مسلم لیگ ن کا ٹکٹ اب تحفہ نہیں ہوگا؟

April 06, 2017

2013کے عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کا ٹکٹ لینے والوں کی لمبی قطار تھی۔ انتخابات سے قبل مرحوم استاد ڈاکٹر احسن اختر ناز کہا کرتے تھے کہ اس مرتبہ مسلم لیگ ن کا ٹکٹ نہیں بلکہ تحفہ ہوگا۔ جس کا عملی مظاہر ہ گزشتہ عام انتخابات میں بھی دیکھا گیا۔ ہر حلقے سے بڑے بڑے برج الٹ گئے اور شیر کے انتخابی نشان پر لڑنے والے غیر مقبول امیدوار کامیاب ہوئے۔ جنوبی پنجاب کے بیشتر اضلاع میں80,80ہزار ووٹ لے کر مخالفین ہار گئے اور شیر کے انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لینے والے کامیاب قرار پائے۔ مظفر گڑھ جسے بی بی شہید منی لاڑکانہ کہتی تھیں۔ پیپلزپارٹی تمام نشستیں ہار گئی۔ راجن پور سے مضبوط سیاسی اتحاد میر بلخ شیر مزاری اور سردار نصراللہ دریشک کے امیدوار ہار گئے اور ایسے لوگ کامیاب ہوئے جو ماضی میں کبھی کونسلر نہیں بنے تھے۔ ڈیرہ غازی خان سے سردار فاروق لغاری مرحوم اور ذوالفقار کھوسہ کے جانشین اپنی آبائی نشستیں ہار گئے۔ ملتان کی بات کریں تو 80ارب روپے سے زائد کا فنڈ خرچ کرنے والا سابق وزیراعظم تمام نشستیں ہار گیا۔ رحیم یار خان سے مخدوم احمد محمود کے علاوہ شیر کے مقابلے میں کسی امیدوار نے میدا ن نہ مارا۔ یہی صورتحال بالائی پنجاب کے اضلاع کی تھی۔ اگر صرف لاہور ہی کی بات کریں تو سیاسی دشت کے پرانے کھلاڑی اعتزاز احسن کی بیگم گھر کی خاندان، لیاقت بلوچ سمیت کسی کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آیا۔ اوکاڑہ سے منظور وٹو جیسا سیاستدان بھی اپنی سیٹ نہیں بچا سکا۔ فتیانہ خاندان ہو یا پھر گوندل فیملی۔ ہر حلقے میں صرف شیر کے امیدوار نظر آئے۔ اس سارے انتخابی نتائج کی دو وجوہات تھیں۔
سب سے اہم وجہ تو یہ تھی کہ پانچ سال تک اقتدار پر فائز رہنے والی پیپلزپارٹی سے لوگ متنفر ہوچکے تھے۔ جبکہ دہشت گردی اور سنگین نتائج کو سامنے دیکھتے ہوئے پی پی پی کے امیدوار بھرپور انتخابی مہم چلانے سے محروم رہے۔ انتخابی جلسے سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کا اغوا ہونا ریاست کی سیکورٹی پر سوالیہ نشان تھا۔ نظریاتی و سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ موثر پیغام دینے کے لئے کسی کو اغواکرلے۔ پی پی پی کے صف اول کے رہنماؤں کے گھروں میں محصور ہونے سے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار خو ف کا شکار ہوگئے کہ پتہ نہیں ان کے ساتھ کیا ہوگا۔ بہرحال یوں مسلم لیگ ن کا انتخابی طور پر مقابلہ کرنے والی سب سے بڑی سیاسی جماعت پی پی پی میدان سے باہر ہوگئی۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اب مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان شروع ہوا۔ انتخابی سیاست سے نا آشنا تحریک انصاف کے سربراہ کو پنجاب کی سیاسی پیچیدگیوں کا ہی علم نہیں تھا۔ مسلم لیگ ن اب ایسی جماعت سے لڑ رہی تھی۔ جس کے پاس ووٹ بنک تو تھا مگر ووٹ ڈلوانے اور نتائج حاصل کرنے کا طریقہ نہیں آتا تھا۔ چونکہ اس خاکسار کا حلقوں اور انتخابی سیاست سے گہرا تعلق ہے۔ اس لئے بہتر انداز میں بیان کرسکتاہوں کہ الیکشن لڑنا ایک مکمل Recipeہے۔ پوری انتخابی مہم ایک طرف اور الیکشن کا دن اور پھر شام پانچ بجے سے رات آٹھ بجے تک کی اہمیت ایک طرف۔ پولنگ ایجنٹ مقرر کرنا، انتخابی نتائج حاصل کرنااور پھر کمزور یونین کونسلز میں ٹرن آؤٹ پر غور کرنا۔ یہ سب انتہائی اہم ہوتا ہے۔ مگر پہلی دفعہ ملک کے بیشتر حلقو ں سے حصہ لینے والی تحریک انصاف ان سب پیچیدگیوں سے لاعلم تھی۔ جبکہ حلقوں کی سیاست کے ماہر وزیراعظم نوازشریف اور ان کی ٹیم نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
