کہاوتوں کا پوسٹ مارٹم

March 26, 2017

’’ہر انسان کے تین روپ ہوتے ہیں۔ ایک، دنیا کو دکھانے کے لئے۔ دوسرا، دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے۔ جبکہ تیسرا روپ انسان کسی کو نہیں دکھاتا اور یہی اُس کا اصل چہرہ ہوتا ہے‘‘۔
یہ بات جاپانی کہاوت کے طور پر مشہور ہے۔ ویسے عین ممکن ہے یہ کہاوت نہ ہو بلکہ کسی شریف آدمی کے ناول کا کوئی مکالمہ ہو لیکن مجھے ذاتی طور پر چونکہ کہاوتیں پسند ہیں اس لئے میں اس قسم کی بات کو کہاوت ہی کہوں گا کیونکہ جونہی کسی بات کے ساتھ لفظ ’’کہاوت‘‘ لگتا ہے، اس میں دانائی خود بخود عود آتی ہے، اور اگر کہیں ساتھ میں جاپانی، چینی یا افریقی جوڑ دیا جائے تو سمجھو کام پکا، اب کوئی مائی کا لعل کہاو ت میں بیان کی گئی آفاقی سچائی کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ میں لاکھ سر پیٹتا رہوں کہ جناب والا انسان اگر سرکاری ملازم ہو تو اُس کے تین نہیں پانچ روپ ہوتے ہیں۔۔۔۔ ایک باس کے سامنے، دوسرا ماتحتوں کے سامنے، تیسرا سائل کے سامنے، چوتھا گھر والوں کے سامنے اور پانچواں نیب کے سامنے۔۔۔ مگر یہ ترتیب کوئی نہیں مانے گا جب تک اِس بات کے ساتھ کہاوت کا دم چھلا نہ لگا دو اور فقط کہاوت کہنے سے بھی کام نہیں چلے گا، بتانا پڑے گا ’’ایک قدیم روسی کہاوت‘‘ پھر جاکر بات میں دم آئے گا۔
ایک مشہور کہاوت ہے ’’جتنی چادر دیکھئے اتنے پیر پھیلایئے‘‘۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اکبر بادشاہ کے جی میں آئی کہ سردیوں کے موسم میں غریبوں کے لئے لحاف بنوائے جائیں، بیبربل کو لحاف کی تیاری کا حکم دیا گیا، جب لحاف بن کر آئے تو بادشاہ سلامت نے ایک لحاف خود اوڑھ کر چیک کیا، اکبر کا قد لمبا تھا اس لئے اس کے پیر لحاف سے باہر نکل آئے، یہ دیکھ کر بیربل نے برجستہ کہا ’’جتنی چادر دیکھئے، اتنے پیر پھیلائیے!‘‘ ویسے مجھے اِس کہاوت کے ماخذ پر کچھ شبہ ہے، یہ ٹھیک ہے کہ اکبر کافی ’’جولی‘‘ قسم کا روشن خیال بادشاہ تھا اور بیربل بھی اُس سے خاصا بے تکلف تھا مگر جس نالائقی کا مظاہرہ موصوف نے یہاں کیا، اگر اپنے خادم اعلیٰ ہوتے تو اسے کم از کم معطل ضرور کرتے۔ پھر اگلے روز اخبارات میں ’’جھلکیاں‘‘ شائع ہوتیں ’’خاد م اعلیٰ کا لحافوں کا معائنہ۔ ناقص تیار ی پر بیربل معطل۔ اس موقع پر بڑھیا نے خادم اعلیٰ کا منہ چوم لیا۔ تینوں رب دیاں راکھاں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ بیربل کی تمام تر دانائی اُس معطلی کے حکم نامے کے ساتھ ہی گھاس چرنے چلی جاتی۔
یہ حکایت آپ نےضرور سنی ہوگی کہ ’’چراغ تلے اندھیرا‘‘۔ مطلب بھی صاف ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک سوداگر اپنا مال اسباب لے کر دوسرے شہر جا رہا تھا، سفر طویل تھا، رات ہو گئی تو اُس نے قریب ہی بادشاہ کے قلعے کی دیوار ساتھ پڑاؤ کر لیا، رات کو ڈاکوؤں نے اسے آن لیا اور تمام مال لوٹ کر چلتے بنے۔ سوداگر صبح روتے دھوتے بادشاہ کے دربار میں پہنچا اور فریاد کی کہ وہ اُ ن کے زیر سایہ لُٹ گیا ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ تو نے اپنے مال کی خود حفاظت کیوں نہ کی؟ اُس نے کہا جہاں پناہ میں نے سوچا کہ بادشاہ کے قلعے کی فصیل سے زیادہ محفوظ جگہ بھلا کیا ہو سکتی ہے۔ اِس پر بادشاہ نے جواب دیا تو نے جلتا ہوا چراغ نہیں دیکھا کہ چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے! سوداگر اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ اس کہاوت کے بارے میں بھی مجھے کچھ شبہ ہے، دراصل یہ کچھ یوں ہوگی کہ 2مئی کو جب ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز ہیلی کاپٹر کے ذریعے اترے تو انہیں یقین نہیں تھا کہ قلعہ نما مکان میں اسامہ بن لادن انہیں مل جائے گا، دروازے توڑ کر جب وہ اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ اسامہ ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول ہاتھ میں لئے چینل تبدیل کر رہا ہے، تب امریکیوں نے اُس کے ساتھ مکالمہ کیا ہو گا اور پوچھا ہو گا کہ حضرت آپ یہاں چھپے بیٹھے ہیں، کیا یہاں پکڑے جانےکا خوف نہیں؟ اس پر انہوں نے جواب دیا ہوگا کہ کیا تم لوگوں نے جلتا ہوا چراغ نہیں دیکھا کہ چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے اور امریکیوں کی بولتی بند کروا دی ہو گی۔
ایک نسبتاً غیر معروف سی کہاوت دیکھئے۔ ’’پلے پارس بیچیں تیل، یہ دیکھو قدرت کے کھیل‘‘ یہ بات اُن لوگوں کے بارے میں کہی جاتی ہے جن کے پاس دولت ہو مگر اِس کے باوجود وہ زمانے میں ذلیل ہوتے پھریں یا ایسا صاحب کمال شخص جو اپنی قدر ہی نہ جانے۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ جہانگیر کے زمانے میں ایک نوجوان سر پر تیل کا ڈبہ رکھ کر تیل بیچنے کی آوازیں لگا رہا تھا، اُس کا گزر نور جہاں کی قیام گاہ سے ہوا، نور جہاں نے نوجوان کو روک کر تیل خریدنا چاہا، نوجوان نے ترازو میں پتھر کے باٹ رکھے اور تیل کا وزن شروع کیا، اِن پتھروں میں ایک پارس بھی تھا جس کی نوجوان کو خبر نہ تھی اور وہ اسے عام پتھروں کی طرح سمجھ رہا تھا، نور جہان کو پارس کی پہچان تھی، وہ پارس دیکھتے ہی پکار اٹھی ’’پلے پارس بیچیں تیل، یہ دیکھو قدرت کے کھیل‘‘ اس کہاوت کا ماخذ بظاہر ٹھیک ہی لگتا ہے، راوی البتہ اس ضمن میں خاموش ہے کہ بعد ازاں پارس پر نور جہاں نے قبضہ کرلیا یا نوجوان کو اُس بارے میں بریفنگ دے کر ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ ذاتی طور پر مجھے اِس کہاوت میں پوشیدہ سبق بہت پسند آیا ہے، اپنے اردگرد ہم بے شمار لوگ ایسے دیکھتےہیں جنہیں خدا نے بے بہا دولت سے نوازا ہے مگر اس کے باوجود وہ ذلیل ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں، اُن کا مال و دولت وفات کے بعد اُن کے دامادوں کے کام آتا ہے، جب تک زندہ رہتے ہیں کروڑوں کا کاروبار ایسے کرتے ہیں جیسے سر پر مٹکا رکھ کر تیل بیچ رہے ہوں۔ ایسے ہی ایک صاحب کو میں جانتا ہوں جن کا کیٹرنگ کا وسیع و عریض بزنس ہے، کروڑوں کی جائیداد ہے مگر جس روز اُن کا ڈرائیور چھٹی پر ہو اور کہیں بریانی کی دیگ پہنچانی ہو تو موصوف گاڑی میں دیگ رکھ کر خود ڈیلیوری دینے پہنچ جاتےہیں۔ اسی کہاوت کی اگر ہم ذرا وسیع تشریح کریں تو یہ بات اُن عورتوں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے جو حُسن کی دولت سے مالا مال ہوں مگر ٹکے ٹکے کے لوگوں کے آگے رسوا ہوتی پھریں۔ یہ ذرا باریک بات ہے اور اِس بارے میں یہ کہہ کر بھی جان نہیں چھڑائی جا سکتی کہ یہ ’’ذکر پھر کبھی‘‘ سو اس باب میں اتنا ہی کافی ہے کہ دولت مند یا صاحب کمال لوگوں کی طرح یہ کہاوت حسین عورتوں پر بھی یکساں طور پر نافذ العمل ہے۔ مزید جاننے کے لئے ملاحظہ ہو کہاوت ’’عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے!‘‘
نوٹ:اس کالم میں کہاوتوں کا پس منظر ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی کتاب ’’اردو کہاوتیں‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔



.