سوشل میڈیا پرگستاخانہ مواداور مسلم دنیا

March 26, 2017

مغرب ایک مدت سے دنیا پر اسلام کے ازسرنو غلبے کے جس خوف میں مبتلا ہے اس کا اظہار مسلم خواتین کے حجاب اور مسجد کے میناروں کے خلاف مہم جوئی نیز اخبارات میں مقدس اسلامی شخصیات کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی شکل میں تو برسوں سے جاری تھا مگر پچھلے کچھ عرصے سے اس مقصد کے لئے جھوٹے اور اشتعال انگیز پروپیگنڈے کے ذریعے سوشل میڈیا کو بھی بھرپور اور منظم طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ پچھلے دنوں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے اس معاملے کا نوٹس لیا اور اس مذموم سلسلے کے خلاف مؤثر اقدامات کی ہدایات جاری کیں جن پر وفاقی وزارت داخلہ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے داخلی طور پر کئی اہم اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے ڈھائی ارب مسلمانوں کو اس ضمن میں مشترکہ حکمت عملی پر یکجا کرنے کی خاطر اسلامی ملکوں کے سفیروں کے اجلاس کا اہتمام بھی کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی صدارت میں گزشتہ روز ہونے والے اس اجلاس میں چھبیس مسلم ملکوں کے سفیروں نے شرکت کی۔ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کا جواب دینے کے لئے مسلم ملکوں کے سفیروں نے پاکستان کی پیش کردہ حکمت عملی پر اصولی طور پر اتفاق کرتے ہوئے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے بجا طور پر اس موقف کا اظہار کیا کہ کوئی بھی قانون کسی مذہب کو بگاڑنے یا اس کا احترام ملحوظ نہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مسلم ملکوں کے سفیروں نے اجلاس کے مقصد سے مکمل اتفاق کا اظہار کیا اور فیصلہ کیا کہ وزارت خارجہ تمام قانونی اور تکنیکی امور کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک جامع حکمت عملی پیپر مرتب کرکے مسلم ملکوں کے سفیروں کو ارسال کرے گی جس پر وہ اپنی حکومتوں کو اعتماد میں لیں گے تاکہ آئندہ کا لائحہ عمل وضع کیا جا سکے۔ عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکریٹری جنرلز کو ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جبکہ اسلامی ملکوں کی حکومتوں کی تجاویز موصول ہونے کے بعد اس معاملے کو پوری مسلم دنیا کی جانب سے اقوام متحدہ میں اٹھایا جائے گا اور جن ملکوں سے گستاخانہ مواد سوشل میڈیا پر ڈالا جا رہا ہے، ان ملکوں کی عدالتوں میں بھی اس معاملے کو اٹھایا جائے گا۔ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی روک تھام کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفقہ لائحہ عمل کی تیاری کے لئے یہ اجلاس طلب کرکے وفاقی وزیر داخلہ نے یقیناً اسلامی حمیت اور احساس ذمہ داری کا خوش آئند مظاہرہ کیا ہے اور مسلم ملکوں کے سفیروں نے اس پر اپنے مثبت ردعمل کا اظہار کرکے اس امکان کو روشن کر دیا ہے کہ یہ ابتدائی کاوش کم از کم اس معاملے میں پورے عالم اسلام کے اتحاد کا ذریعہ ثابت ہو گی۔ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مغرب کے جو حلقے مسلمانوں کی مقدس مذہبی شخصیات کی شان میں گستاخیوں کے ارتکاب کو جائز قرار دیتے ہیں ان کے موقف کے بودے پن کو ظاہر کرنے کے لئے پوپ فرانسس کے یہ الفاظ کافی ہیں کہ اگر تم کسی کی ماں کو گالی دو تو جواباً اپنے منہ پر تھپڑ کھانے کے لئے بھی تیار رہو۔ تاہم مسلمانوں کو دل آزاری اور شرپسندی کے اس مذموم کھیل کے پیچھے چھپے اصل مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے ردعمل کے اظہار کے طریقوں کا تعین کرنا چاہئے۔ اس اشتعال انگیزی کا اصل مقصد مسلمان عوام کو پرتشدد احتجاج پر اکسانا ہوتا ہے تاکہ اسلام کو دہشت گردی کا علم بردار قرار دے کر بدنام کیا جا سکے۔ اسلام اپنی معقول اور اعتدال پسندانہ تعلیمات کے باعث مغرب میں پچھلے کچھ عشروں میں جس تیزی سے مقبول ہوا، یہ مذموم حکمت عملی اس کا راستہ روکنے کی خاطر اختیار کی جارہی ہے۔ لہٰذا اس کا صحیح توڑ جھوٹے پروپیگنڈے کے جواب میں اسلام کی اصل تعلیمات اور حقائق کو پیش کیا جانا ہے اور اس کے لئے جس طرح اسلام دشمن عناصر سوشل میڈیا کو استعمال کر رہے ہیں اسی طرح مسلمان اہل علم کو بھی اس ذریعے کو مؤثر طور پر استعمال کرنا چاہئے جبکہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورموں پر اس معاملے کو اٹھا کر اس کی روک تھام کے لئے قانون سازی کے لئے نتیجہ خیز پیش رفت بھی یقینی بنائی جانی چاہئے۔

.