بھارت میں ووٹ بٹورنے کا آسان حربہ

April 17, 2017

جے پور کے نواحی علاقے میں واقع رام گڑھ، مویشی منڈی اور گائے بھینسوں کی تجارت کا اہم مرکز ہے۔ شمالی گاؤں رام گڑھ ،دیہات کے بہت سے لوگوں کی گزر بسر کا ذریعہ مویشیوں کی تجارت ہی ہے۔ یکم اپریل کو ہریانا کے مسلمان رہائشی، گوالے پہلو خان نے 76 ہزار کی مالیت سے تین گائیں اور ان کے بچھڑے دودھ کی پیداوار بڑھانے کے اعتبار سے خریدے ،تاکہ اپنے کاروبار کوپھیلاسکے،مگر یہ سودا اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوا۔

گزشتہ دنوں55 سالہ پہلو خان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گھر لوٹ رہاتھا جہاں اسے ’گؤ ‘ یعنی گائے کے محافظوں نے روک لیا۔ ٹرک ڈرائیورہندوہونے کی وجہ سے پچ نکلےلیکن پہلو خان مسلمان ہونے کی وجہ سے مار کھاتے کھاتے نڈھال ہوگئے جس کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ جان کی بازی ہارگئے۔

ہندو انتہا پسندجماعت بی جے پی کے پیروکار آج کل انسان سے زیادہ گائےکے تحفظ کا بیڑا اٹھائے نظر آتے ہیں اور اسے قومی پالیسی کی ترجیحات میں شامل کرلیا گیا ہے۔اترپردیش میں اسی ہندو انتہا پسندجماعت نے کئی ذبح خانے بھی بند کرادیئے ۔

اس کے ساتھ ساتھ ’گؤ رکھشا‘یعنی ’تحفظ گائے‘ نامی تحریک روز بروز زورپکڑتی نظر آرہی ہے ۔ اس کا مقصد بھی گائے ذیبحہ کرنے پر پابندی لگانا اوراس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو عمر قیداور سخت سزائیں دلوانے کا مطالبہ ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکمراں جماعت گائے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے رہی ہے اور اس حوالے سے تشدد کی مذمت نہیں کررہی۔ یہ دراصل 2019 کے اگلے الیکشن سے قبل ہندو ووٹر کو اکٹھا کرنے کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے لیکن بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ معاشرے میں یہ تفریق بڑھانے اور اقلیتوں کو دیوار سے لگانے کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

نئی دہلی میں اسٹڈی آف ڈویلپنگ سوسائٹیز سینٹر کے پروفیسر پیٹر رونالڈ ڈی سوزا نے کہا کہ یہ ’اپنا ملک واپس لو‘ جیسا رویہ ہے۔ نفرت کی سیاست کھیل کر مستحکم انتخابی اکثریت حاصل کرنے کی کوشش ہے لیکن اس کا نتیجہ بڑھتی بے چینی و تشدد اور معصوم لوگوں کی جانوں کے نقصان کی صورت میں برآمد ہوسکتا ہے۔

سن2014 میںاپنی ایک تحریک کے ذریعے نریندر مودی نے اس سرد پڑ جانے والی انتہا پسندی کی آگ کو بھڑکایا۔ اب اس تصور کے تحت مسلمانوں سے خود بخود سخت نفرت پیدا ہوتی ہے جن کے ہاں غذا ہے۔19 ویں صدی کے آخراور20 ویں صدی کے اوائل میں نوآبادیاتی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک میں ہندو انتہا پسندوں نے گائے کو سارے ہندوؤں اور ابھرتی ہندو قوم کی ماں کے روپ میں پیش کرنا شروع کیا۔ یہ نظرئیے آج بھی اتنا ہی جاندار اور طاقت رکھتا ہے۔

2014 میں بھی وزارت عظمیٰ کی مہم چلاتے وقت نریندر مودی نے جان بوجھ کر اس سرد پڑ جانے والی آگ کو ہوا دی اور خوابیدہ جذبات کو بھڑکادیا۔ مودی نے کھلے عام ’’گلابی انقلاب‘‘ کی مذمت کی، کہ بھارت گوشت برآمد کرنے والا دنیا کا بڑا ملک بن گیا تھا اور 2014 میں اس کی گائے کی گوشت کی ایکسپورٹ، جس میں سے زیادہ تر بھینس کا ہوتا تھا، 4.7 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ یہ بہت بلند شرح تھی کیونکہ 2009اور 2010 میں یہ برآمد 1.1 ارب ڈالر تھی۔

لیکن اب مودی کی زور پکڑتی بی جے پی قصابوں پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔ ترپردیش کے نئے وزیراعلیٰ اور شعلہ بیاں ہندو رہنما یوگی ادتیہ ناتھ نے ذبح خانوں کے خلاف کریک ڈاؤن سے اپنی حکومت کا آغاز کیا ہے، جس کی وجہ سے ریاست میں گوشت کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے، جو مسلمانوں کے لیے سستی خوراک تھی۔

اگجرات میں بی جے پی حکومت نے گائے ذبح کرنے پر عمر قیدکا تعین کرلیا ہے اور اس کے ساتھ ذبح کیلئے جانور لیجانے والے کیلئے 10 سال قید کی سزا سنائی گئی جس کے ساتھ اس کی گاڑی بھی ضبط کرلی جائے گی۔

مویشی تاجروں پر حکومتی دباؤ کے ساتھ ساتھ گائے محافظ انتہاپسندوں کا بھی خوف بیٹھ گیا ہے۔ ان انتہا پسندوں میں مختلف جماعتوں کے ساتھ بی جے پی کے پیروکار بھی شامل ہیں۔یہ انتہاپسند کارکونان سڑکوں پر گشت کرتے نظر آتے ہیں۔مویشی ٹرکوں کو ’اسمگلروں‘ کی شناخت کے بہانے روکتے اور تنگ کرتے ہیں۔ان تمام احکامات سے صاف نظر آرہا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کارروائی کی جارہی ہے۔

جے پور انجمن قصاباں کے صدر پپو قریشی نے بتایا کہ پھر یہ لوگ چیک کرتے ہیں کہ ٹرانسپورٹر ہندو ہے یا مسلمان۔ ہندو ہوتا ہے تو اسے تھپڑ وپڑ مار کر چھوڑ دیتے ہیں لیکن مسلمان کو بری طرح زدوکوب کرتے ہیں۔ بہت شدید تشدد کرتے ہیں۔بی جے پی کی حکومت والی ریاست راجستھان میں پہلو خان کو بھی دن دیہاڑے مصروف شاہراہ پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اس حملے کی ویڈیو میں گائے محافظ کسان اور اس کے ساتھیوں کو گھیرکر بری طرح لاٹھیوں سے مار رہے ہیں۔

اس کے بعد الٹا راجستھان پولیس نے پہلو خان پر ہی تحفظِ گائے قانون کی خلاف ورزی کے الزام میں فوجداری مقدمہ درج کردیا۔