بڑی عالمی جنگ کے آثار

April 11, 2017

دُنیا ایک بہت تیز رفتار سیاسی و دفاعی تبدیلیوں کے دور سے گزر رہی ہے اور پاکستان بھی اس تیز رفتاری کی زد میں ہے، بھارت میں نریندر مودی کے وزیراعظم بننے اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اس دُنیا اور اس میں موجود حیات کو سخت خطرات لاحق ہوچکے ہیں، اسرائیل کا عمل اُس کے وجود کے وقت سے ہی دُنیا کیلئے خطرے کی علامت رہاہے، یہ تکون دُنیا کیلئے نیک شگون نہیں۔ حالات بہت تیزی کے ساتھ ایک بڑی جنگ کی طرف جارہے ہیں، جس کی نشاندہی ہم تین سال پہلے اس طرح کر چکے ہیں کہ عالمی امراء جن میں راک فیلر اور ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہیں کا فیصلہ ہے کہ دُنیا کا یہ نظام جس میں امریکہ کو بالادستی حاصل ہے اور پیٹرو ڈالر دُنیا کی تجارتی کرنسی ہے وہ اب گل سڑ گیا ہے۔ اُس کو چین اور روس کی طرف سے چیلنج کا سامنا ہے، کیونکہ چین اور روس نے مل کر برکس جیسا بینک بنا لیا ہے جو آئی ایم ایف اور ورلد بینک کے مدمقابل آگیا ہے اور چین نے ترقیاتی بینک اس طرح کا بنا لیا ہے کہ وہ دُنیا کے غریب ممالک کو کم شرح سود پر قرضہ دے سکے۔ لے دے کر امریکہ کے پاس فوجی طاقت رہ گئی ہے، اِس کو استعمال کرکے یہ امراء ایک دفعہ پھر امریکی بالادست نظام بحال کرنا چاہتے ہیں، اس کیلئے انہوں نے چار مرحلے مرتب کئے، پہلے وہ یورپی یونین کو کمزور کریں کہ یورپی یونین روس اور چین کے ساتھ مل کر کوئی کردار ادا نہ کرسکے، اس کیلئے برطانیہ کو یورپی یونین سے نکلوایا، یہ اقدامات برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے سے بہت پہلے لکھ چکے تھے، دوسرے مرحلے میں بڑے پیمانے پر یورپ اور امریکہ سے نقل مکانی ہوگی، جس کی تیاری زوروشور سے جاری ہے، تیسرے مرحلے میں دُنیا کساد بازاری کی زد میں آئے گی اور اُس کے بعد ایک بڑی جنگ، کیونکہ حالات بے قابو ہورہے ہیں اور تیزی سے امریکہ کے حساب سے منفی ہوتے جارہے ہیں، جیسے شام میں امریکی منصوبے کے برخلاف امریکہ کو روس اور دیگر طاقتوں نے مل کر روک دیا۔ ورنہ وہ یننون منصوبہ کے تحت شام کے چار ٹکڑے کر چکے ہوتے، عراق عملاً تین حصوں میں بٹ چکا ہے۔ اِس منصوبے کے تحت کردستان کی ایک نئی ریاست بنانا ہے جو پانچ ممالک کو توڑے گی، شام، عراق، ترکی، ایران اور آذربائیجان، یہاں ترکی اپنی سا لمیت کی جنگ لڑ رہا ہے اور وہ سا لمیت کو بچانے کیلئے کئی نہ سمجھ میں آنے والے اقدامات کررہا ہے، شام میں روس اور دیگر طاقتوں کی وجہ سے امریکہ کے مہلک ہتھیار داعش کو سخت ہزیمت اٹھانا پڑی تھی اور اُس کے بعد اب امریکہ نے شام کے شہر ادلب پر کیمیاوی حملہ کا جواز بنا کر بحراوقیانوس میں موجود اپنے بحری اڈے سے شام کے فضائی اڈے اور شہریوں کو 7 اپریل کی صبح نشانہ بنایا ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ وہ شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ کرکے رہیں گے۔ امریکہ کے اِس حملے نے صورتحال کو سنگین تر بنا دیا ہے، جس سے بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے اور خود اُن کے بنائے ہوئے مرحلوں سے صرفِ نظر کیا جاسکتا ہے، البتہ یہ جنگ انسانیت کیلئے سمِ قاتل ثابت ہوگی، تاہم جنگ کا خطرہ صرف شام میں ہی نہیں ہے بلکہ دُنیا بھر میں پانچ خطے ایسے ہیں جن میں کسی بھی وقت جنگ کی آگ بھڑک سکتی ہے، دیگر چار میں جنوبی بحر چین جہاں امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر چین سے تصادم کا ارادہ باندھے ہوئے ہے اور بس چنگاری لگانے کی دیر