اب جب ہم 2018کے عام انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ صاحب اقتدار جماعت مسلم لیگ ن ہے۔ عوامی توقعات وزیراعظم نوازشریف سے وابستہ رہی ہیں۔ ایسے میں حالات بہت مختلف ہونگے۔ 2018میں شیر کا انتخابی نشان تحفہ نہیں ہوگا۔ بلکہ مسلم لیگ ن کو سخت مقابلہ کرنا ہوگا۔ جس انداز میں وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے پریس کانفرنس کی ہے۔ حکومت کے سینئر ترین وزیر کی ڈھٹائی دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی ہے۔ چہ جائیکہ یہ کہ عوام کو بتایا جاتا کہ گزشتہ چار سالوں میں اتنے بجلی کے منصوبے لگائے گئے۔ اتنی اضافی بجلی نیشنل گرڈ کو مہیا کی جارہی ہے۔ بلکہ کہا گیا کہ لوڈشیڈنگ 10سے 12گھنٹے ہورہی ہے اور یہ یونہی جاری و ساری رہے گی، پھر انہوں نے اس کی وضاحت کی کہ یہ ان علاقوں میں ہے جہاں پر بجلی چوری ہوتی ہے۔ بلکہ موصوف وزیر پھر کہنے لگے کہ جہاں پر بجلی چوری ہورہی ہے، وہاں پر سپلائی ہی بند کردی گئی ہے۔ حکومت کے ذمہ دار شخص کا ایسا لب و لہجہ؟۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک تھانیداراپنے آئی جی کو خط لکھ دے کہ میرے علاقے کے فلاں محلے میں چوری بہت ہوتی ہے۔ اس لئے میری پولیس نے احتجاجاً وہاں پر گشت کرنا اور گرفتاریاں کرنا چھوڑ دی ہیں۔ ریاست کا کام بجلی بند کرنا نہیں بلکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو شکنجے میں لانا ہے۔ بجلی چوری کرنے والے کے احتساب کے بجائے بجلی بند کرکے کھیل ہی ختم کردیا ہے۔ بہرحال یہ تو صرف وزیر صاحب کی باتیں تھیں۔ میں چیلنج سے وزارت پانی و بجلی کو کہتا ہوں کہ صوبائی حکومتوں کے منصوبوں سے ہٹ کر اپنا کوئی ایک منصوبہ بتا دیں۔ جو مکمل ہوچکا ہو اور ان چار سالوں میں ایک میگا واٹ بجلی بھی اس منصوبے سے نیشنل گرڈ کو مہیا کی گئی ہو۔ میں اسلام آباد کے پوش علاقے میں رہتا ہوں۔ یہاں پر روزانہ آٹھ آٹھ گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔ حالانکہ ابھی تو گرمیوں کا آغاز بھی نہیں ہوا۔ مجھے دائرہ دین پناہ، روجھان مزاری سے لوگوں کے فون آتے ہیں جو 18، 18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا سامنا کررہے ہیں۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں کیا مثالی حالات ہونگے۔ عوام نے اسی لوڈ شیڈنگ پر پی پی پی سے اعلان لاتعلقی کیا تھا اور آپ کو ووٹ دئیے تھے۔ مگر حالات دوبارہ ماضی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ ابھی پاناما کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ فیصلہ جو بھی آجائے مگر عمران کو نئی زندگی مل چکی ہے۔ فیصلے میں مسلسل تاخیر مسلم لیگ ن کے لئے نقصان دہ ہے۔ جو ں جوں فیصلے کا انتظار کیا جارہا ہے۔ عام انتخابات قریب آتے جارہے ہیں۔ پاناما کیس میں نرم ترین فیصلہ بھی حکمران جماعت کے لئے کٹھن ترین فیصلہ ہوگا۔ حکمرا ن جماعت کے سیاسی مخالفین تمام بالا معاملات کو بھرپور اجاگر کریں گے۔ پیپلزپارٹی پہلے کی نسبت سنبھلی ہوئی نظر آرہی ہے۔ عمران خان بھی محتاط ہوںگے۔ ایسے میں مسلم لیگ ن کو 2018میں سخت مقابلہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ وزارت پانی و بجلی مسلم لیگ ن کے ساتھ وہی کچھ نہ کرے جو راجہ پرویز اشر ف صاحب نے اپنی جماعت کے ساتھ کیا تھا۔ وزیراعظم نوازشریف کسی اور کی معلومات پر مت جائیں۔ صرف اپنے کسی ایماندار افسر کی ڈیوٹی لگادیں کہ گزشتہ چارسالوں کے دوران وزارت کی کارکردگی کیسی رہی ہے؟ حقائق آپکے سامنے آجائیں گے۔ شاید ساکھ اور دیانتداری کے حوالے سے بھی ہماری نظریں جھک جائیں گی۔ مگر یہ سب سچ ہے۔ جس کا آج نہیں تو کچھ عرصے بعد حکومت کو سامنا کرنا پڑے گا۔



.