نے بتایا تھا کہ نواز شریف رفیع صاحب کی آواز میں اتنا خوبصورت گاتے ہیں کہ کسی دن آپ کو سنوائوں گا تو آپ کو لطف آجائے گا۔

.