ہے، اُس کی وہاں کافی فوج اور بحری بیڑے موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی 60 فیصد بحری طاقت اس وقت جنوبی بحر چین میں جمع ہے، تیسرا بڑا خطرہ یوکرائن روس کے معاملات سے پیدا ہوچکا ہے اور چوتھا مسئلہ کشمیر ہے جہاں بھارت نقصانات کا اندازہ لگائے بغیر پاکستان سے تصادم کی پالیسی پر گامزن ہے جس نے پورے برصغیر کو تباہی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے اور پانچواں خطرہ شمالی قطبی علاقہ ہے جو ابھی دبا ہوا ہے مگر کسی بھی وقت وہ اٹھ کھڑا ہوسکتا ہے۔ لگتا ہے کہ کسی ایک جگہ جنگ کے بادل برسے تو یہ بارش ایک کے بعد دوسرے متنازع خطوں کو لپیٹ میں لے لے گی اور یوں بات ایک عالمی جنگ تک چلی جائے گی۔ لوگ کہتے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ ایک صفحہ پر نہیں ہے، میرا اس وقت بھی یہی کہنا تھا کہ ٹرمپ کو امریکی انتظامیہ ہی لے کر آئی ہے اور امریکہ کے اندر اس وقت جو بے چینی پائی جاتی ہے وہ جنگ کی صورت میں دب جائے گی اور امریکہ اپنی بالادستی کو قائم رکھنے میں دُنیا کو آتشی جنگ میں جھونکنے سے گریز نہیں کرے گا۔ یہ صورتحال اِس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ دُنیا کے تمام ممالک انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کریںاور تدبر سے کام لیں، تین ممالک امریکہ، بھارت اور اسرائیل دُنیا کو تباہی کا خطرہ مول لینے کے اقدامات کررہے ہیں۔ اس سے بچنے کی سبیل کرنا چاہئے۔ امریکہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کرانے کی جو پیشکش کی تھی وہ پاکستان نے تو قبول کرلی تھی مگر بھارت نے اس کو رد کردیا ہے۔ اس طرح اس نے غیرذمہ داری کا ثبوت دے کر برصغیر کو جنگ کے خطرے سے بچانے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے، اس لئے کہ وہ پاکستان کو ایک مضبوط اور طاقتور ملک کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتا کیونکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری پاکستان کو محفوظ، مضبوط اور خوشحال بنا دے گی اور بھارت کسی طور پر یہ نہیں چاہتا کہ ایسا ہو۔ ساری دُنیا اس وقت سخت اضطراب میں ہے، صورتحال میں سنگینی بڑھتی جارہی ہے۔ شام پر امریکی حملہ اُس کی واضح نشاندہی کرتا ہے، اگرچہ امریکہ نے یہ حملہ روس کو بتا کر کیا تھا مگر شام میں روس کے مفادات اس طرح ہیں کہ وہاں روس کا ایک فضائی اڈہ اور ایک بحری اڈہ موجود ہے، جس کا وہ دفاع کرے گا۔ اس کے علاوہ روسی اور امریکی بحری بیڑے شام کے قریب بحراوقیانوس میں موجود ہیں۔ جس سے صورتحال انتہائی سنگین ہوجاتی ہے اور اگر امریکہ اپنے منصوبے کو مختصر کرکے اپنی کائوبوائے پالیسی پر گامزن ہوگیا تو جنگ رک نہیں سکے گی۔ پاکستان اس صورتحال کیلئے اپنے آپ کو مناسب طور پر تیار کررہا ہے۔ پاکستان بھارت کے عزائم سے آگاہ ہے، وہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتا ہے، وہ افغانستان کے علاوہ کئی اور ممالک کے راستے استعمال کررہا ہے کہ وہاں سے دہشت گرد بھیجے اور پاکستان کو مشکلات میں ڈالے، مگر پاکستان چوکنا ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان جدید ہتھیار کے حصول میں کوشاں ہے اور جوابی کارروائی تو ایک طرف تدارک یا پیش بندی کے اقدامات اٹھانے کیلئے بھی ہمہ وقت مستعد رہتا ہے۔ بہرحال دُنیا جس صورتحال سے گزر رہی ہے اس پر امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا ہے کہ اگر کوئی جنگ کے بگل کی آواز نہیں سن پا رہا ہے تو وہ بہرہ ہی کہلائے گا۔



.